شہریوں کے خلاف ٹارچر انصاف کا قتل ہے


یہ امر طے ہے کہ تشدد کی ہر صورت قابل مذمت ہے اور اس سے انسانی معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم ایذا رسانی تشدد کی ایسی صورت ہے جس کے اثرات عمومی تشدد سے کہیں زیادہ گمبھیر اور دور رس ہیں۔ ٹارچر کا بدترین نتیجہ تو یہ ہے کہ یہ شہریوں اور ریاست کے مابین عمرانی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ شہریوں نے ریاست کو اپنے تحفظ کے لیے وسائل اور اختیارات امانت کے طور پر دیے ہیں ۔ اس امانت کو خود شہریوں ہی کے خلاف استعمال کرنا اس معاہدے کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ اس سے ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کا بحران جنم لیتا ہے۔ اگر ریاست ٹارچر کو روا قرار دیتی ہے تو شہری اپنی آئینی حیثیت سے محروم ہو کر رعایا کے درجے پر اتر آتے ہیں۔ شہریوں کو ایذا دینے والی ریاست جمہوریہ کے درجے سے گر کر مطلق العنان حکومت بن جاتی ہے۔ ایسی ریاست میں حکومت اس اصول پر کاربند نہیں رہتی کہ اقتدار عوام کی امانت ہے اور عوام کی تائید ہی کسی حکومت کو اس کا جواز فراہم کرتی ہے۔ شہریوں کو ٹارچر کا نشانہ بنانے والی حکومت پر عوام کی بجائے ایک مخصوص ٹولے کااجارہ قائم ہو جاتا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے خطوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پولیس اور دوسرے ریاستی ادارے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایذا رسانی کا حربہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ تاثردرست نہیں۔ درحقیقت ٹارچر کی موجودگی میں انصاف کی فراہمی ممکن ہی نہیں رہتی۔ بہت سے بے گناہ لوگ ایذا رسانی کے خوف سے ایسے افعال کا اعتراف کر لیتے ہیں جو انہوں نے نہیں کیے ہوتے۔ اس طرح نہ صرف اصل مجرم سزا سے بچ نکلتے ہیں بلکہ بے گناہ افراد کو سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جرائم کی تفتیش کے لیے ایذا رسانی نہ صرف یہ کہ ایک غیر منصفانہ طریقہ کار ہے بلکہ انصاف کی فراہمی میں بہت بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ ایذا رسانی کے نتیجے میں عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اعتماد کا جو بحران پیدا ہوتا ہے اور خوف و ہراس کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کے باعث عام شہری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں سے تعاون نہیں کرتے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقصد عوام کو تحفظ کا احساس دلانا ہوتا ہے لیکن ٹارچر کی موجودگی میں یہ ادارے تحفظ کی بجائے خوف و ہراس کا نشان بن جاتے ہیں۔

جرم کی تفتیش کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جائے وقوعہ سے شواہد حاصل کر کے مختلف ممکنہ مفروضات قائم کیے جاتے ہیں اور ان کی مزید تحقیق کر کے مجرم کا سراغ لگایا جاتا ہے۔ دوسری طرف جرائم کی تفتیش میں ایذارسانی کا عمومی طریقہ کار یہ ہے کہ مختلف مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے انہیں اذیت دی جاتی ہے اور جرم کا اعتراف نیزشواہد جمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ جرم کے بیشتر واقعاتی شواہد ضائع ہو جاتے ہیں اور اگر پولیس حقیقی مجرمان کو گرفتار بھی کر لے تو عدالت میں ان کا جرم ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایذا رسانی کے نتیجے میں حاصل کیے جانے والے اعتراف کو مصنوعی طور پر ایک کہانی دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مقدمے کی سماعت میں کوئی بھی معمولی درجے کا وکیل اس کہانی کے بخیے ادھیڑ سکتا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں ایذا رسانی یا ٹارچر کے باعث ایک اہم رکاوٹ یہ بھی پیدا ہوتی ہے کہ ایذا رسانی پر مبنی تفتیشی عمل اور قانونی کارروائی کے نتیجے میں جرائم میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ نظام عدل کا بنیادی مقصد جرائم میں کمی پیدا کرنا ہے محض سزائیں سنانا نہیں ہے۔ ٹارچر کے نتیجے میں نظام انصاف کا یہ اہم مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

ٹارچر کو روا قرار دینے والا معاشرہ ناگزیر طور پر اونچ نیچ کا شکار ہوتا ہے۔ مالی ، معاشرتی اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد عام طور پر ٹارچر سے محفوظ رہتے ہیں جبکہ غریب اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایذا رسانی کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اس سے ایک لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہریوں کی برابری کا اصول مجروح ہوتا ہے۔ یہاں پر سوال صرف ٹارچر سے تحفظ ہی کا نہیں بلکہ اسی صورت حال کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ بارسوخ افراد اپنے مخالفین کو ٹارچر کا نشانہ بنواتے ہیں۔ بعض اوقات عام لوگ بھی اپنے تنازعات میں فریق مخالف کے ایسے افراد نامز د کر دیتے ہیں جن کے بارے میں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کسی مجرمانہ فعل سے تعلق نہیں ہے لیکن مقدمے میں ان کا نام لینے سے فریق مخالف کو تنگ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اکثر مالی ترغیب اور سیاسی دباﺅ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں ایذا رسانی کا رجحان قانون کی عمل داری پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں ایذارسانی کا رجحان واضح طور پر قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا مقصد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی پرپردہ ڈالنا اور جرم کی تحقیق کے قانونی تقاضے پورے کرنے سے گریزہوتا ہے۔ چنانچہ قانون پر عمل درآمد میں ٹارچر کا عنصر شامل ہو جائے تو ریاست کی عمل داری میں رخنہ پیدا ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ رجحان رکھنے والے افراد انفرادی طور پر جرائم کرنے کی بجائے منظم مجرمانہ گروہ مرتب کرتے ہیں ۔ یہ مجرمانہ گروہ سیاسی اور انتظامی حلقوں میں اپنے سرپرست تلاش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والے جرائم کو بالواسطہ طور پر ریاستی تحفظ ملنے لگتا ہے۔ تھانوں ، جیلوں اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں میں منظم طور پر جرائم کرنے والے افراد قانون کی گرفت سے محفوظ رہتے ہیں۔ ایک طرف توٹارچر کا جواز یہ کہہ کر پیش کیا جاتاہے کہ اس سے جرائم ختم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ دوسری طرف ایذا رسانی کا رجحان دراصل جرائم کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔

مہذب انسانی معاشرے میں شہریوں کو صرف خوراک ، لباس اور سر پر چھت جیسی بنیادی ضروریات ہی درکار نہیں ہوتیںبلکہ معاشرے اورریاست کا ایک بنیادی فرض انسانی وقار اور احترام کا تحفظ بھی ہے۔ ایذا رسانی کا بنیادی اصول انسانی وقار کی بے حرمتی اور تذلیل ہے۔ ایذا رسانی کی مد د سے شہریوں کو ان کے تحفظ ، احترام اور حقوق جیسے احساسات سے محروم کر کے انہیں یہ باورکرایاجاتا ہے کہ وہ ایسے طاقتور عناصر کے رحم و کرم پر ہیں جوانہیں ہر طرح سے جسمانی ، ذہنی اذیت دینے پر قدرت رکھتے ہیں اور ان سے کوئی جواب دہی نہیں کی جا سکتی۔ جن معاشروں میں ایذا رسانی کا چلن عام ہوتا ہے وہاں معمولی جرائم کرنے والے انتقام کے جذبے سے مغلوب ہوکر پیشہ ور مجرم بن جاتے ہیں اور ایذا رسانی کا شکار ہونے والے ان گنت افراد نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ ایذا رسانی کا شکار ہونے والے افراد کا انسانیت کی مجموعی بھلائی سے یقین اٹھ جاتا ہے۔ وہ اپنے خیالات اور رائے پر قائم رہنے کی ہمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔

ایذا رسانی سے محض متعلقہ افراد ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ انسانی معاشرہ مجموعی طور پر اخلاقی قوت اور اختلاف رائے کے احترام جیسی خصوصیات سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک ضمنی لیکن اہم نتیجہ یہ برآمد ہوتاہے کہ معاشرے میں انسانی ترقی کی سطح نیچے آجاتی ہے۔ معاشرے میں لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے اور انسانی ترقی کے اشاریوں کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ معاشرے میں تنوع، مساوات ، تحفظ ، رواداری نیز پرانے طور طریقوں سے انحراف کا احترام کیا جائے۔ اگر ریاست ایذا رسانی کے رجحان کی سرپرستی کرتی ہے تو معاشرے میں مندرجہ بالا اقدارکمزور پڑ جاتی ہیں۔ خوف و ہراس اور عدم تحفظ کے سائے میں زندگی گزارنے والے شہری بالادست طبقات کے نقطہ نظرسے انحراف کی جرا ¿ت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کا راستہ رک جاتا ہے اورسماج میں جمود پیدا ہو جاتا ہے۔ علمی خیالات ہوں یا معاشی حکمت عملی ،سیاسی نقطہ نظر ہویا سماجی ڈھانچوں پر غور و فکرکا نیا ڈھنگ، ان سب شعبوں میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ شہری اپنے بنیادی انسانی احترام اور احساس تحفظ سے متصف ہوں ۔ ایذا رسانی کے خلاف بین الاقوامی معاہدہ 1986ءمیں منظور ہوا تھا۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک کے بارے میں ایذا رسانی کے قابل اعتبار اعداد و شمار موجود ہیں اور یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جن معاشروں میں ریاستی ادارے شہریوں کو ایذا دیتے ہیں وہاں انسانی ترقی کی شرح کمزور ہے۔

انسانی معاشرے میں تہذیب کا ایک بنیادی اشاریہ یہ ہے کہ وہاں رہنے والے اپنے ہم وطنوں اور تمام انسانوں کے دکھ درد کو کس طرح محسوس کرتے ہیں۔ دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنا محض فلاحی تصور نہیں بلکہ اس کا تعلق ہمارے داخلی ارتفاع سے ہے۔ عام طور پر کسی معاشرے میں تہذیب کا پیمانہ یہ ہے کہ وہاں عورتوں اور مردوں میں مساوات کی صورت حال کیا ہے ۔ بچوں سے کس قدر شفقت کی جاتی ہے۔ بزرگوں کا کس قدر احترام کیا جاتا ہے۔معذور افراد کی دیکھ بھال کا کیا بندوبست کیا گیا ہے۔ معاشی اور سماجی طور پرپچھڑے ہوئے طبقات کو کس حد تک ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ جو افراد اور معاشرے ان اقدارکا خیال رکھتے ہیں وہ کسی پر احسان نہیں کرتے۔ کیونکہ ان تمام قدروں کی پاسداری سے معاشرے میں اجتماعی طور پر بہتری آتی ہے جس سے ہر شہری یکساں طور پر مستفید ہو سکتا ہے۔ جو سائنس دان کسی بیماری کا علاج دریافت کرتا ہے یا جو موجد انسانی زندگی میں سہولت پیدا کرنے والی ایجادات کرتا ہے یا جو مفکر معاشرے میں ایسی قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے جس سے معاشرے میں انصاف ، آزادی اور انسانی خوشیوں کو یقینی بنایا جا سکے ۔وہ دراصل بنیادی انسانی اخوت کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ ان تمام کوششوں کے پیچھے بنیادی سوچ یہ ہے کہ انسانی اجتماع میں اگر کوئی ایک فرد یا گروہ تکلیف میں مبتلا ہے توباقی انسانی معاشرہ اس صورت حال کی بدصورتی سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ایذا رسانی کا ایک بڑانقصان یہ ہے کہ اس سے معاشرے میں دوسروں کے دکھ در د کے بارے میں بے حسی جنم لیتی ہے۔ جن معاشروں میں ریاستی اداروں کی طرف سے ایذا رسانی کا رجحان زیادہ ہوتاہے وہاں معاشرے میں تشدد کی سطح بھی بلند ہوتی ہے۔ ریاستی اداروں کی طرف سے ایذا رسانی اور شہریوں کے درمیان تشدد کی سطح میں براہ راست تعلق پایا جاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ریاستی ادارے شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوں اور معاشرے میں باقی افراد اورگروہ تشدد سے گریز کرتے ہوں۔ معاشرے میں تشدد ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ریاست تشدد کو ایک برائی تسلیم کرتے ہوئے ریاستی اداروں میں ایذا رسانی کو ختم کرے۔

جمہوری معاشرے میں ریاستی اداروں کی طرف سے ایذا رسانی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ جمہوری حکومت عوام کو جوابدہ اور قانون کی پابند حکمرانی کا نام ہے۔ ریاستی اداروں کی طرف سے ایذا رسانی دراصل ریاستی جوابدہی سے انکار کے مترادف ہے۔ ریاستی اداروں اور اہلکاروں کی طرف سے ایذا رسانی کی روایت جڑ پکڑ لے تو جمہوری اختلاف رائے اور رواداری قائم نہیں رہ سکتی۔ کسی معاشرے میں جمہوریت کے استحکام کا ایک اہم پیمانہ یہ ہے کہ وہاں ایذا رسانی کے بارے میں ریاست اور معاشرے کا رویہ کیا ہے۔اگر کسی ریاست میں ایذا رسانی کی روایت موجود ہے تو وہاں جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔

ایذا رسانی معاشرے میں بدعنوانی کو بھی جنم دیتی ہے ۔ ایذا رسانی کا مرتکب ہونے والے اہلکار اس مفروضے کی بنا پر کام کرتے ہیں کہ انہیں اپنے افعال پر جوابدہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا چنانچہ وہ ایذا رسانی کا دائرہ صرف جرائم کی تحقیق تک محدود نہیں رکھتے بلکہ عام شہریوں سے ایذارسانی کا خوف دلا کر رشوت بھی بٹورتے ہیں۔ ریاستی اہلکار اپنے اختیارات کا خوف دلا کر ناجائز مفادات بھی حاصل کرتے ہیں۔ بدعنوانی کا دوردورہ وہیں ہوتا ہے جہاں کاروبار مملکت میں شفافیت نہیں ہوتی۔ ایذا رسانی سے بڑھ کر غیر شفاف مظہر انسانی معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔ دنیا کی کوئی ریاست اور کوئی سرکاری اہلکار قانون کے سامنے یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انہوں نے کسی شہری کو اذیت دی ہے۔ ایذا رسانی جیسی غیر شفاف فعل کی موجودگی میں بدعنوانی کا ناسور جنم لیتا ہے۔

پاکستان نے ایذا رسانی کے خلاف بین الاقوامی معاہدے کی جون 2010ءمیں توثیق کی تھی۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند برس کے دوران پاکستان میں سیاسی کارکنوں کو غائب کر کے ان پر تشدد کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان سمیت ملک کے بہت سے حصوں میں ایسے سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ پاکستان کے آئین میں ایذا رسانی کے بارے میں دفعہ 25میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ کسی کو اعتراف جرم یا جرم کے شواہد حاصل کرنے کے لیے ایذا رسانی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ پاکستان کے آئین میں یہ شق ایذا رسانی کی بین الاقوامی تعریف سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایذا رسانی کا فعل محض اعتراف جرم یا جرم کے شواہد تک محدود نہیں رہتا۔ ہمیں دستور میں یہ واضح کرنا چاہیے کہ ریاستی ادارے کسی شہری کو سیاسی خیالات یا کسی بھی دوسری بنیاد پر اذیت کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں پر تشدد کے واقعات عام ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کی جسمانی تحویل سے عدالتی تحویل میں لے کر قیدی کو جیل بھیجا جاتا ہے تو وہاں اس سے کون سا اعتراف کرانا مقصود ہوتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر عدالت کسی شہری کو پولیس کی جسمانی تحویل (فزیکل ریمانڈ)میں دیتی ہے تو اس کا مطلب پولیس کو ایذا رسانی کی اجازت دینا ہوتا ہے۔ یہ تاثر آئینی اور قانونی طور پر بالکل غلط ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ پاکستان کے تعزیراتی قانون میں تشدد کو تو جرم قرار دیا گیا ہے لیکن تشدد اور ایذا رسانی میں واضح فرق نہیں کیا گیا۔ کتاب قانون میں ایذا رسانی کو تشدد سے فرق کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ ایذا رسانی کے مرتکب افراد اور ادارے اس جرم کی سنگینی کی مناسبت سے جوابدہ ٹھہرائے جا سکیں۔ یہ درست ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ریاستی اداروں اور اہلکاروں کی سطح پر ایذا رسانی کا چلن عام ہے لیکن اسے پاکستان سمیت کسی بھی ملک میں ایذا رسانی کے جواز کے طور پر پیش نہیں کا جا سکتا۔ پاکستان ایذا رسانی کے خلاف بین الاقوامی قانون کا فریق بن چکا ہے ۔ حکومت اور ریاستی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس بین الاقوامی قانون کے تقاضوں کو پاکستان کے دستور اور قانون میں سمویا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments