گائتری کی خوشبو


گائتری واپس آئی تو صحیح نہیں تھی، اس کی بڑی بڑی معصوم آنکھیں ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچ رہی ہوتی تھیں، اس کے ساتھ بھی کچھ ہوا تھا، میں مرد تھا کمزور تھا، برداشت نہیں کر سکا اور اس کے سامنے رو دیا تھا، وہ عورت تھی، مضبوط تھی، اپنے دل کے اندر کڑھ رہی تھی۔ اس کا معصوم سا خوبصورت چہرہ غم کے بادلوں سے ڈھکا رہتا تھا، مجھے اندازہ تھا کہ وہ کسی مسئلے کسی الجھن کا شکار ہے لیکن مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ لکھنو میں کیا ہوا، وہ اسے بتانے میں کچھ ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھی۔

پھر ایک دن گائتری مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ دن میری زندگی کا ایک ایسا دن تھا جو میری زندگی سے کبھی رخصت نہیں ہوسکا۔

اس کے ماں باپ نے اس کا رشتہ طے کر دیا تھا، متوسط گھرانوں کے ماں باپ جن کی پانچ بیٹیاں ہوں ان کے اور کیا خواب ہوتے ہیں کسی نہ کسی طرح سے کھینچ تان کر کے بچوں کو پڑھانا اور جب بچے پڑھ جائیں اور بڑے ہوجائیں تو لڑکیوں کی شادی ایک عذاب کی طرح ان کے جسم و جان کو کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔

میری چار بہنیں ہیں، میں سب سے بڑی ہوں اور میں نے ہی برادری کے اصولوں کے خلاف شادی کرلی تو ان کی شادیاں تو کبھی بھی نہیں ہو سکیں گی۔ یہ درد یہ عذاب میرے باپ کی جان لے لے گا۔ سماج میں اپنی بے عزتی وہ برداشت نہیں کرسکیں گے اور یہ بوجھ میری بھی جان لے لے گا، میں تمہیں بھی خوش نہیں رکھ سکوں گی، میں پاگل ہو جاؤں گی، میں تمہیں دکھی نہیں دیکھ سکتی۔ میں اپنے ماں باپ کو اجاڑ نہیں سکتی اپنی محبت کے لیے، اپنی بہنوں کا راستہ نہیں روکنا چاہتی ہوں۔ حقیقت یہ ہے اور اسی حقیقت کو مان لینا چاہیے۔

اس کا لرزتا ہوا جسم اس کا کانپتا ہوا وجود اس کی سلگتی ہوئی روح سب کچھ سب کچھ میرے بانہوں میں تڑپتے رہے۔ میں کیا کرتا، کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا، کچھ بھی نہیں کر سکا۔

وہ ایسی ہی تھی گزشتہ چھ سالوں کے تعلقات میں میں نے دیکھ اور سمجھ لیا تھا کہ وہ صرف دینا جانتی تھی۔ اس نے مجھ سے محبت کی تھی تو بے لوث محبت کی تھی۔ مجھ سے کچھ مانگا نہیں تھا، کبھی میری کسی بات کو ٹھکرایا نہیں تھا، ایک دن بھی تو نہیں۔ اس کی ذات کوئی ذات نہیں تھی جتنے دنوں ہم ساتھ رہے وہ میرے گرد گھومتی رہی، جیسے چاند زمین کے چاروں طرف گھومتا ہے اور زمین سورج کے چاروں طرف گھومتی رہتی ہے۔ کسی شرط کے بغیر اسی پہلے دن کے والہانہ پن کے ساتھ۔ اس میں کچھ تھا کہ میں اپنے خاندان سے ٹکرا گیا۔ میں اسے ہر صورت میں حاصل کرنا چاہتا تھا میں نے اسے حاصل بھی کر لیا تھا مگر وہ اپنی برادری، اپنے حالات سے ٹکرانے کو تیار نہیں تھی۔

پھر ہم جدا ہو گئے، وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہندوستان واپس چلی گئی۔ اسے کچھ پتا نہیں تھا کہ اس کا ہونے والا انجینئر شوہر کیا کرے گا۔ ہندوستان میں رہے گا یا اس کے ساتھ امریکا آ جائے گا۔ وہ تو اس سے ملی تک نہیں تھی، بات تک نہیں ہوئی تھی۔ اسے صرف یہ پتا تھا کہ وہ شادی کے بعد اس کے ساتھ دہلی چلی جائے گی۔ پھر وہ سب کچھ کرے گی جو اس کا شوہر چاہے گا، کرے گا، یہی اس کی زندگی ہوگی اور اس زندگی کی وجہ سے ماتاپتا خوش رہیں گے، کچھ سالوں میں بہنوں کی شادیاں ہوجائیں گی اور سماج میں خاندان کا مقام نہ صرف یہ کہ بحال رہے گا بلکہ ان کی عزت بڑھ جائے گی۔ ہمارے سماج اسی قسم کے اصولوں کے تحت بنے ہیں اور ان ہی اصولوں پر قائم ہیں اور اسی طرح قائم رہیں گے۔

اس نے میرے بدلے میں اپنے خاندان کو چن لیا تھا یہی ایک بات تھی جس نے اسے بری طرح سے گھائل کر دیا تھا، میں شدید صدمے کا شکار ہو گیا، اندر سے اتنا زخمی کہ اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اسے بھی اس بات کا احساس تھا، اس احساس نے اسے اور بھی پریشان کیا تھا، زندگی بے رحم ہو سکتی ہے ہمیں اندازہ نہیں تھا۔

کئی سالوں تک گائتری کا پتا نہیں چلا۔ میں نے اپنے آپ کو اتنا مصروف کر لیا تھا کہ میرا غم پچھتاوا نہیں بن سکا۔ کسی فلم، کسی ناول کی کے کسی کردار کی طرح میں نے پاکستان جا کر شادی نہیں کی تھی۔ میں جیسا بھی تھا جہاں بھی تھا گائتری کو اپنے آپ سے جدا نہیں کر سکا۔ آہستہ آہستہ میں نے سمجھ لیا تھا، اسے تو یہی کرنا تھا، اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ وہ یہ نہیں کرتی تو کیا کرتی، ایسی لڑکیاں ہمیشہ اپنے آپ کو قربان کرتی ہیں یہی اس نے بھی کیا تھا، یہی فرق تھا مجھ میں اور اس میں۔ وہ میرے پاس تھی اور اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔

14 سال کے بعد مجھے گائتری کا ایک خط ملا، ایک فون نمبر کے ساتھ اگر خط ملے تو میں اس سے بات کروں۔ دیے ہوئے وقت پر میں نے اسے فون کیا۔ وہی آواز، وہی سانس، اسی مدہم چہرے کا احساس وہی ہونٹ اس فون کے پیچھے تھے۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ مر رہی ہے، اسے چھاتیوں کا سرطان ہو گیا تھا، بس کچھ مہینوں کی بات ہے اور اس سے پہلے وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی تھی، اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ دہلی میں رہتی ہے، اس کے تین بچے ہیں اس کا شوہر اچھا آدمی ہے اس سے شدید محبت کرتا ہے۔

تھوڑی دیر وہ خاموش رہی، میں اس کی ہچکیوں اور رونے کی آواز سنتا رہا تھا، اس کمرے میں جہاں ہم دونوں آخری دفعہ گلے مل کر روتے رہے تھے۔

تمہاری بچی میرے پاس ہے، اس نے آہستہ سے کہا تھا، میں زندہ نہیں رہتی، اگر تمہاری خوشبو میرے پاس نہیں رہتی، اس نے ہی مجھے حوصلہ دیا کہ میں یہ زندگی گزار لوں اور میں نے زندگی گزار لی تمہارے بغیر ایک اجنبی کے ساتھ۔ مجھے معاف کر دینا۔

وہ گائتری کی بیٹی تھی۔
وہ میری بیٹی تھی۔
وہ ہم دونوں کی بیٹی تھی۔ میں اس سے ملا تھا ابھی بھی ملتا ہوں، کچھ بتائے بغیر۔
اس کے ہر رنگ میں گائتری کی خوشبو ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments