قندیل کو بجھا دیا، اب قبر سے آوازیں کیسی؟


سمجھ سے بالا تر ہے کہ جو لوگ اپنے ضمیر کی آواز بھی نہیں سن پاتے وہ کسی قبر سے آنے والی آواز کو کیسے سن لیتے ہیں۔ اس گلے سڑے معاشرے سے اُٹھنے والا \"afroz-humayun-1\"تعفن اُنہیں محسوس نہیں ہوتا مگر لال مسجد والوں کی قبروں سے آنے والی خوشبو وہ سونگھ لیتے ہیں۔ قبر سے آنے والی یہ آوازیں لوگوں کے لاشعور میں بسے اُس خوف کی آوازیں ہیں جو اُن کا پیچھا کر رہا ہے۔ مشہور اور عظیم موسیقار و قوال اُستاد نصرت فتح علی خان کی تدفین کے بعد بھی اسی طرح کی عجیب و غریب کہانیاں سننے کو ملی تھیں۔ ایک یہ کہانی بھی کچھ عرصہ قبل مشہور ہوئی تھی کہ کسی رکشے والے کو تین خواتین نے روکا اور رکشہ میں سوار ہوگئیں اور کہا کہ فلاں قبرستان چلو۔ جب وہ قبرستان کے پاس پہنچے تو خواتین نے اصرار کیا کہ قبرستان کے اندر رکشہ لے چلو۔ رکشہ قبرستان کے اندر داخل ہوا اور تینوں خواتین رکشے سے اتر گئیں۔ خواتین کے رکشے سے اترتے ہی ایک قبر پھٹی اور خواتین کو اپنے اندر سمونے لگی۔ رکشے والے کے اوسان خطا ہوگئے۔ اچانک ایک عورت نے چیخ کر رکشے والے سے کہا کہ ہم مردہ لوگوں کی روحیں ہیں اور دنیا والوں کو ایک پیغام دینے آئیں تھیں۔ جاؤ بتا دو دنیا والوں کو کہ آج سے ٹی وی دیکھنا بند کردیں ورنہ تمھارا حشر بہت برا ہوگا۔ اگر اُس رکشے والے کا کوئی وجود ہوتا تو وہ آتا بھی اور پیغام بھی دیتا مگر وہ نہ آیا اور بے چارے دنیا والے ایک اہم پیغام سننے سے محروم رہے۔ لوگوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اُس فرضی رکشے والے  کو تلاش کرلیں مگر ناکام رہے۔

آج کل مرحومہ قندیل بلوچ کی قبر سے آنے والی آوازوں کا بھی بہت چرچا ہے۔ اس معاشرے نے اُسے جینے بھی نہیں دیا اور لوگ مرنے کے بعد بھی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔ جس سوچ اور ذہنیت کی وہ بھینٹ چڑھ گئی اُسی سوچ کے حامل افراد اپنی پاکدامنی اور بے گناہی ثابت کرنے کے لئے اس طرح کی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہیں۔ وقت مسلسل آواز دے رہا ہے۔ خودکش دھماکوں میں مارے جانے والے بے گناہوں کی لاشوں پر منڈلانے والے گِدھ کب سے شور مچا رہے ہیں۔ مگر کوئی اُن کی آواز سننے کے لئے تیار نہیں۔  قبروں سے آنے والی آوازوں پر سب کان دھرے بیٹھے ہیں۔ یہ بھی ایک معمہ ہے کہ اِس طرح کی آوازیں فنکاروں اور گلوکاروں کی قبروں سے ہی کیوں آتی ہیں۔ خود کش بمباروں کی قبروں سے کوئی آواز نہیں آتی۔ یہ سوال بالکل اسی طرح کا ہے کہ چند سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں خودکش حملے ہوتے رہے ہیں مگر کچھ جماعتیں ان حملوں سے محفوظ کیوں ہیں۔ اِن آوازوں\"qandeel\" سے اگر ہمیں پیچھا چھڑانا ہے تو اُن کانوں کا علاج کروانا ہوگا جنھیں یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اُن کانوں کو اس قابل بنانا ہوگا کہ وہ صرف اُنہی آوازوں کو سن سکیں جو آوازیں ہیں۔ جو آوازیں نہیں ہیں انہیں نہ ہی سنا جائے تو بہتر ہوگا۔ اِس طرح کی آوازوں اور کہانیوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قندیل کو تو تب ہی دفن کردیا گیا تھا جب اِس دنیا میں توہم پرستی کا اندھیرا چھانا شروع ہوا تھا۔ اندھیرا اس قدر گھٹاٹوپ تھا کہ قندیلیں خود بخود دفن ہونا شروع ہوگئیں۔ قندیلوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے اندھیروں میں روشنی تلاش کرنا اور اِن نامعلوم افراد کی طرح نا معلوم آوازوں کو ختم کرنا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ نا ممکن کو ممکن بنانے کے لئے دیے سے دیا جلانے کی ضرورت ہے۔ کئی دیے جب ایک ساتھ جلیں گے تو وہ قندیلوں کی کمی محسوس نہیں ہونے دینگے۔ رہی بات قندیل بلوچ کی تو وہ اس معاشرے کا حصہ تھی۔ اُس جیسی کئی قندیلیں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ بسترِ شرفا کی زینت بنا دی جاتی ہیں۔ عرب شہزادوں کے محلوں میں سجا دی جاتی ہیں۔ کتنی قندیلیں ہیں جو سرِ شام بجھا دی جاتی ہیں۔ اور ہمارے کانوں میں فقط اپنے ہی تراشے ہوئے وہم کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments