ہمارا معاشرہ اور خواجہ سرا کے حقوق


پہلے تو ایک بات سمجھ لیں۔ ہمیں جتنی تکلیف حقیقت کو قبول کرنے پر ہوتی ہے شائد ہی کسی اور بات پر ہوتی ہو ۔ روز اول سے شیطان انسان کے ساتھ سائے کی طرح \"binte-mustafa\"جڑا ہوا ہے، وسوسے ڈالتا اور رشتوں سے محرومی کا سبب بنتا ہے ۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ شیطان اپنے ہاتھوں سے کچھ نہیں کرتا۔ بس وسوسے ڈالتا ہے، جو کام کروانا چاہتا ہے، ذہن میں ڈال دیتا ہے۔ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہم پر غالب رہتا ہے پھر ہم بنا سوچے سمجھے وہ کام کر گزرتے ہیں۔

جیسے وہ بچے جن کو معاشرے نے خواجہ سرا کا نام دیا ۔ہم نے ان اپنوں کو قبول نہیں کیا ۔

یہ بات بہت بعد کی ہے کہ ہمارا معاشرہ کس بات کو قبول کرتا ہے اور کس کو نہیں حقیقت یہ ہے جس بات کو ہم قبول نہیں کرتے، اس کو معاشرے پر ڈال دیتے ہیں ۔

سب سے پہلے خود حقیقتوں کو قبول کرنا سیکھیں،اس کے بعد کون قبول کرتا ہے کون نہیں بعد کی بات ہے ۔ معاشرے کے اطوار اور اس کے رواجوں نے ہی تو صبر اور قناعت پسندی سے محروم رکھا ہوا ہے ۔
اولاد اولاد ہی ہے، وہ خواجہ سرا ہو یا نارمل ہو یا ایب نارمل۔ قبول کرنا یا نہ کرنا الگ بات ہے۔اب جو قابل ذکر بات ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایب نارمل اولاد کو تو قبول کر لیتے ہیں، جو پیدائشی معذور ہوتے ہیں چل پھر نہیں سکتے ذہن کام نہیں کرتے ۔ان کو دیکھ کر سوائے تکلیف کے کچھ نہیں ملتا وہ اپنا بوجھ خود نہیں اٹھا سکتے،  ہر طرح سے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں ۔
سوچنے کی بات یہ ہے ایسے بچے کی پیدائش بھی تو ماں باپ کو تکلیف میں مبتلا کرتی ہے پھر بھی ہم چارو نا چار ان کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں،  خود کھلانا پلانا نہلانا غرض ہر کام کرتے ہیں
ہم نے انہیں کیوں قبول کیا؟ ان کی پیدائش نے آپ کو سوائے دکھ کے کیا دیا؟ ان کو گھر سے بےگھر کیوں نہیں کیا؟ اگر وہ اسپیشل بچے قبول کئیے جاتے ہیں تو ان کو بھی قبول کرنا چاہئے یہ بھی اسپیشل بچے ہیں۔
اگر ان کو نہیں تو پھر خواجہ سرا کو کیوں؟ وہ بھی اولاد ہے اور یہ بھی!
اصل بات وہی ہے قبول کرنا ۔معذوری کو قبول کر لیا خود کو نہ چاہتے ہوئے بھی مشقت میں ڈال لیا ان کو محبت بھی مل گئی، دھولا دھلایا لباس، بیٹھے بٹھائے کھانا بھی اور گرم آغوش کے ساتھ گرم بستر بھی ۔یاد رہے ایسا ذہنی مریض جو اچھائی برائی کی پہچان نہ کرسکتا ہو اس پر سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔ اس کے گناہ اور ثواب پر قلم نہیں چلتا ۔ایسی اولاد تو آپ کے لئیے صدقہ جاریہ بھی نہیں ۔
ایسے افراد تو آئے اور وقت گزار کر چلے گئے ۔
اب آئیں خواجہ سرا کی طرف
وہ بھی زندہ وجود ہماری اولاد ہیں ۔
معاشرے سے قبولیت کی سند نہ مانگیں بس ان کو  قبول کر لیں ۔آپ قبول کر کے تو دیکھیں معاشرہ خود ہی قبول کرے گا ۔ ان کی تربیت ان کے حقوق آپ پر اسی طرح ہیں\"bubbli-veena-transgender\" جیسے باقی اولاد کے ۔ان کی اسپیشل تربیت کر کے ان کو بہتر زندگی دینا والدین کی زمہ داری ہے معاشرے کی نہیں۔
بس آپ قبول کر لیں،معاشرے کا کیا ہے! معاشرہ ہر زندہ اور صحت مند انسان کو قبول کر لیتا ہے، معذور کو ہر گز نہیں۔ ہم نے معذور کو قبول کر لیا صحت مند کو نہیں۔ یہ صحت مند جسم اور ذہن گھر والوں کی قبولیت کی سند سے محرومی کی وجہ سے بیکار اور ناپاک زندگی گزار رہے ہیں،
خود سے پوچھیں اب ظالم کون ہے معاشرہ یا آپ؟
معاشرے سے حقوق کی بات تب کی جائے آواز بلند کی جائے جب آپ نے معاشرے کو صحت مند فرد دیا ۔آپ نے تو اچھے بھلے کو معذور بنایا ان کے حقوق سے ان کو محروم رکھا جن کی قدر آپ نے کرنی ہے جن کو آپ نے سنوارنا سنبھلنا ہے ۔آپ توقع کرتے ہیں معاشرہ ان کو حقوق دے قدر کرے؟آئے دن اخبارات میں خواجہ سرا کے اغوا اور پھر ان کو بےدردی سے قتل کرنا، جیسی خبریں زینت بنتی ہیں، چند دن، صرف چند دن ان کے لئیے آواز بلند ہوتی ہے، پھر خاموشی ۔ کیا شناختی کارڈ کا مل جانا اور روزگار کا مل جانا ہی بس انصاف اور ان کا حق ہے؟
یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو کھلونا بنا کر معاشرے کے حوالے کیا، تو کیا اب معاشرہ ان سے کھیلے یا ان کو حقوق دے؟ یہ اولادیں آپکی ہیں معاشرے کے فرد ہیں ۔
اگر آپ اپنی اس اولاد کو بھی قبول کر لیں اور انہیں بھی اچھی تربیت دے کر معاشرے کا اچھا شہری بنائیں دنیا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دیں،ایسی اولادیں بھی آپ کے لئیے دونوں جہانوں میں باعث سکون بن جائیں گی ۔ شریعت نے ان پر بھی وہی احکامات لگائے ہیں جو باقی لوگوں پر۔ ان میں سے جن کا جھکاو مردوں کی طرف ہے وہ مردوں جیسی زندگی گزاریں اور جن کا عورتوں کی طرف جھکاو ہے وہ عورتوں جیسی زندگی گزاریں گے ۔۔

بات سمجھنے کی ہے اپنی عصمتوں کی حفاطتیں کریں خود کو اور ان جیسی اولادوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں ۔۔ انشا اللہ یہی اولاد آپ کے لئیے صدقہ جاریہ بنے گی ۔یہ چلتے پھرتے صحت مند وجود ہیں ۔آپ کے ایک قبول نہ کرنے نے ان کو جہنم جیسی زندگی دی ہوئی ہے ۔
آپ ان اولادوں کی پیدائش پر خود کو مظلوم کہ تو سکتے ہیں ثابت نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ یہ بھی اللہ کی تخلیق ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا، یہ انسان ہی ہے جو خود آپنی جانوں پر ظلم کرتا ہے۔ جن کو اپنے قبول نہ کریں ان کو معاشرہ ٹھوکروں پر رکھتا ہے ۔بوجھ اٹھانے کا زیادہ حق دار وہی ہوتا ہے جس کا بوجھ ہو ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments