رنجیت کی زندگی میں آنے والی اہم خواتین


رنجیت سنگھ کا منکسر المزاج طرز حکومت

کھڑک سنگھ کی پیدائش کے بعد رنجیت سنگھ نے مہاراجہ کا لقب اپنا تو لیا مگر خود کو سنگھ صاحب کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے اپنے نام کے سکے بھی جاری نہیں کیے بلکہ سکوں پر بابا گورونانک کا نام تھا۔ مصنف جے بنس سنگھ کے مطابق رنجیت چنگھ نے ان پڑھ ہونے کے باوجود زبانی حکم کی بجائے لکھے ہوئے احکامات کا نظام رائج کیا جس کے لیے پڑھے لکھے عمال مقرر کیے۔

ہردیو ورک لاہور کے فقیر گھرانے کی یادداشتوں پر مبنی رنجیت سنگھ پر لکھی اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ ’رنجیت سنگھ تخت پر براجمان نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ کرسی پر آلتی پالتی مار کر دربار منعقد کرتے تھے۔ اپنی پگڑی یا لباس میں کسی شاہانہ طغرا کا اضافہ نہیں کیا۔‘

وہ اپنے درباریوں سے کہتے تھے ’میں ایک کسان اور ایک سپاہی ہوں، مجھے کسی دکھاوے کی ضرورت نہیں۔ میری تلوار ہی مجھے وہ امتیاز دے دیتی ہے جس کی مجھے ضرورت ہے۔‘

رنجیت سنگھ اپنی شباہت پر تو کچھ خرچ نہیں کرتے تھے مگر اپنے اردگرد خوب صورتی، رنگ اور خوشی کی موجودگی کے طالب تھے۔

فقیر عزیزالدین کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ خدا کی طرف سے (چیچک کے بعد) آنے والی کمی پر راضی بہ رضا تھے۔ انہی کے مطابق ایک بار مہاراجہ ہاتھی پر سوار پھلا سنگھ کی بالکنی کے نیچے سے گزر رہے تھے۔ اس نہنگ سردار اور اکال تخت کے جتھے دار نے حقارت سے پکار کر کہا ’او کانے، تینوں ایہ جھوٹا کنے دتا سواری لئی ( اے ایک آنکھ والے، تمھیں یہ بھینسا کس نے دیا سواری کو)‘۔ رنجیت سنگھ نے نگاہ اوپر کی اور عاجزی سے کہا ’سرکار ایہ تھاڈا ای تحفہ اے (سرکار، یہ آپ ہی کا دیا تحفہ ہے)‘۔

رنجیت سنگھ کا مجسمہ

گھڑسوار رنجیت سنگھ کا ایک مجسمہ حال ہی میں لاہور میں نصب کیا گیا ہے

نوجوانی میں مے نوشی کی عادت پڑی جو دربار کے مؤرخین اور یورپی مہمانوں کے بقول بعد کی دہائیوں میں پختہ ہوتی گئی۔ تاہم تمباکو نوشی خود کی نہ دربار میں اس کی اجازت دی بلکہ یہ ممانعت ملازمت کے معاہدے کا حصہ ہوتی تھی۔

دوسری بیوی دتار کور پسندیدہ اور اہم ریاستی امور کی مشیر

دتارکور سیاسی معاملات میں دلچسپی لیتیں اور کہا جاتا ہے کہ 1838 میں اپنی وفات تک وہ اہم ریاستی امور میں اپنے شوہر کی مشاورت کرتی رہیں۔ جانشین کی ماں کے طور پر مہاراجہ پر دتارکور کی خوب چلتی تھی۔

1818 میں جب رنجیت سنگھ نے لاڈلے بیٹے کھڑک سنگھ کو ایک مہم پر ملتان بھیجا تو وہ ان کے ساتھ گئیں۔ ساری زندگی رنجیت سنگھ کی پسندیدہ رہیں۔ وہ انھیں پیار سے مائی نکئین کہتے تھے۔ پہلی شادی کی طرح یہ شادی بھی تزویراتی فوجی اتحاد کا باعث بنی۔

دوسری شادی پر نہ مہتاب کور خوش تھیں نہ ان کی والدہ سدا کور۔ پھر دوسری بیوی کا پہلے بیٹے کو جنم دینا بھی انھیں ایک آنکھ نہ بھایا۔ رنجیت سنگھ کی دوسری شادی کے بعد تو مہتاب کور اپنی ماں کے گھر بٹالا ہی رہیں۔ ان کا رنجیت سنگھ سے میلان بھی نہ رہا۔

رنجیت سنگھ سے علیحدگی کے بعد مہتاب کور کے ہاں جڑواں بچوں تارا سنگھ اور شیر سنگھ کی پیدائش ہوئی۔ جب مہتاب کور نے 1807 میں جڑواں بچوں کو جنم دیا تو سدا کور کی خوشی دوبالا ہوگئی۔ جب یہ بچے چھ سال کے تھے تو مہتاب کور کا 1813 میں امرتسر میں انتقال ہوگیا۔ رنجیت سنگھ نے آخری رسومات میں تو شرکت نہیں کی لیکن دیوان محکم چند کے اصرار پر ایک تعزیتی تقریب ضرور منعقد کی۔ مگر کہا جاتا ہے کہ یہ تمام بچے سدا کور کے ملازمین کے تھے۔

ہندوستان کے کمانڈر ان چیف جنرل سرہنری فین کے بھتیجے اور معاون ہنری ایڈورڈ فین اپنی کتاب ‘ہندوستان میں پانچ سال’ میں لکھتے ہیں کہ ‘گو انھیں مہاراجہ کا بیٹا کہا جاتا تھا مگر مہاراجہ نے شیر سنگھ کو پورے طور سے اپنی اولاد تسلیم نہیں کیا۔ ان ہی کے دوسرے بھائی سے اس سے بھی بدتر سلوک ہوا، نہ دربار میں حاضری کی اجازت تھی، نہ کوئی ایسا عہدہ ملا جس کے ساتھ کوئی مالی منفعت یا عزت منسلک ہو۔’

تاہم لکھاری خوشونت سنگھ نے شیر سنگھ اور تارا سنگھ کی ولدیت کے بارے میں افواہوں کو غلط قرار دیا اور کہا کہ یہ کھڑک سنگھ اور ان کی والدہ دتار کور نے پھیلائیں تاکہ رنجیت سنگھ کے شیر سنگھ کو جاشینی کے لیے ترجیح دینے کا سدباب کیا جائے۔ شکوک کے باوجود رنجیت سنگھ نے شیر سنگھ کو فوج کی کمان دی اور ان کو عزت کا مقام دیا مگر کھڑک سنگھ ہی ان کے پسندیدہ رہے۔ تارا سنگھ کو تو دربار میں حاضری کی بھی اجازت نہیں تھی۔

بعد کے برسوں میں سداکور کی رنجیت سنگھ سے رنجش ہو گئی اور انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ انھیں لاہور میں نظر بند بھی کیا گیا اور بٹالا میں ان کی جاگیر کو تب ہی واپس جانے دیا گیا جب انھوں نے مہاراجہ کے بیٹے اور اپنے نواسے شیر سنگھ کے حق میں مالکانہ دستاویز پر دستخط کیے۔

رنجیت سنگھ کی شادیاں

رنجیت سنگھ نے مختلف تقریبات میں کئی شادیاں کیں اور ان کی 20 بیویاں تھیں۔ بعض مؤرخین کے مطابق مہاراجہ کی شادیوں سے متعلق معلومات غیر واضح ہیں اور یہ بات طے ہے کہ ان کی کئی داشتائیں تھیں۔ خوشونت سنگھ کا کہنا ہے کہ ایک فرانسیسی جریدے کو 1889 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں مہاراجہ کے بیٹے دلیپ سنگھ نے بتایا تھا کہ ‘میں اپنے والد کی 46 بیویوں میں سے ایک کی اولاد ہوں’۔

پتونت سنگھ کا رنجیت سنگھ پر لکھی اپنی کتاب میں بیان ہے ’سکھ مذہب کے دس گرووں کی تعلیمات سے متاثر، وہ خود سے رابطہ میں آنے والے تمام افراد کے حقوق کا خیال رکھتے مگر اپنے حقوق پر بھی آنچ نہ آنے دیتے۔ زندگی سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہوئے اور ان کے دربار کی شان بھی نرالی تھی۔ بیس بیویاں تھیں اور داشتاؤں کا ایک لشکر۔‘

فرصت کے لمحات میں دربار میں رقص و سرور کی محفلیں سجتیں۔ رنجیت سنگھ ایسی محفلوں میں پسے ہوئے موتیوں ملی کشمش سے کشیدکی گئی شراب پیتے۔ مہاراجہ کے راج سے منتخب ایک سو پچیس خوش شکل لڑکیوں پر مشتمل شاہی طائفہ خدمات پیش کرتا۔ یہ لڑکیاں پچیس سال سےکم عمر ہوتیں۔ اس طائفہ کی بڑی فن کارہ بشیراں تھیں جنھیں ان کی آنکھوں کے بھورے رنگ کی رعایت سے مہاراجہ بلو پکارتے تھے۔

مہاراجہ جہاں گھوڑوں کے دیوانے تھے وہیں شراب، مقویات اور خوب صورت عورتیں ان کی چاہت تھیں۔ فقیر وحیدالدین اور امرندر سنگھ نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ حرم میں چھیالیس خواتین تھیں۔ نو سے سکھ مذہب کے تحت شادی کی، نو، جو تمام امیر بیوائیں تھیں، چادر اندازی کے ذریعے ان کے عقد میں آئیں، سات مسلم رقاصائیں تھیں جن سے بیاہ کیا۔ باقی سب کنیزیں تھیں۔وزیر داخلہ فقیرنور الدین مہاراجہ کے محلوں اور حرم کے بھی ذمہ دار تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp