راحیل شریف۔۔۔ شاندار کارکردگی کے الوداعی مناظر


\"meer-moeed\"آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے  آج  لاہور سے الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ نومبر 2013 میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت رواں ماہ 28 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی خبریں کافی عرصے سے گرم تھیں، تاہم رواں برس جنوری میں آرمی چیف نے اپنی ملازمت میں توسیع کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ وہ مقررہ تاریخ پر ریٹائر ہوجائیں گے۔ آرمی چیف کی توسیع کی خبروں  کے ساتھ ساتھ ملک میں کرپشن کے حوالے سے بڑی مچھلیوں کے خلاف کاروائی اور خاص کر پانامہ لیکس کے حوالےسے ہونے والی پیش رفت کو راحیل شریف سے جوڑ کر ان کے قد کو کافی بلند کیا گیا اب  کیا وہ واقعی اس قابل تھے یا پھر بغض معاویہ میں ن لیگ کے دشمنوں نے ان خبروں کو گرمائے رکھا اور راحیل شریف کے جانے کی خبر پکی ہوتے ہی ن لیگ کی کشتی میں کچھ اور طریقوں سے سوراخ کرنے کی مشق جاری رکھی جائے گی۔

 فوج کے سینئر افسران کی فہرست بہت حد تک واضح ہے، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات سینیئر ترین افسر ہیں اور ان کے بعد کور کمانڈر ملتان، لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد، کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیو ایشن لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں۔  جنرل زبیر اور جنرل اشفاق کے درمیان دو اور جنرلز بھی ہیں ، ایک ہیوی انڈسٹریل کمپلیکس ٹیکسلا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین اور دوسرے ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان، تاہم یہ دونوں افسران آرمی چیف کے عہدے کے لیے تکنیکی طور پر اہل نہیں کیوں کہ انہوں نے کسی کور کی کمانڈ نہیں کی ہے۔  اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل مقصود احمد جو اس وقت اقوام متحدہ میں ملٹری ایڈوائزر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں وہ پہلے ہی توسیع پر ہیں اور وہ بھی مزید پروموشن کے اہل نہیں۔ اب یہ سوال کہ آئندہ آرمی چیف کون ہوگا اس کا جواب تو خیر میاں صاحب کے پاس ہی ہے۔ میاں نواز شریف پانچویں مرتبہ اس عہدے پر حکم زنی کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت اظہر من شمس ہے کہ اس معاملے میں عہدے پر لگانے والا مارشل لا نہ لگانے کی قسم کھلا کر بھی دھوکا کھا سکتا ہے۔ فوج کے معروضی حالات اور آرمی چیف کی طالع آزمائی پر حتمی رائے کبھی کوئی نہیں دے سکتا۔ پاکستان کے پرلے درجے کے غیر یقینی سیاسی حالات اور داخلی اور خارجی واقعات کبھی کوئی رخ اختیار کرسکتے ہیں بہرحال جب تک مارشل لا نہ لگا دیا جائے اس وقت تک یہ کہنا درست ہے کہ ہم مارشل لا نہیں لگنے دیں گے اور جب تک طالع آزمائی نہ ہوجائے یہ تجزیہ بھی درست ہے کہ فوج اب مارشل لا نہیں لگائے گی۔

 اس بات سے انکار نہیں کہ راحیل شریف کے تین سالہ دور میں ان کے کریڈٹ پر کئی ایک غیر معمولی کارنامے ہیں۔ تنقید بس یہ ہو رہی ہے کہ اکثر نامکمل ہیں۔ یعنی ان \"gen-raheel\"کے دور میں تو کامیابیاں ملیں مگر چونکہ کام ادھورا ہے تو یہ  سمجھنا مشکل ہے  کہ یہ محض وقتی طور پر کامیابیا ں ہوئی ہیں یا ان میں تسلسل برقرار رہے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے کراچی میں امن و امان یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اگلے مورچوں کے مسلسل دوروں سے فوجی جوانوں کا مورال بلند کیے رکھا ، پاک چین اقتصادی راہداری کو فعال بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا، لائن آف کنٹرول  پر بھارتی جارحیت  کا موثر انداز سے مقابلہ کیا  اور یہ کہ سیاست میں مداخلت سے گریز کی پالیسی پر کاربند رہے۔ اگرچہ کئی ایسے مواقع بھی آئے جب ن لیگ کی  قیادت کی طرف سے روایتی چھیڑ چھاڑ شدت سے ہوئی۔ یہاں تک کہ مارشل لا کی باتیں زبان زدعام ہو گئیں مگر راحیل شریف نے کمال ضبط اور نظم کا  مظاہرہ کرتے ہوئے منصبی فرائض کی انجام دہی تک خود کو محدود رکھا۔ اب رہی بات وہ جو کرپشن سے پاک پاکستان کے خواب انھوں نے دکھائے یا عوام نے ان سے امیدیں باندھیں ان کا کیا ہوگا اس کا موزوں جواب شاید اس وقت یا کبھی بھی راحیل شریف خود بھی نہ دے پائیں۔

 اب آئندہ آرمی چیف کی سرل لیکس، کرپشن سے پاک معاشرے، غیر سیاسی روش اور ضرب عضب پر حکمت عملی طے کرے گی کہ ان امور پر ہونے والی پیش رفت کو مہمیز لگتی ہے یا ریڈ ٹیپ۔ مگر ایک بات طے ہے کہ سی پیک پر اس کی حکمت عملی بدستور غیر لچکدار رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments