ماڈل شاہراہ یا ماڈل حکمران۔۔۔ عوام کی ضرورت کیا؟


\"Hashimخوش گمانیوں کی صدائیں آ رہی ہیں، بہلاوؤں کا کھیل پھر سے شروع ہوگیا ہے، چہرے بدلے جا رہے ہیں، کہا جاتا تھا کہ ہم کراچی کو پیرس بنائیں گے، دعویٰ تھا کہ ہم کرپشن کا پیسہ پیٹ پھاڑ کر نکال لیں گے۔ پیسہ تو نہیں نکلا خود کرپشن کی گہرائیوں میں غوطے لگانے لگے، بھلا ہو ٹیکنالوجی کی ترقی کا کہ ماضی میں کی گئی ہر بات، ہر دعوے کا کلپ کئی کئی بار چلتا ہے، لیکن ڈھٹائی ہے کہ ترقی کی ہر شکل پر حاوی ہے۔ ہم تو کراچی کو کراچی بنتا دیکھنے کو ترس گئے ہیں، ہماری آنکھیں پتھرا گئی ہیں، ہمارا دل، دماغ، ہمارا وجود آپ کے بہلاوؤں کو اُمید کی کرن سمجھ بیٹھتا ہے۔ ہم کراچی کو ہی نہیں پورے پاکستان کو 20 ویں صدی کا ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔

ہم ہی کیا ہر پاکستانی یہ ہی چاہتا ہے، پر شاید اس بد نصیب عوام کے نصیب میں ایسا نہیں لکھا ہے۔ کیونکہ یہ وعدے کرنے والے، یہ خوش گمانیوں میں مبتلا کرنے والے، یہ بہلاوے دینے والے ہمارے لیڈران، ہمارے قائد جن کی صدا میں ہم اپنی خواہشوں کی تکمیل دیکھتے ہیں، جنہیں ہم سخت گرمی میں، بارش میں، دہشت گردی کے خطرات میں، طوفان میں قطار در قطار ہو کر ووٹ جیسی قیمتی شے سے نوازتے ہیں، ان کی آواز پر جانوں کا نذرانہ دیتے ہیں، یہ ہم سے ملک کی ترقی کے نام پر (ٹیکس) خراج وصول کرتے ہیں، یہ ہم سے قربانیاں مانگتے ہیں، یہ ہمیں کڑوی گولیاں کھانے کو کہتے ہیں۔ ہم قربانیاں بھی دیتے ہیں، کڑوی گولیاں بھی ہضم کر لیتے ہیں لیکن یہ ہم سے کئے ہوئے وعدے بھول جاتے ہیں۔ اُسی بے وفا محبوب کی طرح جو وعدے تو پورے نہیں کرتا بلکہ کسی اور ہرجائی (دولت)کے پیار میں دیوانہ ہو جاتا ہے اور بے چارہ محبوب (عوام) بہلاوے کے فریب میں آکر پیار کا روگ لئے جیتے رہتے ہیں۔

کیا کبھی حکمرانوں نے ہمیں جدید طرز کی تعلیم دینے کی کوشش کی، کیا کبھی انہوں نے ہمیں ہسپتالوں میں ذلیل و رسوا ہونے سے بچانے کی کوشش کی، کبھی انہوں نے سوچا کہ ہمیں سستا انصاف دیں؟ کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو تعلیم یافتہ پاکستان بنائیں گے لیکن دیکھو میرے ہم وطنو! اب بھی لاکھوں بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں، کم از کم 28 فیصد بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، پرائمری اسکول سے سیکنڈری اسکول میں تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے کی شرح 50 فیصد ہے۔ فاٹا میں 542 لڑکوں اور 108 لڑکیوں کے اسکول کام نہیں کر رہے ہیں، سندھ کی صرف 16 فیصد خواتین پرائمری تک تعلیم حاصل کر پاتی ہیں، بلوچستان میں یہ تناسب صرف 8 فیصد ہے۔ سندھ کے بیشتر اسکول وڈیروں کے اوطاق بنے ہوئے ہیں یا پھر بھینسوں کے باڑے بن چکے ہیں۔ کیا کبھی اِنہوں نے جہالت کی تاریکی سے نکال کر عوام کو علم کی روشنی مہیا کرنے کی سعی کی۔ پبلک ہیلتھ کیئر سسٹم فلاپ ہو چکا ہے، ڈاکٹر حضرات گاہے بگاہے ہڑتال پر چلے جاتے ہیں، لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنی ملازمتوں کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ لیکن عوام ہیں کہ بیماریوں کا سارا وقت انتظار، تکالیف، راہداریوں یا بستر مرگ پر گذار دیتے ہیں۔ بہت کیا تو حکمرانوں کو کوس لیا یا بد دعائیں دے ڈالیں۔ صحت کا بجٹ وفاقی بجٹ کا صرف 0.42 فیصد ہے۔ کینسر، ہیپاٹائٹس، پولیو، ڈینگی بخار، بلڈ پریشر، شوگر کے امراض دن بدن ترقی کرتے نظر آرہے ہیں۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، علاج معالجہ انتہائی مہنگا ہونے کے سبب غریب کی دسترس سے نکل چکا ہے۔ کیا انہیں رتی برابر فکر لا حق ہے کہ غریب کب تک یونہی زندہ در گور رہے گا؟

انصاف کا ترازو ہچکولے کھا رہا ہے۔ کسی غریب کی جرات نہیں کہ شاہی محل کی گھنٹی بجا سکے اور فوری بادشاہ سلامت اپنے قانونی مشیروں کے ہمراہ عدالت لگا کر غریب چرواہے کو انصاف دے۔ ساری دُنیا نے دیکھا کہ عدلیہ اور اس کے سپریم کمانڈر نے تصادم کی راہ اختیار کی۔ این آر او جیسا کالا قانون رائج ہوا، قاتل رہا ہوتے رہے مقتولوں کے ورثاء دہائی دیتے رہے، کالادھن سفید ہو گیا، شہری دن دھاڑے غائب ہوتے رہے، لاپتہ شہریوں کے مقدمات کی  سماعتیں دکھاوے کے طور پر سالوں ہوتی رہیں، لیکن لگتا ہے یہ قانون کی سماعتوں کی بجائے ایک کان میں گئی، دوسرے کان سے نکلی سماعتیں تھیں۔

غنیمت ہوا کہ صوبہ سندھ میں یکدم زمانہ قدیم سے زمانہ جدید کی تبدیلی آگئی۔ اقتدار اعلیٰ کی مسند پر قائم علی شاہ کی بجائے مراد علی شاہ براجمان ہو گئے۔ صوبہ سندھ کے نئے سرگرم حکمران کا نیا فرمان کہ ہم شاہراہ فیصل کو ماڈل شاہراہ بنائیں گے، اور یہ بھی دیکھ لو کہ اس سلسلے میں انہوں نے ڈی آئی جی ٹریفک کراچی کو تمام اختیارات سونپ کر ٹریفک کراچی کے ادارہ کو \”کراچی کا قانون ساز ادارہ\” قرار دے دیا بجائے اس کے کہ ڈی آئی جی ٹریفک کراچی کو سمجھایا جاتا کہ تم قانون ساز ادارہ نہیں ہو بلکہ قانون پر عمل کرنے اور کروانے والے سرکاری ملازم ہو۔ سارے احکامات دھمکیوں کے انداز میں غریب اور متوسط طبقے پر لاگو کئے جا رہے ہیں، ڈی آئی جی ٹریفک کی تمام قوت رکشے اور موٹر سائیکل چلانے والے غریبوں پر صرف ہو رہی ہے۔ کیا ڈی آئی جی ٹریفک اور سندھ کے نئے حکمران یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ صوبے میں کتنے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران، ججز، بیوروکریسی، تاجروں، پولیس افسران، کمشنرزو ڈپٹی کمشنرز کی گاڑیوں کے سیاہ شیشے آپ نے اُتارے؟ کتنی سرکاری گاڑیوں کا چالان ہوا، بغیر رجسٹرڈ سرکاری گاڑیوں کے معاملے کا کیا بنا، شاہراہ فیصل پر دوڑتی ان گاڑیوں کا کیا علاج جن میں سرکاری اہل کار ہوں گے، ان موٹر سائیکلوں کا کیا جن کے سوار سرکاری ہوں گے مگر ہیلمٹ کے بغیر، ان بنا رجسٹرڈ گاڑیوں کا چالان کیسے ہوگا جن پر پولیس کی خود ساختہ پرانی نمبر پلیٹس ہوں گی۔ آپ کے احکامات پر سر تسلیم خم۔ مگر یہ بھی بتا دیجئے کہ اگر آج 20 ویں صدی کی دنیا میں وزیر اعلیٰ کا وژن یہ ہوگا تو سندھ کے تقریباً چھ کروڑ عوام بنیادی حقوق کے حصول کی توقع کس صدی تک رکھیں؟

زمینوں کے قبضے کا معاملہ بھی ایپکس کمیٹی کے سپرد ہے۔ اس کے باوجود ملیر ندی کی بجری بیچ کر اربوں کمانے والے ملیر کے وڈیرے اور ظالم سرکاری اہلکار اب اسی ملیر ندی کو کچرے سے پاٹنے اور اسے دوسرا گجر نالہ بنانے کا عمل تیزی سے مکمل کر رہے ہیں۔ ملیر کے سماجی و بلدیاتی نمائندوں کی ان کے خلاف دی گئی درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگئی ہیں۔ امر بیل کی طرح پھیلتا کراچی، مسائلستان بن چکا ہے۔ حکمرانوں کا گذر اگر صرف شاہراہ فیصل تک محدود ہے تو انہیں صرف اپنے اقتدار کا حصہ بھی اتنا ہی استعمال کرنا چاہیے۔ دیکھ لو پاکستانیو کہ ماڈل شاہراہ کے خواب کی تعبیر ماڈل حکمران کے بغیر نا ممکن ہے۔ سنو! کہ یہ ہمارے، تمہارے اور آنے والوں کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ اب اذیت سہنے، درد اُٹھانے کے وقت کو تھم جانا ہوگا۔ سن لو! کہ اب تمہیں نیا نعرہ بلند کرنا ہوگا، اور پرُ زور آواز میں بلند کرنا ہو گا وہ نعرہ یہ ہے کہ۔۔۔\”ہمیں ماڈل شاہراہ نہیں \”۔۔۔ \”ماڈل حکمران چاہیئے\”۔ اسی میں تمہاری بقا ہے۔ اسی میں ملک کی سلامتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments