فرقہ وارانہ تعلیم سے تعلیمی فرقہ واریت تک


\"aliمرحوم کامریڈ عبدالواحد آریسر کبھی مولانا عبدالواحد ہو اکرتے تھے اور تھر پارکر کی ایک مسجد میں نماز پڑھاتے تھے۔ خود کہتے ہیں کہ ایک دن ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران ریاستی ایجنسیاں انھیں گرفتار کرنے آئیں تو داڈھی منڈوا کر مسجد سے نکلے تو نہ واپس مسجد کو لوٹے اور نہ ہی دوبارہ داڈھی رکھ لی۔ آریسر دارلعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل سکہ بند عالم تھے جس کی تصانیف اور زبان و بیان کی گواہی ایک دنیا دیتی ہے۔ آریسر صاحب کہتے تھے کہ انھوں نے جدلیاتی مادیت وہیں سے پڑھی اور سمجھی تھی۔ بتاتے تھے کہ دارلعلوم میں ہر طرح کی تعلیم دی جاتی تھی جس میں نمایاں دوسرے ادیان اور مسالک کے بارے میں مکمل آگاہی اور علم ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ صرف و نحو، شاعری، ادب اور نثر تو مدارس میں دی جانے والی تعلیم کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج ہم پلٹ کرآس پاس دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ دینی تعلیم کا مقصد حصول علم سے زیادہ دوسرے ادیان، مسالک اور فرقوں کے بارے میں نفرت پھیلانا نظر آتاہے۔

فرقہ ورانہ تعلیم سے شروع ہونے والا ترقی معکوس کا یہ سفر مذہبی اور فرقہ ورانہ درس و تدریس سے وابستہ نام نہاد دینی مدارس سے نکل کر عام سکولوں اور کالجوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا آج خود ایک منزل کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ طلبہ اپنے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے جوبات کی تلاش سے زیادہ اپنے مسلک اور عقیدے کے راسخ ہونے اور اس کے علاوہ سب عقائدباطل ہونے کی دلیل کے لئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ حصول علم برائے روزگار کے مقصد کے حصول میں فرقہ ورانہ تعلیم اور وابستگی نے ایک ایسا مستقل کردار ادا کیا ہے کہ معاشرہ اب اگر چاہے بھی تو مذہبی منافرت کی اس گرداب سے نہیں نکل سکتا۔ فرقہ واریت کی سمت میں گزشتہ چار دہائیوں کی کاؤشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ گلگت، جھنگ، ڈیرہ اسمعٰیل خان، پارہ چنار، کراچی، کوئٹہ اور کئی ایسے شہر فرقہ ورانہ تعصب کے جنگ کی لپیٹ میں ہیں جو ایک مستقل خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

فرقہ ورانہ تعلیم کی آگ میں جل کر بھسم ہونے والے گلگت بلتستان کی سر زمین پر قائم کی جانے والی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی ملک کی ان نو زائیدہ جامعات میں سے ایک ہے جو مشرف کے دریافت کردہ نابغہ روزگار، معلم اور مملکت خداداد میں اعلیٰ تعلیم کے معمار پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمٰن کی پٹاری سے نکلیں تھیں۔ اس یونیورسٹی کا نام انٹرنیشنل رکھنے کی منطق تو ان کو خود بھی سمجھ نہ آئی ہوگی جنھوں نے یہ نام تجویز کیا تھا۔ ساڑھے چھ صفحے کےپی سی ون نام کے سرکاری کاغذ سے یونیورسٹی کا آغاز ہوا تو گلگت میں موجود واحد ڈگری کالج کی عمارت پر قبضہ کرکے اس کا نام یونیورسٹی رکھ دیا گیا۔ نہ صرف فوری کلاسوں کا اجرا کیا گیا بلکہ بارہویں جماعت تک کے امتحانی بورڈ کے طور پر بھی اسی یونیورسٹی نے کام شروع کردیا جو شاید تعلیمی تاریخ کا انوکھا واقعہ تھا کہ ایک ادارہ اس درجے کا بھی امتحان لے جس کو وہ پڑھاتا بھی نہیں ہو۔ وائس چانسلر، اساتذہ، رجسٹرار اور دیگر تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی سیاسی ، سفارشی اور قابلیت کی بنیاد پر بھرتیوں کے بعد یونیورسٹی چل پڑ ی۔ یہ بھی ان سرکاری جامعات میں سے ایک ہے جو ریاست کی تعلیمی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے حجت کے طور پر بنائی جاتی ہیں ۔ اس یونیورسٹی کے قیام سے تعلیمی معیار سے قطع نظر ایک بات کا تو اقرار کرنا ہی پڑے گا کہ گلگت بلتستان سے طلبہ کا پاکستان کے دیگر شہروں میں بغرض تعلیم مہاجرت کم ہوگئی ہے اور طالبات کے لئے مقامی طور پر حصول تعلیم کے مواقعے میسر آسکے ہیں لیکن اس یونورسٹی کے کھلنے سے نوجوان نسل کے اذہان کی سائنسی بنیادوں پر نمو میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہ آسکی کیونکہ یہاں درس و تدریس سے وابستہ لوگوں کا مقصد حیات بھی فروغ علم سے زیادہ حصول روزگار رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں یوم حسین ؑ منانے پر صوبائی حکومت کی جانب سے پابندی لگانے کے خلاف ایک فرقے کی جانب سے دھرنا دیا گیا اور کئی روز تک گلگت سے براہ دنیور ہنزہ نگر جانے والی شاہراہ کو بند رکھا گیا۔ دھرنا دینے والوں کا موقف تھا کہ یوم حسینؑ پر پابندی ان کے عقائد پر پابندی کے مترادف ہے جس کو وہ ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔ یوم حسینؑ منانے پر پابندی لگانے والی بغیر صوبے کی صوبائی حکومت کا کہنا تھا کہ نیکٹا کے قانون کے تحت چونکہ تعلیمی اداروں میں ہر قسم کے مذہبی اور فرقہ ورانہ اجتماعات پر پابندی ہے لہذا اس پر عمل کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے مطالبے اور دھرنے کو تعلیمی ادروں میں بے جا مداخلت سمجھتی ہے تو دوسری طرف مذہبی جماعتیں صوبائی حکومت کے اس اقدام کو یونیورسٹی کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت اور طلبہ کے آزادی اظہار رائے پر قد غن سمجھتی ہیں۔ اب تک یوم حسینؑ پرلگائی جانے والی بے جا پابند ی سے شاید کچھ اور حاصل نہ ہو سکا البتہ اس کے خلاف اٹھنے والی سیاسی تحریک نے دو مقاصد حاصل کیے ہیں ایک یہ کہ گلگت بلتستان کی سیاست میں مذہبی تنظیموں کا مستقل کردار رہے اور دوسرا مقصد یونیورسٹی کے طلبہ فرقہ وارانہ سوچ سے باہر نہ نکل سکیں۔

گلگت میں فرقہ واریت کا اغاز تو 1947؁ میں پاکستان سے اس خطے کی وابستگی کے ساتھ ہی ہو چکا تھا جب انگریزوں اور ڈوگروں کی رخصتی کے ساتھ ہی مقامی فرقہ ورانہ گروہوں نے سر ابھارنا شروع کیا تھا۔ لیکن فرقہ واریت کو بام عروج حکومت کی طرف سے اسلامیات کے مضمون کو نویں جماعت کے بعد لازمی قرار دے کر فرقوں میں بانٹ دینے کے ساتھ ملا۔ جن طلبہ کو معلوم نہیں ہونا چاہیٔے تھا کہ ان کا فرقہ کیا ہے وہ اب مسلکی بنیادوں پرمختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔ تقسیم شدہ اسلامیات کو پڑھانے کے لئے اساتذہ بھرتی کیے گئے جو اپنے ساتھ عدم برداشت اور تکفیریت پر مبنی ایک نیا کلچر لے کر آگئےتھے۔ منبر سے کی جانے والی دشنام طرازی اور تبرا بازی اب کلاس روم میں ہونے لگی۔ طلبہ علم حاصل کرنے سے زیادہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ذیادہ متحرک ہوئے۔ اس اثناء میں ایران میں آنے والے مذہبی انقلاب اور افغان ثورانقلاب پر مغربی رد عمل کی سعودی اور پاکستانی حمایت نے ہمارے تعلیمی اداروں کو متاثرکیے بغیر نہیں چھوڑا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں دی جانے والی مذہبی تعلیم فرقہ ورانہ تعلیم میں بدل گئی اور یوں ہمارے تعلیمی ادارے فرقہ واریت کی آماجگاہ بن گئے۔

تعلیمی اداروں میں فرقہ ورانہ تعلیم نے یہاں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے ذہنوں کو پرا گندہ کر کے رکھ دیا جس کی وجہ سے افسر شاہی سمیت تمام نظام مملکت میں مذہب کی آڑ میں دراصل فرقہ ورانہ تعصب پھیلنے لگا۔ انیس سو اسی کی دھائی میں فیڈرل سروس کمیشن جیسے اداروں میں دعائے قنوت اور ناد علی کے معلومات جیسے سولات پوچھ کر امید واروں کی قابلیت کے آڑ میں فرقہ ورانہ وابستگی کو جانچ کر ملازمتیں دی گیئں۔ نتیجتاً آج پورا سماج فرقہ ورانہ تعصب کی آگ میں جل رہا ہے۔ فرقہ واریت مسجدوں، مدرسوں سے کہیں زیادہ عام تعلیمی اداروں، سرکاری انتظامی اداروں، عدالتوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ایک ناسور کی مانند پھیل رہی ہے جس پر مقتدر حلقوں کی انکھیں بند ہیں اور زبانیں خاموش شاید وہ خود بھی اس آگ میں جل رہے ہیں کیونکہ اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لئے فرقہ ورانہ وابستگی تو ہر ادارے میں رائج ایک غیر رقم شرط اولین ہے۔

ایک طرف تو پاکستان چین جیسے غیر مذہبی ملک کے ساتھ تجارتی معاملات کو آگے بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف اپنی سرحدوں کے اندر فرقہ ورانہ تعلیم سے آگے بڑھ کر تعلیم کی فرقہ واریت کو فروغ دے رہا ہے جو سماج کے اندر گہری دراڈیں ڈال رہی ہے۔ یہ تعلیم کی فرقہ واریت کا ہی اعجاز ہے کہ لوگ علم و فراست، عقل و فہم کے بجائے اپنی پگڑی کے رنگ، داڑھی کی تراش خراش، پائنچوں کی اونچائی اور قمیص کی لمبائی سے پہچانے جائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والے وقتوں کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر معاشرے کی تشکیل ہو جو سائنس کی تعلیم سے ممکن ہے نہ کہ فرقہ ورانہ تعلیم یا تعلیم کی فرقہ واریت سے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments