حسنین جمال کو ڈاڑھی کیوں پسند ہے؟


\"husnain-1\"

بچپن میں بختی ماموں کی ڈاڑھی بہت پسند تھی۔ ہم لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں پشاور چلے جاتے۔ پشاور نام تھا نانا کے گھر کا اور وہاں رہ کر مزے کرنے کا۔ جب بھی پشاور جاتے کوئی نہ کوئی تفریح تیار ہوتی۔ مری جائیں گے، سوات جائیں گے، اور کچھ نہیں تو اٹک چلے جائیں گے، دریا کے کنارے کھانا وانا کھائیں گے اور واپس آ جائیں گے۔ لے کر جانے والے بختی ماموں ہوتے تھے۔
بختی ماموں غصے کے ایسے تیز کہ ایک مرتبہ سائیڈ سے کسی پٹھان بس ڈرائیور نے غلط اوور ٹیک کیا تو گاڑی کی رفتار بڑھائی، بس کو نکرے لگایا اور ڈرائیور کو گریبان سے پکڑ کر شروع ہو گئے۔ ہم بچے، ممانی، امی، سب گاڑی میں بیٹھے دیکھتے رہے، وہ آرام سے دل ٹھنڈا کر کے واپس آ گئے۔ یہ ان کے غصے کی ایک معمولی مثال ہے۔ وہ ان میں سے ہرگز نہیں جو صرف گھر کی عورتوں پر یا بچوں پر غصہ جھاڑ دیں اور باہر جائیں تو سب کچھ بھول جائیں۔ نہ! سوال ہی نہیں، وہ باہر بھی اتنے ہی جلالی ہوں گے جتنے گھر پر ہیں۔ بختیار علی کا غصہ بختیار علی کے دوست بھی جانتے ہیں، گھر والے بھی اور ہم بچے بھی۔ اس غصے پر ان کی ڈاڑھی کمال سجتی اور شخصیت مجموعی طور پر فل رعب دار یا دبنگ قسم کی نظر آتی۔ اب تو خدا سلامت رکھے کچھ عمر بڑھ گئی اور غصہ گھٹ گیا ورنہ ایک آواز ہوتی تھی اور ”ہالٹ“ کا سماں ہوتا تھا، جو جہاں ہے، جیسا ہے، جس حال میں ہے، فریز ہو جائے گا اور اگلی بات سننے کو ان کا منہ دیکھتا رہے گا۔ تو حسنین جمال بچپن میں دو چیزوں سے ڈرتے تھے، ایک بلینڈنگ مشین اور دوسرے بختی ماموں، وجہ شاید دونوں کی آواز ہو۔

\"husnain-4\"

ڈر کے باوجود ایک چیز کمال تھی۔ اصولی طور پر آپ جس سے ڈرتے ہیں اسے پسند نہیں کرتے۔ لیکن ماموں میں جان بھی پھنسی ہوتی تھی۔ ان کی ڈاڑھی کا فقیر بچپن سے عاشق تھا۔ کوئی پوچھتا بڑے ہو کر کیا کرنا ہے تو جواب آتا بتی ماموں کے جیسی ڈاڑھی رکھنی ہے۔ علن فقیر، ٹیگور، مارکس، اوشو، عنایت خان، نانا پاٹیکر اور ٹالسٹائے کو پہلی نظر میں پسند کرنے کے پیچھے بھی شاید یہی نفسیاتی گرہ ہو، فن کا معاملہ بہت بعد کا تھا، وہاں کوئی کسی سے اختلاف بھی کر سکتا ہے، دماغ کو تو ڈاڑھی سے مطلب ہو گا۔

پھر کالج کا زمانہ آیا تو ہلکی ہلکی ڈاڑھی آ گئی۔ اس زمانے میں کالج کے لفنٹروں کا ایک مخصوص حلیہ ہوتا تھا۔ بکھرے بال، ڈاڑھی بڑھی ہوئی، کاٹن کا سفید سوٹ، نروزی چپل اور سردی ہوئی تو شال اوڑھ لی، پر اچھا ٹیرر دکھنے کے لیے کالے رنگ کی شال اور سگریٹ ضروری تھی۔ اگر آپ اس حلیے میں ہوتے تو سامنے والے خود ہی سمجھ جاتے کہ جوان جمیعت میں ہو گا یا پی ایس ایف میں اور جوان اپنے بھرم میں ٹہلتے رہتے۔ ڈاڑھی رکھ لی گئی۔ آوارہ پن بچپن سے طبیعت کا حصہ تھا بلکہ غالب حصہ تھا تو ڈاڑھی کے ساتھ ساتھ باقی لوازم بھی پورے کیے اور اپنے تئیں ”ٹیرر“ بن کر گھومنا شروع کر دیا۔ آگے پھر نری بے وقوفیاں ہوئیں اور زندگی گذرتی رہی۔

\"husnain-5\"

نوکری شروع کی، عمر کم تھی، شاید انیس سال، تو چہرے کا رعب بڑھانے کو دوبارہ ڈاڑھی کی طرف رجوع کیا۔ اب کے مہذب رکھی گئی۔ بختی ماموں کے جیسی اب بھی نہیں تھی پر تھی سہی۔ کچھ برس نکلے پھر شادی کا وقت آ گیا۔ اس زمانے میں فرنچ کٹ ہوتی تھی۔ ایک جگت جس کی مونچھیں بھی سفید ہو چکی تھیں، ہر بندہ لگاتا تھا۔ ”حسنین صاحب، منہ پر تالا لگایا ہوا ہے؟“ تالا شادی کے چکر میں ہٹ گیا۔ حسنین جمال ایسے نکلے جیسے شیور کا انڈا۔ ایک دم چکنے، صاف شفاف۔ لیکن پھر ایک اور کام ہوا۔ اب صبح آنکھ کھلنا عذاب ہو جاتا تھا، ناشتے کا وقت مشکل سے ملتا تھا کجا یہ کہ شیو بنائی جائے، تو دوبارہ ڈاڑھی رکھ لی گئی۔

عمر چوبیس برس تھی اور ڈاڑھی بختی ماموں کے جیسی تقریباً آ چکی تھی۔ ہفتے میں ایک مرتبہ خط بنوا لیا اور کام چلتا رہا۔ چار پانچ برس بعد یہ ہوا کہ خط سے بھی الرجی شروع ہو گئی۔ جلد کسی قسم کے ریزر کو برداشت نہیں کرتی تھی تو خط بنوانا بھی چھوٹا اور ڈاڑھی مادر پدر آزاد ہو گئی۔ بعد میں ایک مشین خرید لی گئی جس سے مہینے کے مہینے ڈاڑھی بنا لی جاتی اور کام چلتا رہتا۔

پھر یہ ہوا کہ سفید بال جھانکنے لگے۔ بہنیں کہتیں ہم سے بڑے لگنے لگے ہو، ڈاڑھی صاف کرواؤ یا ڈائے کرو۔ امی کو ڈاڑھی پسند آتی لیکن وہ کہتیں کہ حوش ڈاڑھی نہ رکھو بس سجی بنی ترشی ترشائی ہو۔ اوما، شریک سفر، ڈاڑھی کی لمبائی پر اعتراض کرتیں پر شدت کہیں بھی ایسی نہ ہوتی کہ اسے صاف کروایا جائے یا رنگنے کا سوچا جائے تو ان تمام خواتین کی مہربانی سے لشٹم پشٹم کام آگے بڑھتا رہا۔

\"husnain-2\"

دو تین برس قبل ایک گرومنگ سیشن ہوا۔ فقیر اس میں شامل تھا۔ وہاں علی بھائی آئے، علی عباس گلبرگ کے ایک مشہور ہئیر سیلون کے ساتھ کام کرتے تھے، زبردست سٹائلسٹ ہیں، اب تو اپنا سیٹ اپ شروع کر چکے ہیں۔ تو علی بھائی نے بال اور ڈاڑھی بنانے پر چند ٹپس دیں اور کچھ ممکنہ کام کر کے بھی دکھایا۔ وہ جو کام ہوا وہ گھر اور دفتر میں سب کو پسند آ گیا اور یوں یہ ڈاڑھی وجود میں آ گئی جو آج فقیر کی تحریروں سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اگر دس دوست ملیں گے تو شاید دو بہ مشکل تحریر پڑھتے ہوں، آٹھ کے سوالات ڈاڑھی سے متعلق ہوں گے۔

شب دیگ میں ایک سین ہوتا تھا جس میں ایک پہلوان کاکا منا ہوتا تھا۔ کاکا منا ایک مرتبہ ہسپتال داخل ہو گیا۔ ہڈی وغیرہ ٹوٹی تھی، پلستر بندھا ہوا تھا۔ جو بھی آتا کاکے منے سے سوال کرتا کہ یار یہ سب کیسے ہوا۔ کاکا منا بے چارہ بتا بتا کر تھک جاتا تھا۔ اگلے سین میں جب ایک صاحب پوچھنے آئے تو اس نے ہاتھ سے ایک منٹ ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور بغل میں پڑا ٹیپ ریکارڈر چلا دیا۔ اس میں کاکے منے کی آواز ریکارڈ ہوئی موجود تھی جس میں حادثے سے متعلق تمام تفصیلات تھیں۔ اب جو بھی آتا کیسٹ سن کر مطمئن ہو جاتا اور کاکا منا سکون میں رہتا۔

\"husnain-3\"

اس تحریر کو کیسٹ سمجھ لیجیے اور فقیر آج کے لیے کاکا منا ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments