کراچی آپریشن: 1990 کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے ’آپریشن بلیو فوکس‘ کی دل دہلا دینے والی داستان


آفاق احمد

آفاق احمد نے دعویٰ کیا کہ ’آدھے لوگ تو انھوں نے خود مارے اس شک میں کہ کہیں وہ ہم سے تو نہیں مل گئے، شعیب شوبی جیسے لوگ ایسے ہی مارے گئے‘

آفاق احمد کا موقف ہے کہ ان کے کارکنان کو تو سیاسی مخالفین نے قتل کیا مگر صرف یہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کی آپس کی جنگ کا نتیجہ نہیں تھا۔

جب انھیں بتایا گیا کہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم تو الزام لگاتی رہی ہے کہ خود ان کے کارکنوں کو حقیقی کے ارکان نے قتل کیا یا خفیہ ادارے مارتے رہے تو اپنے مخالفین کے جانی نقصان پر آفاق احمد نے تسلیم کیا کہ ’اگر ہمارے لوگوں کا کوئی کردار رہا ہو گا تو اسی طرح رہا ہو گا کہ ہمارے کارکن اپنے علاقوں میں خوفزدہ تھے اور ظاہر ہے کہ اپنی جان بچانے کے لیے انھوں نے کہیں سے اسلحے کا بندوبست بھی کر ہی لیا ہوگا اب ۔۔۔ ظاہر ہے کہ کوئی حملہ کرنے آئے گا تو ہمارے کارکن پتھر یا ڈنڈے سے تو اپنا تحفظ نہیں کریں گے۔‘

’لوگوں کو گھروں میں گھس کر مارا جا رہا تھا، گھر جلائے جا رہے تھے تو لوگوں نے راتوں کو پہرے دیے ہوں گے اور کوئی حملہ ہوا ہو گا تو ظاہر ہے کہ جان بچانے کے لیے جانی نقصان ہوا ہو گا۔ لیکن کہیں ہم خود تو کسی لڑنے کہیں نہیں گئے۔‘

آفاق احمد نے دعویٰ کیا کہ ’آدھے لوگ تو انھوں نے خود مارے اس شک میں کہ کہیں وہ ہم سے تو نہیں مل گئے، شعیب شوبی جیسے لوگ ایسے ہی مارے گئے۔‘

ایسے حالات میں فوج، ریاست اور سیاست کی اعلیٰ قیادت کی ساتھ ساتھ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھی روگردانی کی گئی جبکہ شہر میں اسلحے کی بھرمار اور ان جماعتوں کے خطرناک حد تک مسلح ہو جانے سے ’آنکھیں بند کر لی گئیں۔‘

ایسا نہیں تھا کہ صرف ایم کیو ایم اس پُرتشدد مسلح سیاست میں ملوث ہوئی یا کر دی گئی بلکہ اس سیاسی منظر نامے میں کم و بیش ہر سیاسی، لسانی، مذہبی، دینی و فرقہ وارانہ گروہ، تنظیم اور جماعت نے صرف بندوق کے لہجے میں بات کرنی شروع کر دی اور اپنے اپنے مسلح گروہ، دستے اور جتھے قائم کر لیے۔

آہستہ آہستہ کراچی کے کئی گنجان آباد علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں اور لسانی گروہوں کے درمیان مسلح تصادم ہونے لگے۔

پھر تو اخبارات و جرائد سے وابستہ صحافی ہوں یا سیاسی مخالفین، عمائدین ہوں یا سرکردہ شخصیات، عوامی نمائندے ہوں یا سرکاری افسران و اہلکار، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عملہ ہو یا ممتاز شہری، ٹرانسپورٹرز ہوں یا تاجر، کاروباری شخصیات ہوں یا سماجی رہنما، ڈاکٹرز ہوں یا ہسپتالوں کا عملہ، ریاستّی ادارے ہوں یا عدلیہ سے متعلق اہلکار، جج اور وکلا، حتی کے طلبا ہوں یا اساتذہ، جس نے جب اور جہاں بندوقوں پستولوں سے مسلح ان گروہوں اور جتھوں پر تنقید کی یا ان کی مرضی کے خلاف آواز اٹھائی اسے جواب یا تو تشدد سے ملا یا گولی سے۔

نوبت آہستہ آہستہ پہلے اسلحے کے زور پر مخالفین کے اغوا اور پھر ان پر بدترین تشدد اور بالآخر قتل و غارت تک جا پہنچی۔

کئی گنجان آباد علاقوں میں کم و بیش ہر سیاسی، لسّانی اور مذہبی و فرقہ وارانہ گروہ اور جماعت نے اپنے اپنے عقوبت خانے یا تشدد اور قتل و غارت کے ایسے مراکز قائم کیے جن کا نام بھی دہشت خوف اور بربریت کی علامت بن کر رہ گیا۔

آفتاب صدیقی نے کہا کہ ’ہم عام شہری تو ہر وقت پیاروں کی زندگی کے لیے خوف و پریشانی میں زندہ رہتے تھے۔‘

مظہر عباس کہتے ہیں کہ کم و بیش ہر سیاسی، لسانی، مذہبی، دینی و فرقہ وارانہ گروہ، تنظیم اور جماعت کے مسلح گروہ اور جتھے تھے۔

ایم کیو ایم

سیاسی قائدین کا موقف یہ تھا کہ یہ لاشیں ان سیاسی جماعتوں اور ان کی ذیلی تنظیموں کے ارکان کی ہیں جنھیں ریاستی ادارے تشدد کر کے قتل کر رہے ہیں اور لاشیں، یا لاشوں کے ٹکڑے کر کے بوریوں میں بند کر کے پھینک رہے ہیں

یہاں تک ہوا کہ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے کارکنوں کو اغوا کرتے اور سرکاری اداروں کے حکام کی موجودگی میں ان یرغمال افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا۔

ذرائع ابلاغ کی پرانی اشاعتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ تشدد و قتل و غارت کسی ایک علاقے، زبان، یا کسی ایک تنظیم اور جماعت تک محدود نہیں تھا۔ ہر تنظیم اور ہر سیاسی جماعت کے ارکان موت کے اس بھیانک کھیل کا شکار ہوئے۔ تشدد کی یہ خبریں عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی جگہ پاتی تھیں۔

حکام کا الزام تھا کہ مخالفین کے ساتھ یہ تشدد اور قتل و غارت کرنے والوں کو سیاسی پشت پناہی حاصل تھی۔

مگر سیاسی قائدین کا موقف یہ تھا کہ یہ لاشیں ان سیاسی جماعتوں اور ان کی ذیلی تنظیموں کے ارکان کی ہیں جنھیں ریاستی ادارے تشدد کر کے قتل کر رہے ہیں اور لاشیں، یا لاشوں کے ٹکڑے کر کے بوریوں میں بند کر کے پھینک رہے ہیں۔

کراچی کے ایک ڈاکٹر نے جو جان بچا کر برطانوی شہر برمنگھم پہنچے اور یہاں سیاسی پناہ حاصل کی، بتاتے ہیں ’میں تو ہارٹ سرجن بننا چاہتا تھا۔‘

’میرا تو قتل و غارت گری کی اس سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، اسی خوف میں کہیں کوئی کسی دن یوں ہی بلاوجہ مجھے بھی نہ مار دیا جائے، میرے اپنے ہی خاندان نے مجھے ملک میں رہنے نہیں دیا۔‘

’امّی کہتی تھیں تم ہمارا واحد سہارا ہو بیٹا، کسی محفوظ جگہ چلے جاؤ تاکہ ہم سب کو پال سکو اور مجھے ہارٹ سرجن بننے کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹر کو یہاں اس ملک میں ٹیکسی چلانی پڑی، کراچی میں رہ جانے والے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے، ماں باپ اور بہن بھائی کی پرورش کرنے کے لیے زندہ رہنا پڑا اور اس کی قیمت یہ تھی کہ اپنا شہر، ماں باپ، بہن بھائی، دوست یار حتیٰ کے اپنا مستقبل اور اپنے پیشہ ورانہ خواب سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔‘

اس صورتحال میں فوج، رینجرز اور پولیس حکام کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اب تک نہ تو کراچی آپریشن کے پہلے مرحلے کے مطلوبہ نتائج مل سکے اور نہ ہی مقاصد حاصل ہو سکے بلکہ معاملات سیاست کی نذر ہو جانے سے فوج کو سبکی اور بدنامی اٹھانی پڑی۔

سندھ اور وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کو ان تمام حلقوں کی سیاسی حمایت حاصل تھی جن کی جانب سے اس قتل و غارت پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔ قتل و غارت روکنے کی کوئی بھی کوشش حکومت کو اُس سیاسی حمایت سے محروم کر سکتی تھی جس کے بل پر حکومت کا اپنا وجود قائم تھا۔

کراچی

’کراچی آپریشن کا دوسرا مرحلہ‘

بالآخر وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی حکومت اور فوج کی قیادت اس فیصلے ہر پہنچی کہ کراچی آپریشن کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے۔

پھر ریاستی اداروں کی جانب سے حکومت سے کہا گیا کہ فوج کو واپس بلایا جائے اور آپریشن کلین اپ کی دوسرے اور زیادہ سخت مرحلے کی کمان اب پولیس اور نیم فوجی ادارے رینجرز کے سپرد کی جائے اور انھیں خفیہ اداروں اور ریاست کی بھرپور مدد فراہم کی جائے۔

آپریشن کے اس دوسرے مرحلے کی قیادت بینظیر بھٹو حکومت کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نصیر اللہ بابر کو سونپی گئی جبکہ پولیس کی قیادت کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل کا انتخاب کیا گیا۔

برطانیہ کی ساؤتھ ویلز یونیورسٹی سے کریمنالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر شعیب سڈل اس وقت راولپنڈی شہر میں ڈی آئی جی تھے۔ وہ پاکستان کی پولیس سروسز میں پہلے افسر تھے جنھوں نے کریمنالوجی میں پی ایچ ڈی کی تھی۔

خود ڈاکٹر شعیب سڈل نے کراچی آپریشن پر کھل کر طویل گفتگو کی اور شہر کا نقشہ کچھ یوں بیان کیا۔

’جب 19 جون 1995 کو میں خود کراچی پولیس کا سربراہ بن کر آیا تو 25 ہزار کے قریب تعداد رکھنے والی پولیس کے مورال کا عالم یہ تھا کہ شہر کی پولیس کے سربراہ کی حفاظت کی ذمہ داری نیم فوجی اداروں کے سپرد تھی۔‘

’خود مجھے ایئر پورٹ سے پولیس کلب تک بحفاظت پہنچانے کے لیے پولیس کی بجائے نیم فوجی ادارے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کی نفری بھیجی گئی تھی۔

’تھانوں، پولیس کے دفاتر، افسروں اور اہلکاروں پر منظّم حملے ہوتے تھے۔ پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسر و اہلکار قتل کر دیے جاتے تھے یا حملوں کی زد میں تھے۔‘

’تھانوں کے دروازے عام آدمی پر بند تھے۔ رکاوٹیں لگا کر عام آدمی یا کسی ممکنہ حملہ آور دونوں ہی کا تھانے تک پہنچنے سے روکنے کے اقدامات ہوتے تھے۔ ریت کی بوریاں تھانوں کی چھتوں پر رکھی جاتی تھیں تاکہ کسی ممکنہ حملے میں حفاظت یا مورچہ بندی کا کام دے سکیں۔‘

ڈاکٹر سڈل نے کہا کہ ’ایک روز مغربی ضلعے میں تو خود میری گاڑی پر حملہ ہوا، ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا میرا سپاہی زخمی ہوا، مگر ہم بچ نکلے۔‘

مظہر عباس کہتے ہیں کہ آپریشن کی نگرانی کرنے والے حکام نے ساری صورتحال وزیراعظم کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ سمجھتی ہیں کہ ہم ان (پرتشدد عناصر یا حملہ آوروں) کو گرفتار کر لیں گے اور انھیں عدالتوں سے سزا ہو جائے گی، تو یہ سزا نہیں ہو گی۔‘

ایک سابق پولیس افسر نے کہا کہ ’تب وفاقی وزیر داخلہ نصیر اللّہ بابر نے قتل و غارت اور دہشتگردی کے خلاف بے دریغ اور بے رحمانہ آپریشن کرنے کے لیے وزیراعظم بینظیر بھٹّو سے مکمل فری ہینڈ لیا یعنی آزادانہ کام کرنے کی اجازت طلب کی۔‘

’طاقت کا جواب طاقت سے ہی دینے کے اس فیصلے نے وہ کیا جسے انگریزی میں ’اوپننگ دا گیٹ آف ہیل‘ کہا جاتا ہے۔‘

شعیب سڈل

شعیب سڈل بتاتے ہیں: ‘جب 19 جون 1995 کو میں خود کراچی پولیس کا سربراہ بن کر آیا تو 25 ہزار کے قریب تعداد رکھنے والی پولیس کے مورال کا عالم یہ تھا کہ شہر کی پولیس کے سربراہ کی حفاظت کی ذمہ داری نیم فوجی اداروں کے سپرد تھی’

دونوں جانب سے یعنی پولیس اور سیاسی طور پر متحرک جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے درمیان ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جو اگلے کئی برس تک جاری رہی۔

ایک سابق پولیس افسر نے کہا کہ ’طریقۂ کار ہی غلط تھا، سندھ ریزرو پولیس (ایس آر پی) سے بہت بڑی نفری لائی گئی ڈسٹرکٹ پولیس میں۔ فرض کریں کہ 100 لوگ لائے گئے اور ان میں سے پانچ نے بھی اوپر والوں کے حکم پر ماورائے قانون کام شروع کیے تو فیصلہ سازوں کا تو کام بن گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس آزادی سے پولیس کے کام کرنے کا طریقۂ کار ہی بدل گیا۔ کئی افسروں نے عجیب انداز اور چال چلن اپنا لیا۔ ذیشان کاظمی جیسے پولیس افسران نے تو اپنے علاقے میں جینز اور کلف والی شلوار قمیض پہننے پر پابندی لگا دی، اب اس کا کیا تعلق تھا آپریشن سے؟‘

مظہر عباس کہتے ہیں ’پولیس کے افسران کو خفیہ اداروں کے ساتھ مکمل آزادی اس حد تک دی گئی کہ انھیں عدالتوں میں بھی گرفت میں نہیں لیا جا سکا۔‘

جسٹس ناصر اسلم زاہد نے ایک موقع پر کہا کہ ’میں ان پولیس افسران کو شہر میں نہیں دیکھنا چاہتا مگر ہم نے دیکھا کہ جسٹس ناصر اسلم زاہد چلے گئے مگر وہ پولیس افسر وہیں رہے۔‘

اگرچہ پولیس افسران نے آپریشن کے اہداف حاصل کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی مگر اور بھی بہت کچھ کیا گیا اس دوران انتہائی مشکوک اور متنازع ’پولیس مقابلے‘ شروع ہوئے اور سیاسی وابستگی رکھنے والے سینکڑوں افراد مارے گئے۔

لیکن ساتھ ہی ان مقابلوں میں شریک ہونے والے پولیس افسران و اہلکاروں کی لگاتار ہلاکتوں کے ایسے سلسلے کا بھی آغاز ہوا جس نے کراچی کو دنیا کے چند خطرناک ترین شہروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

اس قتل و غارت نے بلاشبہ ہزاروں جانوں کی بھینٹ لی، شہر کو کئی کئی دن تک محصور رکھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق اس چار سالہ آپریشن کے دوران 450 کے لگ بھگ افسران و اہلکار ہلاک ہوئے۔

سیاسی جماعتوں نے بھی اس دوران اپنے ہزاروں کارکنوں کی ہلاکت کے دعوے کیے۔

ریاستی اداروں پر مشتمل ایک فیلڈ انویسٹیگیشن ٹیم (ایف آئی ٹی) بنائی گئی جس میں رینجرز اور پولیس افسران شامل ہوئے۔

پاکستان سے نقلِ مکانی کر جانے والے اس وقت کے ایک نامور سیاستدان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ’ایف آئی ٹی اور پولیس نے بے دریغ وہ سب کچھ کیا جسے زیادتی کہنا کم ہو گا۔‘

کراچی

‘طاقت کا جواب طاقت سے ہی دینے کے اس فیصلے نے وہ کیا جسے انگریزی میں ‘اوپننگ دا گیٹ آف ہیل’ کہا جاتا ہے۔’

’پورے پورے علاقوں کا محاصرہ، پوری پوری آبادی کی خانہ تلاشی، ہر گھر سے نوجوانوں کی ناجائز گرفتاریاں، چادر اور چار دیواری کی خلاف ورزی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں۔ گھروں کی خواتین سے بدسلوکی اور بچوں کے سامنے بڑوں کی گرفتاری۔‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp