پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس کتنا سنگین مسئلہ ہے؟


ہراسانی

پنجاب حکومت کا مجوزہ قانونی مسودہ

پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے لاہور گرامر سکول اور دیگر اداروں میں سامنے آنے والی شکایات کے بعد مختلف نجی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیا اور سخت کارروائی کرنے کا عندیہ بھی۔

مراد راس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب یہ مسئلہ اٹھا تو ہم نے اس سے متعلق فوری اقدامات اٹھائے اور اب ہم اسی سے متعلق قانون سازی کرنے جا رہے ہیں۔‘

اس مسودے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ شخص جو تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی میں ملوث پایا جاتا ہے اور اس کے خلاف جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اس شخص کے حوالے سے مندرجہ ذیل تجاویز دی گئی ہیں:

  • دوبارہ تدریسی عمل کا حصہ بننے کی اجازت نہیں ہو گی
  • 10 لاکھ تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے
  • جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے

مراد راس نے اپنی حکومتی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ان واقعات کی روک تھام کے لیے جب تک آپ سخت سزائیں نہیں دیں گے تب تک لوگ نہیں گھبرائیں گے۔‘

لیکن دوسری جانب ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن فریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ میڈیا پر اٹھائے جانے والے کیسز کے بعد فوری رد عمل تو سامنے آ جاتا ہے مگر کسی بھی قسم کی قانون سازی ایسی صورت میں جلد بازی میں کی جاتی ہے۔

فریحہ عزیز کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگ قانونی عمل میں پڑنے سے گھبراتے ہیں اور یہ برحق بھی ہے کیونکہ یہ ایک بہت طویل مدتی عمل ہوتا ہے اور سب کے پاس نہ ہی وہ مالی وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی جذباتی طور پر وہ تیار ہوتے ہیں۔‘

سخت سزاؤں کے بارے میں فریحہ کا کہنا تھا کہ ’زینب کیس میں بھی سخت سزا تو دے دی گئی مگر اس کے بعد بھی کتنے واقعات سامنے آئے، حکومت اور معاشرہ صرف جذباتی بیانات پر مبنی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔‘

ایڈووکیٹ ماہم علی کئی برسوں سے چند سماجی کارکنان کے ساتھ مل کر بچوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کے نتیجے میں درج ہونے والے مقدمات پر کام کر رہی ہیں۔

جب حال ہی میں پنجاب میں طالبات نے اپنے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں پڑھانے والے پروفیسروں پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تو ماہم نے پنجاب حکومت سے خود بات کی۔

انھوں نے وزیرِ تعلیم کو کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ اس وقت سکولوں کی سطح پر کوئی طریقہ کار وضح نہیں ہے اس لیے وہ بغیر کسی تنخواہ کے ان کی مدد کر سکتی ہیں۔

لیکن ماہم نے بتایا کہ اسی دوران پنجاب کے وزیرِ تعلیم مراد راس ایک نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو پر آئے اور انھوں نے کہا کہ اگر گرلز سکولوں میں مرد ٹیچر نہ پڑھائیں تو جنسی ہراسانی اور زیادتی کے کیسز میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

ماہم نے کہا کہ ’یہ ایک بیوقوفانہ سوچ ہے اور اگر تو یہ پاکستان تحریکِ انصاف کی پارٹی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے تو میرے خیال میں سب سے پہلے اس پر بات کرنی چاہیے کیونکہ مرد ٹیچر کو ہٹانے سے آپ ریپ یا جنسی ہراسانی کے کیسز کم نہیں کر سکتے، وہ کسی نہ کسی طریقے سے ہوتی رہے گی۔‘

اس کے رد عمل میں مراد راس کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف ایک تجویز تھی، میں صرف ان سکولوں کی بات کر رہا تھا جہاں والدین بچوں کو اس مقصد سے بھیجتے ہیں کہ انھیں ایک مخصوص ماحول مل سکے۔‘

تو کیا کیا جائے؟

پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی مرکزی ڈیٹابیس موجود نہیں ہے جو جنسی جرائم میں ملوث شخص کی نشاندہی کر سکے اور ان پر مسلسل نظر رکھ سکے۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نامی بین الاقوامی خیراتی ادارے نے سنہ 2018 میں ان ممالک کی فہرست شائع کی تھی جو خواتین کے لیے خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔

بنگلہ دیش میں سنہ 2009 میں ملک کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ تمام تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کی شکایات درج کروانے کے لیے سیل قائم کیے جائیں جہاں طلبہ اپنی شکایات درج کروا سکیں لیکن بہت کم تعلیمی اداروں نے اس کو قائم کیا۔

سنہ 2019 میں نصرت جہاں رفیع نامی بنگلہ دیشی لڑکی کو تیل چھڑک کے زندہ جلا دینے کے واقعے کے بعد ہی اس عدالتی حکم پر عمل درآمد باقاعدہ طور پر شروع کروایا گیا تھا۔

نصرت جہاں نے اپنے مدرسے کے ہیڈ ماسٹر کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کی درخواست دی تھی۔

ان معاشروں میں جہاں پدرشاہی سوچ رچ بس گئی ہے وہاں ماہرین کے مطابق سوچ کی تبدیلی کسی بھی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی سے قدرے بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp