ہندی ادب کا ”وار اینڈ پیس“ : یشپال کا ”جھوٹا سچ“


تاریخ نہ صرف قوموں کے مستقبل کا تعین کرتی ہے بلکہ عام انسانوں کی زندگیوں پر بھی گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ لاہور دھیرے دھیرے فرقہ وارانہ فسادات کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ناول کے کرداروں کی زندگیاں اس سے شدید طور پر متاثر ہونے لگتی ہیں۔ بھولا پاندھے کی گلی میں آوازیں لگا کر ٹافیاں بیچنے والے دولو ماما کو کوئی شخص خنجر گھونپ کر ہلاک کردیتا ہے۔ دولو ماما کی ناگہاں موت جے دیو پوری پر گہرا اثر کرتی ہے۔ اخبار کا ایک سب ایڈیٹر پوری سے اخبار کے لیے ایک ایڈیٹوریل لکھنے کے لیے کہتا ہے۔

وہ اپنے ایڈیٹوریل کا عنوان ”دولو ماما“ رکھتا ہے۔ بھولا پاندھے کی گلی کے باسی صبح اٹھ کر جب اخبار دیکھتے ہیں تو روزنامہ پیروکار میں شایع ہونے والا اس کا ایڈیٹوریل پڑھتے ہیں۔ یہ جوانی کے آئیڈیلزم اور جذباتی انداز میں ڈوبی ہوئی تحریر تھی۔ ایسا تیکھا ایڈیٹوریل لکھنے کی پاداش میں پوری کو اس کی ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔

اب پوری اور تارا کے لیے بہت کم مواقع باقی رہ جاتے ہیں۔ بھیانک فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔ جن کا آغاز راول پنڈی سے ہوتا ہے لیکن وہ بڑھتے بڑھتے لاہور کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ تقسیم کے قریب آتے ہی ماحول میں تشدد کا عنصر بڑھنے لگتا ہے۔ ملازمت ختم ہونے کی وجہ سے پوری پر گھریلو دباؤ میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اس سے تارا کی زندگی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ پوری اپنا اعتماد کھو دینے کی وجہ سے اس کی مدد سے بھی تائب ہونے لگتا ہے۔ اب تارا کی سگائی رکوانا اس کے بس سے باہر ہونے لگتا ہے۔ اسی دوران ایک فیصلہ کن لمحے میں تاریخ ان کی زندگی کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور گھر کے باسیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہے۔

تارا کا فائنل امتحان منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ شہر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی تارا کی سگائی کی تاریخ ہر گزرتے دن کے ساتھ نزدیک آتی جا رہی ہے۔ اس کی منگنی کو دو سال ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف پوری کی کنک میں بڑھتی دل چسپی دیکھ کر اس کے والد گردھاری لال اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے بھولا پندھے کی گلی اور گوال منڈی میں رہنے والوں کے درمیان موجود تفاوت کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ سماجی حد بندیوں کو عبور کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

تارا چار جانب سے نقصانات میں گھری جاتی ہے۔ جب وہ اپنے گھر اور والدین کو چھوڑ کر اسد احمد کے پاس جاتی ہے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ اس کے لیے اس کے نظریات اس کی زندگی سے زیادہ اہم ہیں۔ وہ تارا کے ساتھ بھاگنے پر اپنی پارٹی کو اہمیت دیتا ہے۔ تارا کا اسد سے یہ تعلق پوری کی نظروں میں آ جاتا ہے تو وہ اس کا بہانہ بنا کراس کا ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ اسی مقام سے ان کے جذباتی راستے ایک دوسرے سے یکسر الگ ہو جاتے ہیں۔

مئی، 1947 کے آتے آتے شہر میں قتل و غارت اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ لاہور شعلوں میں گھر جاتا ہے۔ پرانا لاہور جہاں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہا کرتے تھے، اب تباہی کے دہانے پر ہے۔ اب جو نقصان ہورہا ہے اس کی تلافی کسی طور ممکن نہ ہوگی۔ 3 جون کو تقسیم کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ کانگریس کی یہ پیش کش مان لیتی ہے کہ بنگال اور پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل کیے جائیں گے۔ لاہور کی قسمت غیر یقینی رہتی ہے۔ تارا اور پوری کا مستقبل کیا ہوگا۔

ماڈل ٹاؤن اب تک ایک محفوظ جگہ ہے، کنک اور اس کی بہن کے گھر والے اپنی چھت سے پرانے شہر میں لگی ہوئی آگ دیکھ سکتے ہیں۔ شاہ عالمی کے گردوپیش کے علاقے سے اٹھتے سرخ شعلے آسمان کی جانب لپک رہے ہیں۔ آزادی اور تقسیم کا وقت قریب آ رہا ہے۔ کنک کا خاندان جلد ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نینی تال کے لیے روانہ ہوجاتا ہے۔ کنک کے پاس اپنی جائیداد، دولت اور تعلیم کا دیا ہوا بھرپور اعتماد ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کا مقابلہ کرتی ہے۔

وہ پوری سے نینی تال میں ملنے کا وعدہ کرچکی ہے۔ جولائی کے آخر میں پوری تارا کی شادی کے فوراً بعد لاہور چھوڑنے کے لیے تیار ہوچکا ہے۔ اس دوران تارا اکیلی سی ہو چکی ہے اور اسے کوئی بھی راہ عمل سجھائی نہیں دے رہی۔ اسد اور پوری نے اسے قسمت کے حوالے کر دیا ہے، جو اس پر مسلط کی گئی تھی۔ 28 جولائی، 1947 کو ایک خاموش تقریب میں تارا بیاہ دی جاتی ہے۔ اس کی سخت آزمائش یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ شادی کا ماحول چاروں طرف سے شعلوں میں گھرے اس ماحول میں ذرا سی امید بیدار کرتا ہے۔

تارا دلہن بنی سومراج کا انتظار کرتی ہے۔ وہ آتے ہی اس پر طنز و تشنیع کے تیر برسانے لگتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تارا اس سے شادی کرنا نہیں چاہتی تھی۔ تارا اس کی سب باتوں کا جواب ایک خوفناک وحشت کے ساتھ دیتی ہے۔ جس کے بعد سومراج غصے میں اسے پلنگ سے اٹھا کر فرش پر پٹخ دیتا ہے اور اس کے نازک جسم پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اسی دوران گلی میں بھیانک افراتفری پھیل جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے صرف سومراج ہی نہیں بلکہ پورا قدیمی شہر ہی تشدد کے لیے امڈ آیا ہے۔ ان کے مکان میں آگ لگ جاتی ہے۔ سومراج چھلانگ مار کے زینے سے اتر کر نیچے چلا جاتا ہے۔ تارا اس کے پیچھے نہیں جا سکتی۔ زینہ بھی آگ کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔

تارا بھاگ کر چھت پر پہنچتی ہے اور خود کو بچانے کے لیے ساتھ والے گھر میں چھلانگ لگاتی ہے۔ لیکن فاصلہ کچھ زیادہ ہونے کی وجہ سے جب وہ اس مکان میں گرتی ہے تو اسے ٹانگ پر سخت چوٹ لگتی ہے۔ وہ ایک مسلمان کا گھر ہے لیکن وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہتی ہے۔ وہ شعلوں کی زد پر آئے شہر کی گلیوں سے دوڑتی ہوئی، خود کو بچاتی ہوئی گزرتی ہے۔ محلوں میں بھڑکتی ہوئی اس آگ کی وجہ سے ہی خاندانی بندھنوں اور ذمہ داریوں کے پورے نظام سے اس کا فرار ممکن ہو پاتا ہے۔

دیواری شہر کی گلیاں تشدد اور لہو و لعب سے بھری پڑی ہیں۔ ایک گلی میں ایک مرد کا ہاتھ اس کے کندھے پر آتا ہے اور وہ اسے اپنے ساتھ کھینچ کر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ اس آدمی کی بیوی اس پر چیختی چلاتی ہے لیکن وہ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ اسے کمرے میں لے جاکر برہنہ کردیتا ہے لیکن تارا بھرپور مزاحمت کرتی ہے۔ خاصی ہاتھا پائی کے بعد وہ اس کے ہاتھ باندھنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ تارا اسی وقت بے ہوش ہوجاتی ہے۔

جب یشپال ہندی میں یہ ناول لکھ رہا تھا، تب زنا بالجبر کا معاملہ ایک مخصوص تاریخی جہت کا حامل ہوچکا تھا، ناول کی اشاعت سے صرف دس برس پہلے ہی لگ بھگ پچھتر ہزار عورتوں کے ساتھ زنا بالجبر کیا جا چکا تھا۔ زانیوں میں ہندو، مسلم سکھ سبھی تھے۔ اس المیے کے دوران ایک کروڑ لوگوں نے ہجرت کی۔ تقریباً دس لاکھ لوگ مارے گئے۔ تارا کی بپتا جہاں ایک طرف گھناؤنی ہوتی جاتی ہے وہیں دوسری طرف ناول نگار اپنے اس کردار کو لازوال رفعت کی طرف لے جاتا ہے۔

وہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ لوگ اس مسئلے پر کھل کر بولنے سے کتراتے تھے۔ اس ناول میں یشپال نے آزادی کی ہاؤ ہو منتشر کرنے کے لیے عورتوں پر گزرنے والی داستان کو براہ راست لکھا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس نے ان مسلمان کرداروں کو بطور ناول نگار نبھانے کی پوری کوشش بھی کی ہے، جو خود بھی تاریخ کے اس عجیب دوراہے پر کھڑے ہوئے ہیں۔

یشپال جس کا تخلیقی سفر چار دہائیوں پر محیط تھا، ایک شان دار ناول نگار ہے۔ حقیقی معنوں میں ایک فیمینسٹ اور سوشلسٹ۔ وہ خود تشدد کی تاریخ رکھتا تھا۔ پنجاب میں ایک جوان طالب علم کے طور پر اس نے ہندوستان ری پبلکن سوشلسٹ آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ 1932 میں اس نے وائسرائے کی ٹرین اڑانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں ڈائننگ کار ہی اڑ سکی تھی۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور چودہ برس کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ بعد میں اس کی سزا میں اس شرط پر کہ وہ دوبارہ کبھی پنجاب میں داخل نہیں ہوگا، چھ ماہ کی تخفیف کردی گئی۔

اس کے بعد وہ کبھی لاہور نہیں آیا بس دو موقعوں کے سوا۔ ایک خفیہ اور مختصر دورہ چالیس کی دہائی میں کیا گیا اور دوسرا تب جب وہ ایک نسبتاً طویل دورے پر 1955 میں لاہور آیا لیکن اس نے اپنے فکشن میں اس شہر کو از سر نو تخلیق کیا، وہ خود جسے کھو چکا تھا۔ اس کے رسم و رواج، اس کے عقیدوں، اس کی سیاسی تحریکوں، اور اس کے لوگوں سمیت۔

جھوٹا سچ میں نسوانی کرداروں کی زندگی کو محتاط اور حساس توجہ کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ مردوں کے کرداروں پر تنقید کی گئی ہے کہ وہ ایسا بہیمانہ تشدد روکنے میں ناکام کیوں رہے۔ تارا کا بھائی جے دیو پوری اس حوالے سے اپنے لیے الگ معیار رکھتا ہے اور اپنی بہن کے لیے الگ۔ وہ خود تو اپنی پسند کی عورت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے لیکن اپنی بہن کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بہت عرصے بعد جب اس کے علم میں آتا ہے کہ تارا پاکستان سے ہندوستان آ چکی ہے تو پھر بھی وہ اسے بچانے کی کوشش نہیں کرتا کیوں کہ وہ داغ دار ہو چکی ہے۔
یشپال نے ”جھوٹا سچ“ لکھ کر برصغیر کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی اس ذہنیت کی بھرپور نشان دہی کی کہ وہ اپنی آزادی اور طاقت کی بنیاد عورتوں کی زندگیوں پر رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments