پاک ترک سکول اور عالمی تنہائی


(نصیر جسکانی)\"naseer-jiskani\"

گذشتہ ہفتے ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ ترک صدر نے پاکستان کی دوستی کے رستے کو مزید مستحکم کرنے، تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے اور جموں اور کشمیر کے معاملہ میں پاکستانی موقف کی بھر پور حمایت کی۔ ایسے حالات میں پاکستان کے تمام طبقات نے اردوان کے حالیہ دورہ کو نہایت ہی مثبت قدم قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اردوان نے پاک ترک سکولوں میں تعینات ترک عملے کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا اور ساتھ یہاں تک کہہ دیا کہ یہ فتح اللہ گولن کے حمایت یافتہ لوگ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ پاکستان نے حسب عادت اور حسب معمول لبیک کی دیرنیہ پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے ، ترک اساتذہ کو پندرہ دن کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا فرمان بھی جاری کر دیا گیا۔ یقینا ہر حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ دیگر ممالک کے شہریوں کی کسی بھی وجوہات کی بنا ہر ملک چھوڑنے کا کہہ سکتی ہے، اگر وہ سمجھتی ہو کہ یہ افراد اس ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔

بہرکیف حکومت وقت کے اس اقدام پر پاکستان میں دو طرح کی آراء سامنے آنے لگی ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جس میں بڑے سیاستدان، میڈیا کی قدر آور شخصیات، مذہبی رہنماء اور دانشور جو کہ اردوان نے اس مطالبہ کی حمایت کرتے ہیں اور حکومت کے اساتذہ کے ملک بدر کرنے کے اقدام کو ایک دانشمندہ فیصلہ قرار دے رہے اور ساتھ ساتھ کچھ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں اردوان کی طرز حکمرانی پر تو اعتراض ہے مگر بین الاقوامی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو اردوان کےمطالبے کو پورا کرنا عین دانشمندی ہے۔ اس کی دلیل یہ دی جا ری ہے کہ پاکستان بھارت کی وجہ سے پہلے ہی عالمی تنہائی کو شکار نظر آ رہا ہے اور عالمی دنیا میں گنتی کے چند ممالک جن میں چین، تر کی، سعودی عرب وغیرہ ہی دوست ممالک بچے ہیں جو کہ پاکستانی موقف کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ لہذا ہندوستان کی کوششوں کو نام کرنے کے لئے اور عالمی تنہائی سے بچنے کاواحد حل یہ ہے کہ معمولی اہمیت کے چند اساتذہ کو ملک بدر کر کے ہمیں ترکی کی دوستی کو جلا بخشنی چاہیے اور یہ کوئی خسارے کا سودا نہیں ہے۔

دوسری طرف کے افراد جن میں سکول کی انتظامیہ، طلبہ و طالبات، سول سوسائٹی، ہیومن رائٹس اور دانشور افرا د حکومت کے اس اقدام کو سراسر نا انصافی اور ترکی کی پاکستان کے معاملات میں کھلی مداخلت قرار دے رہے ہیں کیونکہ اردوان اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ء ہیں جو کہ ترکی عوام میں پذیرائی رکھتے ہیں۔ ترک سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ گذشتہ بیس پچیس سالوں سے یہاں اپنے اہل و عیال کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔ ان افراد کو چند دنوں کی مہلت پر ملک بدر کرنا درحقیقت ان کی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سالہاسا ل کی خدمات کو فراموش کرنے اور ان کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ اساتذہ جن پر ترکی کے روشن خیال اور علم دوست اسلامی تحریک حزمت کے رہنماء فتح اللہ گولن کے حمایتی ہونے کا شبہ ہے یہ کیا واقعی پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔

یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ان اساتذہ کو ملک بدر کر کے پاکستان عالمی تنہائی سے نکل آئے گا، پاکستان کا یہ اقدام ترک عوام کے تناظر میں کیا مثبت گردانا جائے گا۔ ترکی ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری حکومت میں عوام ہی طاقت کی علامت ہوتے ہیں نا کہ چند حکمران، لہذا فیصلے بین الاقوامی تعقات میں دورس نتائج کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اردوان کی عوامی مقبولیت میں فتح اللہ گولن کی تحریک کا بڑا اہم کردار رہا ہے، اور یہ تحریک جناب اردوان کی اتحادی رہی ہے مگر اردوان فیملی کے کرپشن سکینڈل پر اس تحریک کے اختلافات موجودہ حکومت سے بڑ ہتے چلے گئے۔ ترکی میں حالیہ مسلح بغاوت کے بعد اس تحریک کا کریک ڈوان شروع کر دیا گیا اور امریکہ سے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا گیا کہ تحریک کے سربراہ کو ترکی کے حوالے کیا جائے مگر امریکی حکومت نے ٹھوس ثبوت کی فراہمی کے ساتھ گولن کی حوالگی کو مشروط کر دیا۔

اس پوری صورت حال کے تناظر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستانی کی کوئی اپنی جاندار خارجہ پالیسی نہیں ہے، یہ پالیسی صرف اور صرف ڈکیٹشن اور جی حضوری پر منتج ہے۔ حکومت کے ایسے اقدامات کی وجہ سے پاکستان کو ”چاچا بخشو“ کو خطاب بھی بعض فاقدین کی طرف سے دیا جا چکا ہے۔ یہ خطاب ہی در اصل اس حقیقت کاآئنیہ دار ہے کہ پاکستان کی عالمی تنہائی شخصی تعلقات اور ان کی حکم کی بجاآوری پر موقوف ہے۔ یہاں جہادی فصل کی آبیاری، جہادی لشکروں کو کھلی چھوٹ، کافر کافر کے نعرے لگانے والوں کو ریاستی آشیر باد، مذہبی جنویت کو بڑھاوا دینے والوں کو تھپکی اور ہمسایہ ممالک کو زیر کرنے کی سوچ اور مشرف کا امریکی اتحادی بننا بھی شخصی فیصلے تھے جو کہ درحقیقت پاکستان کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں، یہی اقدام اور عناصر آج پاکستان کی عالمی تنہائی کی بنیادی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی بیماری کی ظاہری علامت کو ٹھیک کرنے سے مرض کبھی نہیں جاتا جب تک اس کے اصل محرکات کی بیخ کنی نا کی جائے۔ لہذا حکومت کا حالیہ اقدام ترکی کی موجودہ لیڈرشپ کو خوش کرنے کے لئے تو بہت اچھا ہے لیکن دورس نتائج کے تناظر میں یہ ایک ہتک آمیز فیصلہ لگ رہا ہے جو کہ ترکی میں حکومت کی تبدیلی کی صورت میں اپنا اثر ظاہر کر سکتا ہے، جیسا کہ اب افغانستان میں طالبانی حکومت خاتمے کے بعد اپنا موجودہ حکومت اپنا اثر دکھا رہی ہے۔

رائٹر نصیر جسکانی یونیورسٹی آف سائنس اور ٹیکنالوجی آف چائینہ کے شعبہ پبلک پالیسی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments