ہماری معاشی زندگی کا مقصد اور ترقی کی بحث


\"zeeshan

ہم کون ہیں ، کیا ہیں ، اس کائنات میں ہمارا کیا مقام ہے ، فطرت سے ہمارا کیا تعلق ہے اور ہماری زندگی کے کیا مقاصد ہیں ؟ کون کون سی مادی ضروریات اور خواہشات ہیں ؟ زندگی کی ان بنیادی ضروریات و خواہشات اور مقاصد کی بہترین تکمیل کا کوئی ایک متعین ذریعہ ہے یا ان گنت راستے ہیں ؟ سوسائٹی اور ریاست کیا ہیں ، کیوں ہیں ، ہمارے ساتھ ان کا کیا رویہ ہے اور ہمیں ان کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہئے ؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جو ہم بطور انسان عموما سوچتے اور انہی کے مطابق اپنے رویوں کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں –اسی طرح یہی وہ بنیادی سوال ہیں جو ہماری سوشل سائنسز کا بھی مرکزی موضوع ہیں –

اکنامکس بھی ان میں سے ایک ہے – اسے بھی فرد کو بطور پروڈیوسر اور کنزیومر سمجھنا ہوتا ہے کیونکہ بغیر فرد (Individual ) کو سمجھے اس کے رویوں کو ایک کل میں (Macroeconomics کی سطح پر ) سمجھنا ناممکن ہے –

اکنامکس میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ وہ کون سا پیمانہ ، طریقہ یا معیار ہے جس کی بنیاد پر ہم سمجھ سکیں کہ ایک معیشت کیا واقعی بہتر حالت میں ہے اور مزید بہتری کی جانب گامزن ہے ؟ یا دوسرے الفاظ میں ، ترقی دراصل کسے کہتے ہیں جس کی تمام افراد اور ممالک جستجو کرتے ہیں اور اس مقام پر پہنچنے کے لئے اپنی تمام تر توانیاں خرچ کی جاتی ہیں ؟

ان میں سے ایک معروف اصطلاح جی ڈی پی ہے – جی ڈی پی ایک ملک کی کل قومی پیداوار کا نام ہے – اسی طرح اکنامکس کے اصولوں کی رو سے کل قومی پیداوار سے مراد کل قومی آمدن بھی ہے (١)– یوں ایک ملک جتنا زیادہ پیدا کر رہا ہو گا اس سے مراد یہ ہے کہ اس ملک کے شہری اتنی زیادہ دولت کما رہے ہیں – معیشت کا یہ سب سے روایتی Indicator (اشاریہ ) ہے – جب کل قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے تو معیشت دان خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور جب اس میں کمی آ رہی ہوتی ہے تو وہ نہ صرف فکر مند ہو جاتے ہیں بلکہ ایک ماہر طبیب کی طرح ان اسباب کی تلاش شروع کر دیتے ہیں جو ان کے خیال میں اس گراوٹ کی وجہ ہو سکتے ہیں –

یاد رہے کہ صرف جی ڈی پی پر ہی توجہ مرکوز رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی زندگی میں سب سے اہم دولت ہے جبکہ باقی چیزیں بہت بعد میں آتی ہیں – اسی بنیاد پر کچھ لوگوں کا یہ کہنا بھی ہے کہ صرف دولت ہی سب کچھ ہے – کچھ سمجھتے ہیں کہ اگر دولت ہے تو باقی آسائشیں اور راحتیں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں –

یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ اگر مادی ضروریات پوری نہ ہوں تو زندگی کا ابتدائی قاعدہ شروع کرنا بھی محال ہے – مادی ضروریات اگر پوری نہ ہوں تو زندگی کی بقا ناممکن ہے – کیا یہ اسی سبب سے نہیں کہ دنیا کے دس امیر ممالک میں زندگی کی اوسط شرح (Life Expectancy ) غریب ملکوں کی نسبت پچیس سال زائد ہے – (2 ) اگر آپ کے پاس معقول آمدن ہو گی تب ہی آپ تعلیم صحت بہترین خوراک اور آرام دہ گھر پر خرچ کر سکیں گے ، اور کتب بینی ، شاعری و موسیقی جیسے مشاغل میں حصہ لے سکیں گے –

مگر محض دولت ناکافی ہے – صرف دولت سے زندگی کے تمام مقاصد کی تکمیل ممکن نہیں – صرف دولت سے خوشی کی منزل نہیں حاصل کی جا سکتی – ولیم ایسٹرلی ، نیو یارک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور دنیا میں ایک معروف نام ہے – انہوں نے 1960 سے 1990 کے درمیان کے اعدادوشمار لئے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ معاشی گروتھ یعنی ایک ملک میں کل دولت کے اضافہ کا وہاں کے شہریوں کے معیار زندگی میں اضافہ سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ؟ معیار زندگی سے متعلق انہوں نے 81اشاریے (Indicators) لئے – انہوں نے یہ معلوم کیا کہ دولت میں اضافہ کا اثر کل اکاسی اشاریوں میں سے محض 32 پر ہے – یعنی ہمارے معیار زندگی پر اثر انداز ہونے والے کل اکاسی عوامل میں سے بتیس ایسے ہیں جن میں بہتری ہماری دولت میں اضافہ کے سبب ہے (٣)– یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صرف دولت کافی نہیں مگر یہ بھی ہے کہ بغیر دولت کے کچھ بھی نہیں –

مان لیا کہ دولت یا آمدن یا جی ڈی پی معیار زندگی کو جانچنے کا حتمی اور مکمل پیمانہ نہیں ، اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم کوئی اور بہترین متبادل بھی رکھتے ہیں ؟ اس سلسلے میں کچھ مزید متبادل بھی متعارف کروائے گئے ہیں جیسے :

– دنیا میں خوشی کی رپورٹ (World Happiness Report) : یہ اشاریہ بھوٹان میں ترتیب دیا گیا تھا اور اس کی رو سے ڈنمارک دنیا میں نمبر ون ہے – دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ صف اول کے دس خوش ترین ممالک میں وہی ممالک ممالک ہیں جو دولت کے اعتبار سے بھی ترقی یافتہ میں آتے ہیں – پاکستان اس رینکنگ میں 92 نمبر پر آتا ہے – (٠٣ )

یقینا خوشی ایک بہترین معیار ہے – آپ اپنے طرز زندگی سے مطمئن ہوں گے تب ہی خوش ہوں گے – اگر مادی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں تو خوشی کاہے کی ؟ اگر غیر مادی آرزؤں کی جستجو میں ناکامی ہے تو یقینا مایوسی کا ہی غلبہ ہو گا – مگر سوال یہ ہے کہ فرد سے فرد خوشی کا معیار ، شدت ، اور کیفیت مختلف ہوتی ہے – ہم کیسے معلوم کر سکیں گے کہ کون خوش ہے اور کون خوش نہیں – فرض کیا پاکستان کے کیس میں ہم کیسے جان سکیں گے کہ بیس کروڑ عوام میں سے کون خوش ہے اور کون نہیں ، کون زیادہ خوش ہے اور کون کم ؟ اسی طرح کسی دوسرے ملک کے موازنہ میں ہم زیادہ خوش ہیں یا کم خوش ہیں ؟ یوں یہاں بھی وہی measurement (اعداد و شمار کے حصول اور تجزیہ ) کا مسئلہ ہے جو بقول نوبل انعام یافتہ معیشت دان Angus Deaton معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے –

خوشی کو جانچنے کا معروف اور واحد طریقہ سروے ہے – ہم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ خوش ہیں یا نہیں ؟ اس طریقہ کار میں ایک بڑا مسئلہ ہے وہ ہے رپورٹنگ – ماہرین نفسیات کے مطابق لوگ اپنی خوشی کو رپورٹ کرنے میں ناکام رہتے ہیں – اگر وہ کہہ دیں کہ ہاں ہم خوش ہیں تو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ کتنا خوش ہیں ؟ اگر کم خوش ہیں تو کتنا کم خوش ہیں ؟ سائیکالوجی کی اصطلاح میں اس مشکل کو “adaptive preferences” کہتے ہیں (4 )

ماہرین نفسیات کے مطابق ہم خوشی کے مراحل درجہ بدرجہ طے کرتے جاتے ہیں – مثال کے طور ایک فرد جو بے روزگار ہے اور اسے بھوک کے مسائل کا سامنا ہے ، جیسے ہی اسے نوکری ملے گی وہ ایک دم سے خوشی و مسرت سے لطف اندوز ہو گا – مگر جیسے ہی وہ ایک با روزگار شہری بن جائے گا اس کی خواہش ہو گی کہ وہ مزید ترقی کرے ، اب اس کی خوشی اس اگلی منزل کے حصول میں ہے – جتنا اگلی منزل تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگے گا اتنا ہی خوشی کی شدت میں کمی آتی جائے گی – اس لئے سروے کے نظام پر ایک تنقید یہ کی جاتی ہے کہ جب کسی فرد سے اس کی خوشی کی کیفیت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے ، اس وقت نہیں معلوم کہ وہ کسی نفسیاتی کیفیت میں ہوتا ہے – مثال کے طور پر ایک شخص جو دفتر سے تھکا ہارا گھر لوٹ رہا ہے جب اس سے پوچھا جائے گا کہ جناب کیا آپ خوش ہیں تو ممکن ہے وہ جواب دے : بکواس ہے یہ زندگی – اب اسی فرد سے جب وہ اتوار کے دن اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزار رہا ہو آپ پوچھیں کہ جناب کیا آپ خوش ہیں تو ممکن ہے اس کا جواب ہو جی ہاں ، بہت خوش ، میری فمیلی میرے ساتھ ہے اور میں نے بھرپور نیند کے مزے لئے – (5 )

میرے اپنے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ آفس سے چھٹی کے دن میں فلمیں دیکھنا ، سونا ، اور گھر والوں سے گپ شپ کو ترجیح دیتا ہوں میرے لئے خوشی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے مگر میرے اکثر قریبی دوست چھٹی کے دن گھر سے باہر سیر و تفریح اور آوارہ گردی میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور مجھے تنہائی پسند جیسے خطاب سے چڑاتے ہیں –

– ترقی کو ناپنے کا ایک اور ذریعہ \”Personal Well-being\” بھی ہے جسے برطانوی حکومت سالانہ بنیادوں پر شائع کرتی ہے –

– ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس بھی اس سلسلے میں ایک بہترین متبادل ہے مگر اس کی خوبیاں اور خامیاں بھی بہت ساری ہیں –

اب سوال یہ ہے کہ ان میں سب سے بہترین کون سا طریقہ ہے ؟

میرے خیال میں یہ سب طریقے یا اشارے اپنے مخصوص پہلؤوں کی محدود خبر دیتے ہیں – جی ڈی پی میں بہت سی خامیاں سہی مگر تمام درج بالا متبادلات میں سب سے بہتر macroenomic متبادل وہی ہے – مگر ٹھہرئے اس سارے معاملہ کو بجائے اس کے کہ ایک کل میں دیکھیں ، ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں جسے مشہور فلسفی معیشت دان امرتیا سین ہمارے لئے پیش کرتے ہیں – وہ متبادل ہے capability :انفرادی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو جانچنے کا اشاریہ – یاد رہے کہ امرتیا سین ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کی تیاری میں پاکستانی معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق کے ساتھی تھے اور وہ خود ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کو نامکمل اور ناکافی سمجھتے ہیں جس میں ان کے خیال میں بہت ساری خامیاں ہیں – (6 )

سوال یہ ہے کہ سین کی مجوزہ Capability کیا ہے ؟ سین لکھتے ہیں :

A capability is something that people have reason to value. (7)

اس سے مراد ویسا طرز زندگی ہے جیسا لوگ اپنے لئے پسند کرتے ہیں –جیسا اپنی سوچ و فہم ، معقولیت پسندی (Reasoning )، اور آزادی ارادہ و عمل سے وہ جینا چاہتے ہیں –

سین لکھتے ہیں :

انسانی صلاحیتوں و قابلیتوں کا شمار ناممکن ہے – لمبی مگر صحت مند زندگی کے مواقع ، سیاسی سماجی اور معاشی زندگی میں حصہ لینے کی آزادی ، اپنی آرزوؤں کی پرامن جستجو میں آزادی سمیت تمام امکانات کی تسخیر کی آزادی جسے فرد اپنی سوچ و فہم ، معقولیت پسندی (Reasoning )، اور آزادی ارادہ و عمل کی مدد سے جستجو کرنا چاہے (8 ) – ان صلاحیتوں و قابلیتوں میں سے کس صلاحیت و قابلیت کو اسے pursue کرنا چاہئے یہ کسی سماجی ادارے کا کام نہیں بلکہ یہ صرف فرد کا شخصی انتخاب ہے – یہ اس کا حق ہے کہ اپنی زندگی کے جملہ فیصلے وہ خود کرے ، جسے حق انتخاب (Freedom of choice ) کہتے ہیں – اب یہ خود فرد پر منحصر ہے کہ وہ طے کرے کہ وہ کس معیار ترقی کو اپنے لئے پسند کرتا ہے نہ کہ کوئی اور بیرونی و آمرانہ قوت اسے بتائے کہ کس معیار ترقی کی اسے جستجو کرنی چاہئے – اس سلسلے میں سین مواقع کی مساوات اور مقابلہ کی ثقافت میں مواقع کی آزادی اور کم سے کم حکومتی مداخلت کو لازم قرار دیتے ہیں – ان کے خیال میں حکومت کا کام اس سارے معاملہ میں سہولت کار کا ہے جو ان تمام رکاوٹوں کو دور کرے جو مواقع کی مساوات اور مقابلہ کی ثقافت میں حائل ہیں – (9 )

سین کہتے ہیں کہ معیشت دانوں کو بجائے جی ڈی پی یا کسی اور indicator کے زیادہ سے زیادہ شخصی آزادی یعنی فریڈم کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے – آمدن یعنی دولت بہترین زندگی کی یقینا ایک اہم ضرورت ہے مگر صرف یہی کافی نہیں – سونے کے پنجرے میں ترقی نہیں – اصل چیز آزادی ہے ، انتخاب ہے ، اور امکانات کی تسخیر کے مواقع ہیں –(10)

یہی سبب ہے کہ امرتیا سین کے ہاں ترقی کا مطلب بھی آزادی ہے – وہ آزادی کو ہی آزادی کی منزل کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں – ان کے الفاظ میں جہاں زیادہ فریڈم ہو گا وہاں زیادہ ترقی ہو گی اور جہاں کم فریڈم ہو گا وہاں کم ترقی ہو گی– یوں وہ مختلف معاشروں اور ممالک میں موازنہ کا معیار جی ڈی پی نہیں بلکہ آزادی قرار دیتے ہیں – سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک وہ ہے جہاں سب سے زیادہ فریڈم ہے ، مواقع کی مساوات اور مقابلہ کی ثقافت پائی جاتی ہے – اس سلسلے میں ان کی بہترین کتاب \”ترقی بطور آزادی (Development as freedom) اس پورے موضوع کا مکمل تفصیل سے احاطہ کرتی ہے –( 11)

حوالہ جات

1. Economics, an Introductory Analysis by Paul Anthony Samuelson, McGraw-Hill Book Company, 1948.

2. The Economist: Economics 4th edition: Making sense of the Modern Economy by Richard Davies, Profile Books, 2015.

3. World Happiness Repost, http://worldhappiness.report/ 2016.

4. Creating Capabilities. By Martha C. Nussbaum, Harvard University Press, 2011.

5. Ibid

6. Development as freedom By Amartya Sen, Anchor Books, 2000.

7. Ibid

8. Ibid

9. Ibid

10. Ibid

11. Ibid

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments