ہم ٹیپو سلطان کی سالگرہ کیوں نہیں مناتے؟ (طاہر ملک)۔



\"tahir-malik\"بھارتی ریاست کرناٹکا کی حکومت ہر سال ٹیپو سلطان کی سالگرہ سرکاری سطح پر مناتی ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس ٹیپو سلطان کو آزادی کی جدو جہد کرنے والا ایک عظیم سپہ سالار ماننے کو تیار نہیں بلکہ اُسے ظالم بادشاہ قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ ماہ یہ معاملہ ہائیکورٹ لے جایا گیا جس میں فریقین کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت کو ٹیپو سلطان کی سالگرہ سرکاری طور پر منانے سے منع کیا جائے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ٹیپو سلطان کی سالگرہ سرکاری سطح پر منانے کے فیصلے کو حکومت کا اختیار اور ٹیپو سلطان کو حریت پسند راہنماء کے طور پر تسلیم کیا۔
اس خبر کو پڑھنے کے بعد میری نظر پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی جانب اُٹھ گئی۔ رواں سال بھی ٹیپو سلطان کی217 ویں سالگرہ 20 نومبر کو خاموشی اور بے اعتنائی سے گزر گئی۔
اگرچہ ٹیپو سلطان کا نام آ ج دو صدیوں بعد بھی ہمارے دلوں مین زندہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم قومی سطح پر ٹیپو سلطان کو کیوں یاد نہیں کرنا چاہتے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہمیں ٹیپو سلطان کو جاننا پڑے گا۔ ٹیپو سلطان جنہیں انگریز مؤرخ \” شیرِ میسور\” کے نام سے یاد کرتے ہیں، انگریز سرکار کے نزدیک ایک ایسا حکمران تھا جو ہندوستان میں برطانوی تسلط اور بالا دستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ بہادری وقومی غیرت اُسے اپنے والد حیدر علی سے ورثے میں ملی تھی۔ مدراس سے دو سو میل دور اپنی ریاست سرنگا پٹم کے قلعے میں ٹیپو سلطان اور انگریز فوج میں گھمسان کے رن کے دوران سلطان ٹیپو نے جس دلیری اور استقامت سے انگریز فوج کا مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مقامی سطح پر تیار ہونے والی توپیں اور دیگر سامانِ حرب اس جنگ میں استعمال کیا گیا اور یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس جنگ میں ٹیپو سلطان کی فوج مین شیروں کا ایک دستہ بھی شامل تھا۔ آج بھی لندن کے وکٹوریہ میوزیم میں اس جنگ کی نایاب تصاویر موجود ہیں جس میں ایک تصویر اس منظر کی ہے جس میں شیر نے ایک انگریز فوجی کو دبوچ رکھا ہے۔ ٹیپو سلطان جنگ سے قبل فرانس کے حکمراں نپولین سے رابطے میں تھے اور ان کی خواہش تھی کہ فرانس کے ساتھ مل کر سلطنت برطانیہ کو شکست دی جائے لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہین ہو سکا۔ ٹیپو سلطان کا بہت مشہور قول ہے کہ \”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے\” اور وہ اس قول پر خود بھی پورے اترتے تھے۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھا بھی گیا جب انہوں نے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے اگلے مورچوں پر لڑتے ہوئے وطن کی آزادی کے لئے جان دینے کو ترجیح دی۔
\"tipu-sultan-2\" اگر نظام آف حیدر آباد کی سپاہ کا ایک دستہ برطانوی فوج کا حصہ نہ بنتا تو شاید ٹیپو سلطان کو کبھی بھی شکست نہ ہوتی۔ جہاں تک بات اس سوال کی ہے کہ ہم ٹیپو سلطان کے یادگاری ایام کیوں نہیں مناتے تو اس کا جواب چند روز قبل شائع ہونے والی اس خبر میں پنہاں ہے جس کے مطابق چک بیلی خان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو برطانیہ کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز \” وکٹوریہ کراس \” ملنے کی سو سالہ یادگاری تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں اعلیٰ افسران نے شرکت کی اور اس کی قبر پر سلامی پیش کی۔ برطانوی حکومت نے شاہ حامد خان کو 12 اپریل 1916ء کو وکٹوریہ کراس سے نوازا تھا۔ ایک جانب تو ہماری تاریخ میں یہ لکھا ہے کہ ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کی تو دوسری جانب ٹیپو سلطان کے بجائے وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے ہمارے ہیرو ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جس نے انگریزوں سے لڑنے کے بجائے اپنے معمولی مفادات کی خاطر نہ صرف غلامی کو ترجیح دی بلکہ ملک و قوم کا سودا بھی کیا اور ہم ہیں کہ ہر سال ان کی برسی بڑی شان و شوکت سے مناتے ہیں۔ آج بھی ہم ٹیپو سلطان کے نام پر کسی شہر کا نام نہ رکھ سکے لیکن راولپنڈی میں جنرل گریسی کے نام سے ایک سڑک ضرور منسوب ہے۔ ٹیپو سلطان ہمارے قومی نصاب میں جگہ نہ بنا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیپو سلطان ہمیں جس غیرت و حمیت کا درس دیتا ہے وہ ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ ڈیل کرنا، آف شور کمپنیوں کی آڑ میں الزام تراشی کرنا اور اس کی آڑ میں بیرون ملک دولت کے انبار لگانا وغیرہ ٹیپو سلطان کی ڈکشنری میں شامل نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں ٹیپو سلطان کا یوم ولادت نہایت خاموشی سے گزر جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments