سلطنت عثمانیہ کا توپ خانہ جس نے اسے سُپر پاور بنا دیا، ترکوں کی جنگی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانی


مؤرخ بتاتے ہیں کہ 'دنیا نے پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں توپیں 69 یا 70 ایک جگہ نھیں دیکھی تھیں۔'
قسطنطنیہ کے محاصرے کے بارے میں مؤرخ بتاتے ہیں کہ ’دنیا نے پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں توپیں ایک جگہ نہیں دیکھی تھیں’ نیٹ فلکس پر فلم ’اوٹومن‘ کا ایک منظر

مؤرخ اگوستون نے آن لائن میگزین ’جے سٹور‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ استاد اوربان کا تعلق ہنگری سے تھا اور وہ انتہائی ماہر مستری تھا۔

انھوں نے بتایا کہ اوربان نے پہلے قسطنطنیہ میں بازنطینی بادشاہ کو اس توپ کی پیشکش کی تھی لیکن وہ اس کی قیمت نہیں ادا کر سکے اور نہ ہی ان کے پاس اتنی بڑی توپ بنانے کے لیے ضروری وسائل تھے۔ اوربان اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی پیشکش لے کر عثمانی سلطان کے پاس آئے تھے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ سلطان محمد دوم نے اروبان کی پیشکش قبول کر لی۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ قسطنطنیہ کے محاصرے میں ترک کاریگروں کی بنی توپوں نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا اور عثمانیوں کے انحصار صرف بمبارڈ کہلانے والی بڑی توپوں پر نھیں تھا جن کا تفصیلی ذکر ہم آگے چل کر کریں گے۔

اگوستون لکھتے ہیں کہ ترک آرکائیوز ایسی دستاویزات اور ثبوتوں کے ذخیرے سے بھری پڑی ہیں جن سے عثمانیوں کی توپیں بنانے کی صنعت، جہاز سازی، قلمی شورہ اور بارود بنانے کی صلاحیت کی بھرپور جھلک ملتی ہے۔

اوربان کی توپ تیار ہو گئی اور اسے قسطنطنیہ پہنچانے کا مرحلہ شروع ہوا۔

اگوستون نے میگزین جے سٹور میں اپنے مضمون (15ویں اور 17ویں صدی میں عثمانی توپ خانہ اور یورپی ملٹری ٹیکنالوجی) میں مختلف تاریخی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اس دیوہیکل توپ کو سلطنت عثمانیہ کے دارالحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ پہنچانے کی تفصیل بتائی ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ اس کام کے لیے 30 ویگنیں جوڑی گئیں جنھیں کھینچنے کے لیے 60 طاقتور بیلوں کا بندوبست کیا گیا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ویگنوں کا توازن خراب نہ ہو اور توپ گر نہ جائے ویگنوں کے دونوں طرف 200 اہلکار تعینات کیے گئے۔

توپ کے راستے کو ہموار کرنے کے لیے 50 کاریگر اور ان کے 200 معاون آگے چل رہے تھے۔ ان کا کام راستے میں سڑک کے ناہموار حصوں پر پل تعمیر کرنا تھا۔ ادرنہ سے قسطنطنیہ تک اس سفر میں تقریباً دو ماہ لگے اور فروری اور مارچ گزرنے کے بعد یہ قسطنطنیہ سے پانچ میل دور مناسب جگہ دیکھ کر نصب کر دی گئی۔

اگوستون نے لکھا کہ قسطنطنیہ کے محاصرے کے دوران یہ توپ دن میں صرف سات بار فائر کر سکتی تھی اور مئی کے مہینے میں اس کی مرمت بھی کرنی پڑی۔ لیکن اس کے بھاری گولوں نے محصور شہر کی دیواروں کو بہت نقصان پہنچایا اور عثمانیوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

عثمان اول

مؤرخین لکھتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے سلطانوں کا رعب و دبدہ اپنی جگہ لیکن ان کی شہرت تھی کہ وہ علم و ہنر کی قدر کرتے ہیں اور خاص کر اگر ان دونوں چیزوں کا تعلق عسکری میدان سے ہو

سلطنت عثمانیہ کے غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک سلطان

جیسا کہ تاریخ کی کسی بھی بڑی اور کامیاب سلطنت کے ساتھ ہوا، 15ویں اور 16ویں صدی کی سلطنت عثمانیہ بھی وہ جگہ تھی جس کی طرف ہر طرح کا ہنرمند اور ایجنڈا رکھنے والا کھنچا چلا آتا تھا۔

دیگر خوبیوں کے علاوہ یہاں ’سماجی ترقی کے مواقع تھے اور جب یورپ میں ہسپانیہ اور پرتگال میں مسلمانوں اور یہودیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا بصورت دیگر ان کے لیے ملک بدری کے علاوہ کوئی چارہ نھیں تھا، مذہبی عدم برداشت تھی، سرکاری مذہب کو نہ تسلیم کرنے پر لوگوں کو ٹارچر اور ہلاک کیا جا رہا تھا، اسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ میں نسبتاً مذہبی برداشت کا ماحول تھا۔‘

مؤرخین لکھتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے سلطانوں کا رعب و دبدہ اپنی جگہ لیکن اُن کی شہرت تھی کہ وہ علم و ہنر کی قدر کرتے ہیں اور خاص کر اگر ان دونوں چیزوں کا تعلق عسکری میدان سے ہو۔ اگوستون لکھتے ہیں کہ ’سلطنت غیرمعمولی طور پر قابل حکمرانوں سے نوازی گئی تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ سلطان محمد دوم کی عسکری معاملات میں دلچسپی کا اتنا چرچا تھا کہ یورپ کے ماہرین نے عسکری موضوعات پر لکھی گئی اپنی دستاویزات ان کے نام منسوب کیں۔

اگوستون لکھتے ہیں کہ یورپ کے کئی حکمران تو ان کے قریب ہونے کے لیے اپنے عسکری ماہرین خود ان کے پاس بھیجتے تھے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب پاپائے روم نے اس غیر عیسائی ریاست کو کسی قسم کی عسکری معلومات دینے سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔

سلطنت عثمانیہ کی طرف سے فتح ہونے والے علاقوں کے کاریگروں اور ہنرمندوں کو اپنے پرانے پیشے نہ صرف جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی بلکہ ان کے پاس ترقی کے مواقع بھی تھے۔ یہی صورتحال قیدی بننے والے کاریگروں کے ساتھ بھی تھی۔

اس کے علاوہ از سر نو بحالی کی سکیموں کے تحت بھی بڑی تعداد میں کاریگر سلطنت میں آباد ہوئے۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ سلطان سلیم اول کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انھوں نے تبریز سے تمام کاریگر استنبول میں لا کر آباد کیے تھے۔

یہ واضح نھیں کہ باقاعدہ کل وقتی تنخواہ دار عثمانی آرٹلری کور کب کھڑی کی گئی تھی لیکن امکان ہے کہ ایسا یورپ میں اس طرح کے آرٹلری یونٹ کے قیام سے بہت پہلے سلطان مراد دوم کے دور(1421-1451) میں ہی ہوا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp