سیکولر \”جمہوریت پسند\” اور \”خارجی\” ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں


\"muhammad-bilal\"محترم فرنود عالم صاحب نے \”سیاسی مذہبیت و خارجیت اصل میں دونوں ایک ہیں\” کے نام سے ایک آرٹیکل \”ہم سب\” پر لکھا اور مذہبی سیاست کو خارجیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرنود صاحب چونکہ ایک مدرسے کے \”فارغ التحصیل\” ہیں تو ان میں مولویوں کی طرح ایک عادت موجود ہے کہ اپنی ساری توانائیوں کو مخالف نظریے کو جھوٹا ثابت کرنے میں صرف کیا جائے۔ فرنود صاحب کی تحریروں کا حاصل یہ ہے کہ کسی طریقے سے سیکولرزم کی راہ میں رکاوٹوں کو ختم کیا جاوے اور \”مذہب\” سیکولرزم کے مخالف ایک اہم نظریہ ہے اس لیے موصوف اپنی توانائیاں صرف اسی کام میں خرچ کرنا چاہتے ہیں نہ کہ پاکستانی معاشرے کی تعمیر میں۔ میں ان شاء اللہ مضامین کے اس سلسلے میں محترم فرنود صاحب کی تحریر کے متن کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔.
اسلام اعتدال کا دوسرا نام ہے. اسلام سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی ہر لحاظ سے اعتدال کا حامی ہے اس کے لیے کسی بھی پہلو میں \”غلو \”کرنے والا کبھی بھی قابل ستائش نہیں رہا. جس نے اسلام کے \”سیاسی نظام \”میں غلو کیا اور \”خارجیت \”کا راستہ اپنایا اسلام نے اس کو اپنی فکر سے علیحدہ کیا یہی وجہ تھی اوائل اسلام میں خارجیت کی لہر جس کے علمبردار \”شریعت یا شہادت \”کا پسندیدہ نعرہ لگاتے تھے لیکن ان کا عمل اسلامی روح کے خلاف تھا ، ان کی آمد سے پہلے ہی نبی محترم ﷺ ایسے لوگوں کے متعلق فرما گئے کہ۔
\”یہ جہنم کے کتے ہیں \”
اس کی وجہ کیا تھی یہی کہ انہوں نے اسلامی فکر کو اپنے جذبات کے تابع کرنا چاہا اور اپنی خواہش کو اسلام کا نام دینا چاہا بھلا اس سے بڑھ کر بھی کوئی اسلام کا دشن ہوگا۔ آج کی خارجیت بھی اسی فکر پر گامزن ہے اور انہوں نے اسلام کی شخصی کیفیت کو بالکل ختم کردیا ہے اور \” خلافت \”کو ساری بیماریوں کا علاج سمجھ لیا۔
ٹھیک اسی طرز پر سیکولرزم و لبرل ازم کی آماجگاہ جمہوریت ٹھہری جس کا حاصل مذہب کی اجتماعی صورتحال کی نفی، رواداری کومذہب مائنس فکر کا خاصہ سمجھا گیا ، ترقی کو مادر پدر آزادی کی شکل دی گئی اور سائنس کا مقصد مذہب اور خدا کا انکار ٹھہرا اورانبیاء کی توہین کو\” آزادی اظہار رائے \”کا نام دیا گیا . جمہوریت کو انسانی مشکلات کا \”پینیسیا\” بتایا گیا۔

اب آتے ہیں مملکت خداد پاکستان کی طرف، ان دونوں فکر کے حاملین کو عوامی نظر میں کوئی وقعت حاصل نہیں ہے اگر ان میں سے کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہے تو وہ اپنی ضمانت ہی ضبط کروا سکے گا. اس کی مثال ایسے ہے لبرل ازم کے استادوں میں \” وجاہت مسعود \” صاحب یا پھر اسی نوع کے دانشور یا پھر خارجی فکر کے حاملین کا کوئی \” مولوی عبدالعزیز \” آکے دیکھ لے اس کی ضمانت ضبط ہی ہوگی. وجہ صرف اتنی ہے کہ سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے یہ دونوں طبقے اصلی دنیا میں آٹے میں نمک کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتے اور فیس بک کی فالوونگ کو اصلی دنیا پر منطبق کرکے دھوکا کھا جاتے ہیں جیسا کہ عمران خان یا مشرف کھا رہے ہیں. جبکہ پاکستان کا ایک عام شخص ان دونوں مخلوقوں سے برات کرتا ہے۔.
پاکستان کی بنیادی اساس نظریہ پاکستان، قرار دادقاصد ، آئین، قائد و علامہ اقبال کی شخصیت ہمیشہ ان دونوں فرقوں کے نزدیک مطعون رہی ہے. ان دونوں کو قائداعظم سے زیادہ \”کانگریسی ملاؤں \”اور \”گاندھی \”سے زیادہ محبت تھی جس کا اظہار وہ وہ اکثر کرتے رہتے ہیں. لیکن عوامی نفرت کے پیش نظر ان نظریات و شخصیات کو کسی طرح اپنی فکر کی طرف ڈھالنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں. کسی خارجی سے پوچھ لیں وہ قائد کو\” کافر \”کہے گا اور کسی سیکولر سے پوچھیں وہ قائداعظم کی تحریک پاکستان کو فاش غلطی کہے گا. \”نظریہ پاکستان \”کو خارجی امت کے فلسفے کا قتل کہے گا اور سیکولر دانش ور ہندوستان کی تقسیم کا المیہ سمجھے گا. سیکولر و خارجی سقوط ڈھاکہ کو نظریہ پاکستان کی ناکامی ثابت کریں گے۔.
برادر محترم فرنود عالم کا مقدمہ بالکل ایسا ہی جیسا ایک خارجی چاہتا ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ اسے عام پاکستانی مسلمان کی حمایت حاصل ہو جو اس کو نہیں مل سکتی. کیونکہ ان کا جھوٹ عوام پر عیاں ہوچکا ہے. عوام \”حلال و حرام \”پر تو فوکس کرتی ہے لیکن \”کافر ومرتد \”پر نہیں اور یہی خارجی نظریہ کی ناکامی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس خارجی پاکستان کی عوام کو سیکولر ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں ان کی راہ میں یہ جو مسلمانیت کی لکیر آڑ بن رہی ہے اس کو ختم کیا جائے اس کے لیے وہ عام مسلمان کو سیکولر کہہ کراس کے معتدل رویہ کا خاتمہ چاہتا ہے جیسے فرنود مذہبی سیاسی رویے کو خارجیت بتانے پر مصر ہے۔
. فرنود صاحب آپ کی تحریر سیکولرزم کے مقدمے کو جھٹلا رہی ہے یا پھر اس کی حقیقت عیاں کررہی یے کہ سیکولرزم کی اپرووچ \”پلو را لسٹک \” کے بجائےمذہب مخالف ہے. آپ کو تو مذہبی سیاسی جماعتوں کو سراہنا چاہیے تھا کہ یہ نوجوان نسل کو شدت پسندی سے دور لے کے جا رہی ہیں اور جمہوری عمل کا حصہ بن رہی ہیں آپ کو اس قدم کو سراہنا چاہیے تھا جبکہ آپ کا رویہ اس معاملے میں بالکل کسی مدرسے کے سخت گیر مولوی جیسا ہے جو اپنے علاوہ سب کو دیوار سے لگانا چاہتا ہے۔
. فرنود صاحب چند نکات کی بنیاد پر آپ اگر مذہبی سیاست کو خارجیت کی نرسری ثابت کر رہے ہیں تو سیکولرزم کے اس رویہ پر ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ \”سیکولرزم اور خارجیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں\”۔ .


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments