ترک اساتذہ کو واپس بھیجے جانے پر احتجاج کیوں؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

ترک صدر طیب رجب ایردوان کے ’حکم‘ پر پاکستان کے پاک ترک سکولوں کے اساتذہ کو پاکستان سے رخصت کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر کئی طبقات کے اعتراضات پر صورت حال سے ناواقف افراد کے کچھ ایسے موقف سامنے آ رہے ہیں:

1۔ وہ ترک شہری ہیں اور ان کی حکومت کے مطالبے پر انہیں بھیجا جانا مجبوری ہے۔

یہ بات ذہن میں راسخ کر لیں کہ ایک ریاست کا شہری، اس کا غلام نہیں ہوتا ہے کہ بھاگ جائے تو پکڑ کر مالک کو واپس کرنا ہو۔ دنیا میں سیاسی پناہ کا نظریہ اسی بات کی ایک مثال ہے کہ جب ایک شہری کو اس کی اپنی ریاست ہی ظلم و ستم کا نشانہ بنانا چاہتی ہو، تو انسانی اقدار کا احترام کرتے ہوئے دوسرے ممالک اسے سیاسی پناہ دے سکتے ہیں تاکہ اس کے بنیادی انسانی حقوق قائم رہیں۔ پاکستان میں اس کی مثال میں جنرل ضیا کا دور پیش کیا جا سکتا ہے جب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور دانشوروں تک کو ملک چھوڑ کر جلاوطنی اختیار کرنی پڑی تھی۔ بیس نومبر کو فیض کی برسی تھی، تو کیوں نہ فیض کا نام ہی مثال کے طور پر لیا جائے۔ کیا یہ مناسب ہوتا کہ فیض کو زبردستی جلاوطنی سے واپس بلا کر جنرل ضیا کے حوالے کر دیا جاتا؟

2۔ دوسری دلیل یہ سامنے آتی ہے کہ ’یہ ترک اساتذہ گولن تحریک سے وابستہ ہیں اور اس وجہ سے دہشت گرد ہیں۔ اگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے افراد ترکی میں جا کر سکول کھول لیں گے تو کیا ہمارے تعلقات ترکی سے خراب نہیں ہوں گے؟‘

\"Students

اگر یہ شہری براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہیں، تو ان کے خلاف ثبوت دینا چاہیے۔ ثبوت کی عدم موجودگی میں ان کو دہشت گرد کہنا غلط ہے۔ اگر تحریک طالبان کے ایسے لوگ جو کہ پاکستان میں براہ راست دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں، کسی دوسرے ملک جاتے ہیں، تو پاکستان اس ملک سے ان شہریوں کو نکالنے کا مطالبہ نہیں کر سکتا ہے کیونکہ سب سے پہلے تو وہاں کی عدالت ہی اس مطالبے کو رد کر دے گی۔

ابھی چند دن پہلے ہی بھارت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تنظیم پر انتہاپسندی کے الزام میں پابندی لگائی ہے۔ اب پاکستان میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تقاریر سننے یا ان کا چینل دیکھنے والے تمام افراد کو دہشت گرد کہنا غلط ہو گا یا صحیح؟ یہی معاملہ ترک اساتذہ کا ہے۔

3۔ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ مطالبہ پورا نہ کرنے پر ترکی سے تعلقات متاثر ہوں گے جس نے غیر مشروط طور پر ہر فورم پر کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت کی ہے۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قبرص کے مسئلے پر ہر فورم پر پاکستان نے بھی ترکی کی غیر مشروط حمایت کی ہے۔ اگر ترکی کشمیر پر حمایت واپس لیتا ہے، تو اسے قبرص کے معاملے پر حمایت سے محروم بھی ہونا پڑے گا۔ کسی پاکستانی جنگ میں ترک فوجی براہ راست شامل نہیں ہوئے ہیں، جب کہ (صحیح یا غلط) ہم نے خود سنا کہ یونانی قبرص والے یہ الزام لگاتے ہیں کہ جب 1974 کی جنگ میں ترکی نے قبرص پر حملہ کیا تو پاکستانی سپیشل سروسز گروپ نے ان فوجوں کی مدد کی تھی۔

\"pakturk-cemil-cecik-2013-feb2\"

جہاں تک معاشی تعلقات کی بات ہے تو پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارت کا حجم محص 650 ملین ڈالر ہے جبکہ بھارت کے ساتھ ترکی کی تجارت کا حجم سات ارب ڈالر ہے جسے ترکی 2021 تک 22 ارب ڈالر تک جاتے دیکھ رہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ حکومتوں کے ساتھ تعلقات کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی ہے جتنی کہ عوام کے ساتھ تعلقات کی ہوتی ہے۔ ترک عوام تحریک خلافت کے دنوں سے برصغیر کے مسلمانوں کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے درسی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ہندوستانی مسلمان وہ واحد قوم تھے جنہوں نے خلافت عثمانیہ کی مدد کی تھی اور یہاں کی عورتوں نے اپنے زیور تک ترک فوجوں کی مدد کے لئے عطیہ کیے تھے۔ اب جس طرح یکلخت ترک شہریوں کو نکالا جا رہا ہے، تو ترک بچے ایک طویل عرصے تک پڑھیں گے کہ پاکستانیوں نے ترکوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ ایردوان کی حکومت چند سال ہی رہے گی، مگر ترک قوم کی یاد داشت سو سال میں بھی دھندلی نہیں پڑتی ہے۔ مستقبل کے ترک عوام میں پاکستان کا تاثر خراب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وہی پالیسی ہے جس کی وجہ سے ہم نے سعودی عرب اور امارات کے بے پناہ دباؤ کے باوجود یمن کی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ کل اگر گولن تحریک اور ایردوان ماضی کی طرح دوبارہ اتحادی بن گئے تو پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟

4۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ویزا دینا یا نہ دینا پاکستانی حکومت کا اختیار ہے۔ اس پر اعتراض کیوں؟

\"abdullah-gul-pakturk\"

بجا فرمایا کہ ویزا دینا یا نہ دینا کسی ملک کی حکومت کا اختیار ہوتا ہے اور وہ اپنے ملکی مفادات کے مطابق کسی بھی شخص کو ویزا دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے۔ ہمیں اعتراض اس نوٹس پر ہے جس میں ترک اساتذہ کو تین دن کے اندر اندر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیا ان کو ایک ماہ کی مہلت نہیں دی جا سکتی تھی؟ یا ان کو تعلیمی سال ختم ہونے تک وقت نہیں دیا جا سکتا تھا؟ ان کی طرف سے عدالت میں جو کیس کیا گیا تھا، اس میں وہ صرف تعلیمی سال ختم ہونے تک کی مہلت مانگ رہے تھے، یعنی اپریل تک کی۔ کیا اس معاملے پر صدر ایردوان سے بات نہیں کی جا سکتی تھی؟ یہ غیر معمولی عجلت کیوں جس پر ہمیں ظالم کہا جا رہا ہے؟

اس وقت جس ترک استاد سے بھی ملو، وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ ہمیں ویزا کیوں نہیں دیا۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکومت پر ترک حکومت کا بہت زیادہ دباؤ تھا جو کہ وہ مئی سے برداشت کر رہی تھی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس عجلت میں ہمیں پاکستان چھوڑ جانے کا حکم دے کر ہم پر ظلم کیا گیا ہے اور یہ ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا گیا۔

\"Pakistan

یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ان کو پتہ تھا کہ ان کا ویزا ختم ہو رہا ہے تو پھر وہ جانے کو تیار کیوں نہیں تھے؟ ان میں سے بعض اساتذہ یہ پندرہ بیس سال سے مقیم تھے اور ہر سال ان کے ویزے کی تجدید ہوتی تھی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ ہر سال وہ اپنا سارا ساز و سامان بیچ کر پھر ویزے کے لئے اپلائی کرتے اور ویزا لگنے پر دوبارہ گھر کا سامان خریدتے۔ اساتذہ کے مطابق مئی سے انہوں نے ویزے میں توسیع کے لئے اپلائی کرنا شروع کیا تھا مگر پاکستانی حکومت نہ ان کو ہاں کہہ رہی تھی اور نہ ہی انکار کر رہی تھی۔ توقع یہی تھی کہ گزشتہ بیس برسوں کی مانند اب بھی ویزے میں توسیع کر دی جائے گی۔

جبکہ اچانک حکم ملا کہ تین دن کے اندر اندر ملک چھوڑ دو۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے کہ اتنی عجلت میں برسوں کا جمایا ہوا گھر مناسب داموں پر نہیں بیچا جا سکتا ہے۔ گھر بیچنے کے علاوہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ترکی واپس نہیں جا سکتے ہیں۔ پاک ترک کے تین اساتذہ اس وقت ترکی کی جیلوں میں قید ہیں۔ ایک پہلے سے ہی وہاں موجود تھے، جو کہ غالباً چھٹی پر گئے تھے، اور دو ویزا ختم ہونے پر وہاں گئے تھے اور اب جیل میں ہیں۔ یہ لوگ ان ملکوں میں جائیں گے جہاں وہ ویزے کے بغیر جا سکتے ہیں۔ لیکن ان کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ عارضی سیاحتی ویزے پر وہ ملازمت نہیں کر سکتے ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ کیا کمائیں گے اور کیا کھائیں گے؟ اگر ان کو مناسب مہلت دی جاتی تو وہ دوسرے ملکوں میں اپنی ملازمت کا بندوبست کر کے یہاں سے نکلتے۔ ان میں سے کچھ نے یہ سوچا تھا کہ اپنی عورتوں بچوں کو ترکی بھیج کر خود کہیں نکل جائیں مگر ترکی میں ان ’دہشت گرد خواتین‘ کے نصیب میں بھی جیل ہی لکھی ہے۔

\"turkish-family-child\"

ان اساتذہ کو ملک چھوڑنے کی مناسب مہلت دیے جانے پر نہ تو ترک حکومت ناراض ہوتی، اور نہ ہی یہ اساتذہ اسے ظلم قرار دیتے۔

ہمارے بچے سات آٹھ سال سے پاک ترک سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ ان اساتذہ کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ہر ہفتے چند طلبہ کے گھر جا کر ان کے گھر والوں سے ملا کرتے تھے۔ یہ کبھی تبلیغ کرتے نہیں پائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اخلاق آپ کو متاثر کریں گے تو آپ ہمارا ساتھ دینے لگیں گے۔ مسلح جد و جہد کی بات تو چھوڑیں، کسی بھی قسم کی انتہاپسندی کا شائبہ تک ان میں دکھائی نہیں دیا۔ جس بات سے ان کو اختلاف ہو، اس پر خاموشی اختیار کرنا ان کا مسلک ہے۔

ادھر اپنے بچے پڑھاتے ہوئے جو سب سے بڑا خطرہ محسوس ہوتا تھا، وہ یہی تھا کہ ہمارے بچے بھی ایسے ہی درویش بن کر اپنے والدین کو چھوڑ کر اچھے برے ملکوں میں جا کر سکولوں میں تدریس نہ کرنے لگیں۔ منظم نظریاتی تحریکوں سے ہمیں ویسے بھی خوف بھی آتا ہے اس لئے کافی عرصے تک ان سے محتاط ہو کر ان کا مشاہدہ کیا۔ لیکن ان کے بارے میں مکمل اطمینان ہی رہا کہ اچھے مسلمان اور انسان ہیں۔

\"pak-turk-protest\"

سکول میں ان کی انتظامیہ سے ہر پیرنٹ کی طرح ہمیں بھِی سو مسائل تھے اور ہر مہینے ہم بھی ان سے لڑنے پہنچے ہوتے تھے۔ انتظامی لحاظ سے یہ کافی کمزور تھے جس کی وجہ غالباً مقامی نظام سے ناواقفیت تھی۔ پاکستانی اساتذہ کے برخلاف یہ سکون سے بات سنتے تھے اور مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ ہم اس بات کے بھِی معترف تھے کہ جتنا صاف ستھرا ماحول ہمیں ان سکولوں میں مل رہا ہے، وہ کہیں اور نصیب نہیں ہو گا۔ نہ کبھِی بچوں میں اخلاقی خرابیاں پیدا ہوتے دیکھیں، اور نہ ہی ان میں فرقہ واریت کا شائبہ تک دکھائی دیا۔ کبھی کبھار اسلامیات کے پاکستانی استاد بچوں کو بتاتے تھے کہ کون کون کافر ہے، مگر ساتھ ہی یہ تاکید ضرور کرتے تھے کہ کسی کو بتانا نہیں کہ میں نے یہ کہا ہے ورنہ مجھے ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔

بحیثیت انسان اور استاد ہم ان کی شخصیت کے معترف ہیں اور ہم یہ بات مانتے ہیں کہ ایسے اچھے اخلاق والے لوگ کم ہی نظر سے گذرے ہیں، اور واقعی ہم نے ان کے ساتھ ظلم عظیم کیا ہے۔ اسی وجہ سے ان اساتذہ کو قریب سے جاننے والے سکولوں کے بچے اور ان کے والدین ان کے خلاف ایکشن پر سراپا احتجاج ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments