جنسی ہراس کے خلاف ڈٹ جانے والی پاکستانی لڑکی کی کہانی جس نے عدالت میں اپنا کیس خود لڑا


جنسی ہراسانی

تاہم ملزمان اپنی صفائی میں نہ تو کوئی ٹھوس ثبوت اور نہ ہی ایسے دلائل پیش کر کے جس سے ان کی بے گناہی ثابت ہو سکے۔ ان کی گواہیاں عدالت نے رد کر دیں، جبکہ ایک ملزم کی مختلف مواقع پر غلط بیانی بھی سامنے لائی گئی۔

سی سی ٹی وی کیمرے کے حوالے سے عدالت میں ادارے کے سی او او فہد ہارون نے بیان حلفی میں سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی سے ہی انکار کر دیا تھا، تاہم جرح کے دوران انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کا بیان غلط تھا کیونکہ سٹوڈیو میں کیمرہ موجود ہے۔

انتظامیہ کے سربراہ علی احترام نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے واقعے کی صبح سٹوڈیو میں نصب کیمرے چیک کیے تھے جو بالکل ٹھیک کام کر رہے تھے تاہم یہ ان کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا جب انھوں نے یہ دیکھا کہ واقعے کے دن سمیت نو دن کی فوٹیج غائب ہے۔

علی احترام نے تردید کی کہ انھوں نے شکایت کنندہ کو واقعے کے چند روز بعد فون پر یہ بتایا تھا کہ پاس ورڈز کا غلط استعمال کرتے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیج غائب کر دی گئی ہے تاہم تحریم کی جانب سے فون کالز کی ریکارڈنگ بطور ثبوت پیش کیے جانے کے بعد انھوں نے ان تمام الزامات کو تسلیم کر لیا۔

عدالت میں دیگر تمام ملزمان نے بھی بالآخر اعترافِ جرم کیا۔

مقدمے کے فیصلے کی دستاویز میں دیگر اہم نکات میں سے ایک اہم وضاحت کی گئی ہے کہ ہراسانی کا مقدمہ دائر کرنے میں تاخیر کو وجہ بنا کر کسی کو ہراساں کرنے والے شحص کو بری نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ’مظلوم کی خاموشی اُسے اس کے حق سے دستبردار کرتی ہے نہ ہی مجرم کو اس کے جرم سے آزاد کر سکتی ہے اور عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم کے اس حق کا تحفظ یقینی بنائے۔‘

عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ تحریم کو ناسازگار ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا، جس کے ان ذہنی صحت اور شخصیت ہر سنجیدہ اثرات مرتب ہوئے۔

عدالت نے ملزمان کی جانب سے استعمال کیے تمام الفاظ اور جملوں کو متعصبانہ، غیر اخلاقی، گالی اور جنسی بنیادوں پر ادا کیے گئے جملے قرار دیا۔

جنسی ہراسانی

عدالت نے کہا کہ ان جملوں نے شکایت کنندہ کی عزت نفس اور ان کے وقار کو مجروح کیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر یہ الزامات مکمل طور پر سچ نہ ہوں تو کسی بھی خوددار اور عزت دار خاتون کے یہ تصور بھی محال ہے کہ وہ اپنی ذات سے جڑے ایسے جملے عدالت کے سامنے دہرائے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ خواتین کے خلاف معاشرے میں موجود تعصب انھیں مقدمہ درج کرنے سے روکتا ہے، یہ تعصب کہ خاتون خود اپنے رویے، لباس، حتیٰ کہ محض اپنی موجودگی سے ہی ہراساں کیے جانے کی دعوت دیتی ہے۔ اس لیے خواتین خاموشی اختیار کرتی ہیں کہ کہیں ان کی عزت، نوکری اور مستقبل ہی داؤ پر نہ لگ جائیں۔

دو سال بعد بالآخر تحریم کا مقدمہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ عدالت نے ان کا موقف تسلیم کرتے ہوئے تمام ملزمان کو ایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

تحریم چاہتی تھیں کہ جب یہ تھکا دینے والی جنگ ختم ہو تو ان کے پاس ان کے اپنے موجود ہوں، اس لیے وہ فیصلہ سننے کے لیے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ عدالت آئی تھیں۔ فیصلہ سنتے وقت ان کی انکھوں میں آنسو تھے اور وہ سوچ رہی ہیں کہ ان دو برس نے ان کی زندگی کیسے بدل دی۔

تحریم اب بے روزگار ہیں لیکن فی الحال ان کی زندگی میں عدالت کے چکر ختم نہیں ہوئے کیونکہ اب وہ سندھ ہائی کورٹ میں ہتک عزت کے اس مقدمے کی سماعت میں دلائل کی تیاری کر رہی ہیں جو سما ایف ایم نے ان کے خلاف دائر کر رکھا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp