سیاسی مذہبیت و خارجیت اصل میں دونوں ایک ہیں


اہلِ مذہب کو اس بات کا خوب اندازہ ہوچکا کہ سیاست میں صالح اورغیر صالح کی تقسیم کرکے انہوں نے کس قدر گھاٹے کا سودا کیا ہے، مگر تسلیم کرنے کو ابھی تیار نہیں ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ احساس ضروری ہے، اقرار و انکار کی رد و کد تو چلتی رہے گی۔

سیاست کوئی مذہبی یا روحانی ادارہ نہیں ہے۔ سیاست میں مذہبی بنیاد پراپنا یا اپنی جماعت کا کوئی مرتبہ قائم کرنا دراصل خارجیت کی ایک غیر مسلح صورت ہے۔ آج کے دور کا انسان تمام تر حقوق کے حاصل ہوجانے کے بعد بھی کسی امتیازی رویے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مذہبی سیاست سے وابستہ کارکن نے تقدیس و طہارت کا ایک خاص مقام طے کرلیا ہے، اور خود اس پر متمکن ہوگیا ہے۔ یہ مقام یقیناً کوئی بہتر مقام ہوتا ہوگا، مگر انسانی معاشرے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تقدیس کے ایک بلند مقام پر بیٹھنے کے بعد آپ انسانی معاشرے کو انسانی آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہوجاتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سماج آپ کو فی الواقع ایک جداگانہ منصب دے کر آپ کو خود سے الگ ایک مخلوق تصور کرلیتا ہے۔ یہ انتہائی فطری معاملہ ہے۔ یہ رویہ اگر خاندان کے بزرگوں میں ہو، تو خاندان کی نوجوان نسل آپ کو بزرگوں سے بہت دور نظر آئے گی۔ نوجوان نسل ایسے بزرگوں کا فقط احترام کرتی ہے۔ تمام تر صلاحیتوں اور طہارتوں کے باوجود خاندان کا بچہ اس بزرگ سے کسی معاملے میں مشورہ لینا تک گوارا نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ مقدس ہستی مجھ گنہگار کا مسئلہ سمجھ ہی نہیں سکتی۔ مجھ خطا کار و روسیاہ کا مسئلہ تو وہی سمجھے گا جو میری ہی طرح کا جیتا جاگتا انسان ہوگا۔

غیر مسلح خارجیت میں خوشگوار پہلو فقط اتنا ہے کہ آپ خود کو غیر مسلح کہہ کر داعش اور القاعدہ سے بالکل الگ ایک پرامن نمونے کےطور پر پیش کرسکتے ہیں، مگرغیر مسلح خارجیت کو آپ اجتماع سے منوا نہیں سکتے۔ کیونکہ شعوری یاغیرشعوری طور پر انسان کا یہ احساس بہت زندہ احساس ہے کہ خارجیت کا عفریت غیر مسلح خارجیت سے ایک قدم پیچھے ہی تو کھڑا ہے۔ غور کیجیے گا خارجیت نے دراصل کس نکتے سے جنم لیا ہے۔ خارجیت اس راسخ العقیدہ طبقے کا نام ہے جس نے ہر دور کے حاکم کو فاسق و فاجر کہہ کر اسلامی ریاست کے مثالی مہنج کے لیے جدو جہد کی ہے۔ اس سوچ نے سب سے پہلے یہ سوال خلیفہ ثالث حضرت عثمان پر اٹھایا تھا اور پھر ہر آنے والے حاکم کو پچھلے سے زیادہ بدتر کہتے چلے گئے۔

صالحیت کی میزان اگر قائم کردی جائے تو خوارج کا یہ گروہ صالحیت میں واقعتاً اپنے ہم عصروں سے برتر رہا ہے۔ ہوں گے برتر، مگرمعاشرتی سائنس نے انہیں ہردور میں مسترد کیا۔ اجتماعی شعور نے انہیں قرن اول میں بھی مسترد ہی کیا، اور اجتماعی شعور نسبتا غیر صالح ہی ہوتا ہے۔ خارجیت کی دونوں صورتوں کے بیچ سے اسلحے کا فرق کچھ دیر کے لیے ختم کر کے معاملے کو دیکھ لیں۔ داعش اور القاعدہ کا یہی مسئلہ ہے ناں کہ وہ اپنے سوا دنیا کی ہر سیاسی طاقت کو حزب الشیطان یعنی شیطان کا گروہ سمجھتے ہیں؟ کیا یہی معاملہ مذہبی سیاست کا نہیں ہے؟

میری طرح آپ بھی کبھی نہ کبھی مذہبی طلبہ تنظیموں سے وابستہ رہے ہوں گے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارا مذہبی سیاسی لٹریچر سیاست کی دنیا میں حزب اللہ اور حزب الشیطان کی تقسیم کرتا ہے۔ ؟ یعنی سیاست میں ان پاکبازوں کا گروہ حزب اللہ ہے، اور ان کے سوا تمام سیاسی قوتیں حزب الشیطان ہیں۔ ہم سیاسیات و سماجیات میں پچھلی نشستوں کے طالب علم ہی سہی، مگر اس طالب علم کے لیے نواز شریف یا آصف علی زرداری یا عمران خان یا پھر اسفندیار ولی خان اور محمود خان اچکزئی وغیرہ کو حزب الشیطان کہنا بہت بڑی جسارت ہے۔ جب سیاسی تقسیم حق وباطل کے اس پہلو کے ساتھ ہو تو پھر اندازہ کرنا چاہیے کہ یہ سماج، جو کہ مذہب پر کسی نہ کسی درجے میں یقین رکھتا ہے، آپ کو ووٹ کیوں نہیں دیتا۔ ؟

دیکھیں، سماج اُس سراج الحق کو تو ووٹ دے سکتا ہے جو کہ ایک سیاسی رہنما ہے، اُس سراج الحق کو کبھی نہیں دے سکتا جو کہ ایک مذہبی رہنما ہے۔ کارِ سیاست میں اگر شغف ہے تو پھر صالحیت کی کلاہِ کج اتارنی ہوگی۔ سیاست ایک بالکل مختلف دنیا ہے۔ اس دنیا میں شرعی و غیر شرعی کچھ نہیں ہوتا، جمہوری وغیر جمہوری ہوتا ہے۔ یہاں حلال و حرام نہیں ہوتا، یہاں منصفانہ و غیر منصفانہ ہوتا ہے۔ صالح اورغیر صالح کچھ نہیں ہوتا، ٹھیک اور غلط ہوتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ترکی میں ایسا کیا چمت کار ہوا تھا کہ رجب طیب اردوان کو ترک سماج نے یکا یک قبول کرلیا؟ حالانکہ وہ تواس مذہبی سیاسی قوت کا ایک نمایاں چہرہ تھے جو اپنے تئیں ترک سماج کی سب سے پاکیزہ و مطہر قوت تھی۔ کچھ دیگر عوامل کے علاوہ، سماج میں طیب اردوان کی سیاسی پذیرائی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ نصف صدی کے تجربات کے نتیجے میں انہوں نے پارسائی کا چغہ اتار کر انسانیت کی قبا اوڑھنے کا فیصلہ کیا۔ عوام کو انہوں نے باقاعدہ یقین دلایا کہ میں تقدیس کے ایک علی منصب پر بیٹھا کل والا اردوان نہیں ہوں، میں ایک مختلف اردوان ہوں جو اس سماج کی نیم برہنہ لڑکی کو بھی اپنے ہی جیسا انسان سمجھتا ہے۔ اس کل اورآج کا مرکزی فرق کیا ہے؟

بہت ہی سادہ سا فرق ہے۔ کل والا اردوان حجاب پر عائد رہنے والی پابندی کو شرعی نقطہ نظر سے دیکھتا تھا، آج والے اردوان نے اسی معاملے کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔ آج ترکی کے سرکاری اداروں میں حجاب پر سے پابندی مرحلہ وار اٹھتی چلی جارہی ہے، کیا سماج نے مزاحمت کی؟ نہیں۔ کیوں۔ ؟ کیونکہ سماج کو آپ یہ باور کرو انے میں کامیاب ہوگئے کہ حجاب پر پابندی دراصل شہری کے بنیادی حق پر پابندی ہے جو کہ غیر جمہوری اور غیر منصفانہ اقدام ہے۔ آپ جب جمہوری حق کی جنگ لڑتے ہیں تو آپ ریاست کے ایک ایک شہری کے نمائندے ہوتے ہیں، جب آپ شریعت کی پاسبانی کرتے ہیں تو آپ سماج کے ایک بہت مختصر سے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کی گنجائش کم ازکم سیاست میں نہیں ہے۔

اپنی گزشتہ مدت میں اردوان نےکچھ مواقع پرسیاسی معاملات کو یکسر جامد شرعی نقطہ نگاہ سے دیکھا تو سماج میں مزاحمت کا عنصر آپ نے دیکھ لیا۔ مزاحمت سے مراد فوجی بغاوت ہر گز نہیں ہے، اس سے مراد وہ سیاسی خلفشار ہے جو پچھلی مدت میں اردوان نے بھگتا ہے۔ اب جوں جوں وہ اپنی صالحیت اور تقوی طہارت کا پہلو نمایاں کر رہے ہیں توں توں سماج میں ایک بے یقینی کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ وہ سچائی ہے جسے تسلیم کرنے سے فی لحال ہمارا مذہبی ذہن انکاری ہے۔ سیاست میں اپنے مذہبی رہنماؤں کو اگر آپ نے مذہبی شناخت کے ساتھ زندہ رکھنا ہے، یا انہیں حق وباطل کے معرکے لڑنے کے لیے جھونکنا ہے، تو یہ آپ کا حق ہے، مگر جب سماج آپ کو سیاسی طورپر مسترد کردیتا ہے، تو اس کو سامراج کی سازش کہنے کی بجائے سماج کی مزاحمت ہی قرار دینا چاہیے۔ سماج آپ کو اس لیے مسترد نہیں کرتا کہ وہ آپ کو غیر صالح سمجھتا ہے، اسی لیے مسترد کرتا ہے کہ وہ آپ کو خود سے کہیں زیادہ صالح سمجھتا ہے۔

علامہ اقبال اول جمہوریت کو ایک فریب کہتے تھے، تجربات ومشاہدات سے گذر کر انہوں نے جمہوریت کونظم اجتماعی کا بہترضامن تسلیم کرلیا۔ مگرجمہوریت کوانہوں نے روحانی جمہوریت اورغیر روحانی جمہوریت میں تقسیم کردیا۔ کیا مطلب۔ ؟ پیروکاروں نے روحانی جمہوریت سے مراد مذہبی سیاست لے رکھی ہے، پھر پاکستان کو اس کا مرکز قرار دے رکھا ہے، مگر طالب علم سوچتا ہے کہ جمہوریت میں روحانی وغیر روحانی کی تقسیم کیونکر ممکن ہے؟ روحانی وغیر روحانی کی کوئی تقسیم اگر کارگاہ سیاست میں تصور کر بھی لی جائے تو اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ جس معاشرے میں شہری کواپنے بنیادی حقوق میسر ہیں وہ ایک روحانی معاشرہ ہے، جہاں حقوق میسرنہیں ہیں وہ ایک غیر روحانی معاشرہ ہے۔ اس بنیاد پر برطانوی معاشرہ ایک روحانی معاشرہ ہوا اور پاکستانی معاشرہ ایک غیرروحانی معاشرہ۔ ظاہر ہے، جہاں نفرت کوآئینی حیثیت حاصل ہو، افتراق نصاب کا حصہ ہو، شہریوں کے بیچ عقیدے کی بنیاد پر تفریق کرنا ایک سیاسی فریضہ ہو، وہ ایک روحانی معاشرہ یا روحانی جمہوریت کیسے ہوسکتی ہے۔ پھر جہاں آپ خود کو روحانی جمہوریت کا نمائندہ اور حریف کو غیر روحانی اقدار کا نمائندہ سجھتے ہوں، وہاں گنہگار طالب علم آپ سے خوفزہ کیوں نہ ہو؟

سیاست نظم اجتماعی کو قائم رکھنے کے لیے بہتر سے بہتر امکان پیدا کرنے کا نام ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ریاست مشترک اقدار کو بنیاد بناکراپنی ذمہ داری کا تعین کرے گی۔ میرے اور آپ کے بیچ بھوک مشترک ہے، درد مشترک ہے، احساس برہنگی مشترک ہے۔ مذہب یا مسلک میرے اور آپ کے بیچ کسی بھی درجے میں مشترک جنس نہیں ہے۔ اس صورت میں بھی مشترک جنس نہیں کہ میں اور آپ ایک ہی مذہب سے وابستہ ہوں۔ ریاست نے شہری کے لیے صحت تعلیم روزگار روٹی کپڑا مکان اورخوش حالی وانصاف کو یقینی بنانا ہے۔ مذہب کے باب میں ریاست کی ذمہ داری فقط یہ ہے کہ وہ شہری کی مذہبی ضروریات کو پورا کرے۔ عقیدے کو نفوس پر نافذ کرنا ریاست و سیاست کا دائرہ کار نہیں ہے۔ ظاہر ہے مذہب میرے ہی جیسے کسی انسان نے نافذ کرنا ہوگا۔ اب میں کیا اورمیری مذہبیت کیا۔ ؟ میں اپنی سوچ اور تعبیر کو مذہب قرار دے دوں، آپ قبول فرمالیں گے۔ ؟ نہیں۔ ؟ تو آپ کی تعبیراورسوچ کو میں کیسے مان لوں گا۔ ؟ آپ عبادت اور دعوت کی یکساں سہولیات دیجیئے، اور شہری کو آزاد چھوڑ دیجیئے۔ عبادت کرتا ہے تو خدا قبول کرے، نہیں کرتا تو خدا توفیق دے۔ اس سے زیادہ میرا اور آپ کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔

اگر آپ سیاسی کارکن ہیں اورخود کو صالحین کے گروہ سے تصور کرتے ہیں، تو کچھ وقت اپنے آپ کو ضرور دیں۔ اپنے روبرو کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ جلوت سے ہٹ کر کچھ دیر اپنی خلوت میں گزاریں۔ اپنے آپ سے آنکھیں نہ چرائیں۔ حقیقت کی آنکھ سے اپنے احساس کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں۔ جو نظر آرہا ہے اس کا تجزیہ کریں۔ اگر آپ اول و آخر ایک نامکمل انسان ہی کی حیثیت سے خود پر آشکار ہوں، تو اقرار کر لیں کہ بس زندگی کی حقیقت یہی ہے۔ اس غیر روحانی مشق کے نتیجے میں اس افسانوی دنیا سے نکلنا آسان ہوجائے گا جس کے خواب الہامی طبعیت رکھنے والے ادیبوں نے دکھائے ہیں۔ آپ سچائی کی دنیا میں آجائیں گے، جہاں ہر شہری بلا تمیز رنگ ونسل بلاتفریقِ عقیدہ ومسلک اور بلا امتیازِ بود وباش اپنے ہی جیسا ایک انسان نظر آئے گا۔ یہی سیاست ہے۔ صالحیت اور غیر صالحیت کی آلودگیوں سے پاک سیاست۔ مذہبی عقیدے اور سیاسی نقطہ نظر میں ایک فرق تو بہرحال ہوتا ہی ہے۔ جو مان لے اس کا بھی بھلا جو نہ مانے اس کا بھی بھلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments