ترک صدر کا دورہ پاکستان اور نواز رجب تعلقات


\"meer-moeed\"بادشاہ بادشاہوں سے دل کی باتیں بلا وجہ نہیں کرتے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں وزیر اعظم نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر سے کہا کہ میرے بیٹے سیاست سے دور رہنا چاہتے ہیں جب کہ میری بیٹی کو سیاست میں دلچسپی ہے۔ اس پر رجب طیب اردوان نے جواب دیا کہ آپ کی صاحبزادی سیاسی شعور رکھتی ہے امید ہے کامیاب رہے گی۔ یہ ایک بادشاہ کی دوسرے بادشاہ سے محض گفتگو نہیں بلکہ مستقبل قریب میں پیدا ہونے والے چیلنجز میں دونوں کا ایک دوسرے کی مدد کرنے کی یقین دہانی ہے۔ دوسری طرف ایک پرانی مگر قابل ذکر خبر یہ ہے کہ میڑو لاہور اور راولپنڈی کو بنانے اور لاہور شہر کو صاف رکھنے کے لیے بھی جن ترک کمپنیوں کی مدد لی گئی ہے وہ دراصل رجب طیب اردوان کے صاحبزادے کی ہیں۔ اس سب کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان اور ترکی کے تعلقات کافی دوستانہ رہے ہیں لیکن شریف برادران کے رجب طیب اردوان سے قریبی اور غیر رسمی تعلقات ہیں۔ اس وقت ترک صدر کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کے لیے اہم تو ہے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ رجب طیب اردوان اور شریف بردران کے لیے شاید کافی زیادہ اہم ہیں۔ دونوں حکمرانوں کو اپنے اپنے ملک میں موجود اسٹیبلشمنٹ سے اندرونی دباؤ کا سامنا ہے۔ وہ شریف خاندان کا پانامہ میں نام آنے کے بعد دن بہ دن کمزور ہوتی شریفانہ حکومت ہو یا پھر سرل لیکس اور ایک کے بعد ایک ان کے وزراء کو گھر کا راستہ دکھایا جانا ہو، ایک بات نوشتہ دیوار ہے کہ شریفانہ حکومت کو اپنی حکومت اور سیاست بچانے کے لیے بین الاقوامی لیڈروں کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال قطر شہزادے کا وہ خط ہے جس نے شاید حق دوستی تو ادا کردیا ہے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق یہ داؤ الٹا بھی پڑ سکتا ہے۔ اس کی وجہ اس خط کے برخلاف وزیر اعظم کا اپنا 16 مئی 2016 کا بیان ہے۔ اگر معاملہ بگڑ گیا تو نقصان کو کم کرنے اور حکومت یا جان بچانے کے لیے شریف حکومت کو دوست شہنشاؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

بالکل اسی طرح امریکہ میں مقیم ترک رہنما گولن اور اس کی تنظیم کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے رجب طیب اردوان کو شہباز شریف اور نواز شریف جیسے دوستوں کی ضرورت ہے۔ اس وقت رجب طیب اردوان کی حکومت جولائی میں ناکام ہونے والی فوجی بغاوت اور ملک میں صحافیوں کے جیلوں میں ڈالنے کے بعد کافی اندرونی دباؤ کا شکار ہے جب کہ ترکی کو خاص کر یورپ سے بھی خاصے دباؤ کا سامنا ہے۔ اگرچہ ترکی آج بھی نیٹو میں ایک بڑا فوجی حصہ رکھتا ہے، شام اور عراق کے جنگی تھیٹر میں ترکی کی اہمیت سے کوئی ملک انکار نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی اس وقت اگر دیکھا جائے تو اس دو طرفہ تعلقات کی نوعیت اس دورہ کے اعتبار سے کچھ یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ ترک صدر اس وقت اپنے داخلی اور خارجی دباؤ کو کم کرنے اور گولن تنظیم کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو پاکستان اور دیگر دوست ممالک سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے شریف خاندان سے اخلاقی مدد حاصل کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں اور یقیناً ترک صدر کی کوئی بھی خواہش ان کی جنبشِ ابرو سے پیشتر کر دی جاتی ہے اور اس مرتبہ بھی کردی گئی ہے۔

پاک ترک سکولوں کے سینکڑوں اساتذہ کو بہ یک جنبش قلم ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ سالہاسال سے فروغ تعلیم کے لئے خدمت انجام دینے والے یہ اساتذہ شاید جولائی میں ہونے والے ترکی میں فوجی بغاوت اور اس کے اس بھیانک انجام کا خواب میں بھی نہ سوچ سکتے ہوں سوال یہ بھی اہم ہے کہ پاکستانی طلبہ اور ان کے والدین کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے جو کہ ان درسگاہوں میں کافی معیاری اور سستی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور یہ کہ اگر اس بات کا اصولی فیصلہ کر بھی لیا گیا ہے کہ پاک ترک فاؤنڈیشن کے زیرسایہ چلنے والے تعلیمی اداروں کے اساتذہ ملک چھوڑ دیں تو بھی ان اساتذہ کو اور ان سکولوں کو مناسب وقت دینا چاہئے تھا۔ آخر وہ کوئی جنگی جرم میں شریک نہیں ہیں، وہ سال ہا سال سے پاکستان میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہ رہے ہیں ان کو تین یوم میں پاکستان چھوڑنے کی سزا کس جرم میں دی جارہی ہے۔ پاکستان میں ایسے سینکڑوں اساتذہ موجود ہوں گے جو نہ جانتے ہوئے یا جانتے بوجھتے ایسے اداروں سے منسلک ہیں جنہیں دہشتگردوں کی آماج گاہیں سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان کو چھوڑ کر پر امن ترک شہریوں پر ایک بادشاہ کا دوسرے بادشاہ کو خوش کرنے کا یہ تحفہ یقیناً مستقبل قریب میں شریف خاندان کے لیے ترکی سے کسی آڑے وقت کی پیش بندی محسوس ہوتی ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس وقت جب کہ پاکستان میں سول ملٹری قیادت میں حالات کشیدہ ہیں رجب طیب اردوان کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے لیے بلایا جانا ایک خاموش پیغام بھی ہے کیوںکہ عالم اسلام میں جس طرح فوجی بغاوت کو اس مرد جمہوریت نے ناکام کیا ہے وہ فقیدالمثال ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ملک میں اپنے ووٹروں کے لیے معاشی طور پر انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی میں ہونے والی بغاوت کے وقت ترک شہری رجب حکومت بچانے کے لیے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ مگر شریف حکومت جس طرح کرپشن کے الزامات کے جواب میں آئے دن نیا بیان اور نیا گواہ پیش کر رہی ہے اور جس طرح غریبوں کا بھاری ٹیکسوں سے استحصال کیا جا رہا ہے خاکم بدہن اگر یہاں فوج کا موڈ بدلا اور ٹینک سڑکوں پر آئے تو کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ شہری ٹینکوں کے سامنے نہیں ان کے پیچھے لیٹ جائیں گے تاکہ ٹینکوں کی واپسی کا راستہ روکا جاسکے۔

اگرچہ ہم جمہوریت کے قائل ہیں مگرحقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی کرپٹ جمہوری حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوت ہو تو ٹینکوں کی نوبت ہی نہیں آتی انہیں اقتدارسے ہٹانے کے لیے بوٹوں کی چاپ کافی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments