ہجرت اور شناختی بحران


\"sana-batool\"

ہجرت بھی عجیب عمل ہے سکھ کی آرزو میں انسان کتنا بڑا دکھ اٹھانے پہ رضا مند ہو جاتا ہے۔ اپنا وطن کھو دینے کا دکھ، لوگوں سے بچھڑنے کا دکھ، ان در و دیوار سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کا دکھ جو اس کے بچپن کی خوشیوں کے گواہ ہوتے ہیں، اپنی شناخت کو خطرے میں ڈالنے کا دکھ اور سب سے بڑھ کے ایک بے یقینی صورتحال کا سامنا کرنے کا دکھ جو آنے والے وقت میں یقیی ہے۔ یہ بڑا کٹھن فیصلہ ہوتا ہے جس میں ماضی معنی رکھتا ہے نہ حال کچھ پیش نظر ہوتا ہے تو صرف اور صرف مستقبل وہ بھی اپنا نہیں آنے والی نسلوں کا ان لوگوں کا جن کا وجود بھی نہیں ہوتا۔ جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ہم سے محبت تو در کنار ہمیں پہچانتے بھی نہیں ہوں گے۔ بلکہ ہو سکتا ہے وہ اس عمل کو سرے سے غلط قرار دے دیں۔ اس سب کے باوجود اگر کوئی طاقت یہ کٹھن فیصلہ کرنے ہمت بندھاتی اور اسے قائم رکھتی ہے تو وہ ہے جینے کی آرزو اپنی شناخت قائم رکھنے کی آرزو۔ لیکن جنگ چاہے بیرونی ہو یا من کے اندر کی تمام نفاستیں چھین لیتی ہے آداب، رکھ رکھاؤ، پہچانے جانے اور پہچاننے کی خواہش اگر کوئی چیز حثیت رکھتی ہے تو صرف اور صرف بقا ہے۔ جو ہر قربانی پہ آمادہ کر لیتی ہے ہر سمجھوتہ قابل قبول ہو جاتا ہے۔ جب جنگ کی گرد بیٹھتی ہے تب احسا س سود و زیاں ہوتا ہے۔ یہیں سے تکلیف کا عمل شروع ہوتا ہے۔ زندگی میں بنیادی ضروریات کے بعد اگر کوئی چیز بقا کا مسئلہ اور پیدائشی طور پہ انسان میں موجود ہے تو شناخت کی خواہش ہے۔ انسان فطری طور پہ اپنی منفرد شناخت بنانا چاہتا ہے جانے جانے اور جاننے کا جذبہ ازلی ہے۔ اس سے انکار و مفر ممکن نہیں۔ خود کو منفرد کرنے کی کوشش ہر انسانی سرگرمی میں شامل ہوتی ہے کھانے پینے کی پسند و ناپسند کے عام سے چناؤسے لے کر فن و ادب کی باریک بینیوں تک۔

برصغیر میں ہجرت اور اس کے بعد شناخت کا بحران ایک ایسا معاملہ ہے جو تقسیم سے لے کر آج تک کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی الگ شناخت کے حصول کے لیے ایک بڑا قدم اٹھایا تھا تقسیم کے فورا بعد ہی یہ سوال پیدا ہو گیا کہ الگ شناخت سے کیا مراد ہے؟اگر اسے علاقائی، ثقافتی اور ادبی تناظر میں دیکھا جائے تو تین واضح گروہ نظر آتے ہیں ایک وہ جن کے خیال میں ثقافت کا تعلق وطن سے ہے۔ دوسرے وہ جن کے خیال میں ہر علاقے کی ثقافت مختلف ہے اور اس میں سالمیت یا کلیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اورتیسرے گروہ نے اسلامی کلچر کی اصطلاح متعارف کروائی۔

اب جہاں تک بحثیت قوم مشترکہ کلچر کی بات ہے تو اس پہ بات کرنے والے پہلے علیحیدہ قوم کی حثیت سے فوری شناخت کی بات کرتے ہیں یعنی تقسیم کے فورا بعد ایک نئی قوم وجود میں آئی جسے شناخت کے بحران کا سامنا ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ نئی قوم ہے تو اس کا ادب، ثقافت اور تہذیب ایک دم نئی کیسے ہو گی اس کے لیے خطے کی تہذیب کو جھٹلانا ہو گا جو موہیئن جوداڑو اور ہڑپہ کی تہزیبوں سے منسلک ہے۔ یا پھر اگر اس کی بنیاد مذہب پہ رکھی جائے تو یہ ماننا ہو گا کہ اس کا آغاز محمد بن قاسم کی آمد سے ہوا توسابقہ ترقی تہذیب سے انکار کرنا پڑے گا۔ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ تقسیم کے فورا بعد جو ادیب اور ثقافتی اساسے پاکستان کے حصہ میں آئے وہی پاکستانی ثقافت و ادب ہے تو مان لیجیے کہ مشترکہ ہندوستان کے ادیبوں، ثقافی ورثہ، فنون تعمیر و خطاطی سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ تو آپ کہاں ہیں اور شناخت کیا ہے؟اب ثقافت اور ادب کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں کہ جسے اپنی مرضی سے اختیار کیا جائے اس کا براہ راست تعلق خطے کی آب و ہوا، حالات اور طرز رہائش سے ہوتا ہے۔ تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ ”نئی ثقافت“کو وجوچ میں لا کر الگ شناخت کا دعوی کیا جائے۔

یہ وہ شناختی بحران ہے جو اب بھی علاقائی تقسیم اور علاقائی زبان کے جھگڑے کی صورت کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ جہاں ان لوگوں کو قبول نہیں کیا گیا جو ہجرت کی صعوبت جھیل کے یہاں پہنچے اور مزید دکھ کا سامنا کیا کہ یہ سب تو ان کا ہے ہی نہیں۔ مقامی باشندوں کے ذہن میں ایک حوالہ ہجرت کر کے آنے والے لوگوں کا ماضی میں بطور حملہ آور کا بھی ہے۔ جسے ظاہر ہے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ حقوق غصب کرنے اور نسلوں پہ حکمرانی کرنے کے خیال نے اتنی طاقت سے جڑ پکڑی ہے کہ ماضی پرست لوگ آج تک اس سے نکل نہیں پائے۔ جہاں شناخت کے متعلق اتنے ابہام موجود ہوں وہاں کیونکر ممکن ہے کہ عوام خود کو ایک قوم تصور کریں۔ اس کا حل سوچ کے دائرے کو وسیع کرنے میں ہے۔ ماضی کو بدلا جا سکتا ہے نہ اس سے انکار ممکن ہے۔ لیکن سمجھا ضرور جا سکتا ہے اور اس سے سیکھ کے حال اور مستقبل کو بہتر ضرور کیا جا سکتا ہے۔ جب آپ مان لیتے ہیں کہ تاریخ کسی کی جاگیر نہیں اس میں اپنے سے جڑے لوگوں خواہ وہ علاقائی تناظر میں ہوں یا کسی اور حوالے اپنا تسلیم کرتے ہوئے مستقبل۔ کی بہتری کی کوشش کرتے ہیں تب ہی قوم کہلا سکتے ہیں ورنہ ایک اداس نسلوں کا ہجوم کہلانا ہی مقدر ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments