منٹو: ہیولیٰ برقِ خرمن کا


اس سے پہلے جن شخصیات کے ’پروفائل‘ یا نیم رُخ مطالعے لکھ چکا ہوں، اُن کے سننے والوں میں سے چند ایک کرم فرماؤں کا تقاضا تھا کہ منٹو صاحب کی بھی شخصی یادیں قلمبند کی جائیں۔ مشکل یہ آن پڑی کہ لاہور میں اور لاہور کے آس پاس پانچ ایک برس کا عرصہ گزارنے کے دوران، ہر دوسرے تیسرے دن ان سے کہیں نہ کہیں مڈبھیڑ تو ہو جاتی تھی لیکن شرحِ صدر کے ساتھ مل بیٹھنے کے مواقع بہت کم میسر آتے تھے۔ خدا جانے عمروں کے تفاوت نے حجاب ساحائل کر دیا تھا یا پھر ان کی ادبی حیثیت کا احترام رکاوٹ بن جاتا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے اور میرے وطن امرتسر میں، جسے وہ تقسیمِ پنجاب سے تقریباً ایک دہائی پہلے ترک کر چکے تھے، ان کے بارے میں ایسے ایسے قصے مشہور تھے کہ وہ میرے لیے ایک افسانوی شخصیت بن چکے تھے جس کے پار جا کر حقیقی شخصیت سے آنکھیں چار کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

میرے بڑے بھائی امجد، جو اُن کے کلاس فیلو رہ چکے تھے، میرے دوست حامد حسن کے بڑے بھائی سائل کاشمیری، پھر منٹو صاحب کے عزیزوں میں سے چند ایک لمبی چھوڑنے والے اور ان کے علاوہ بہت سے خواندہ اور ناخواندہ لوگ، اٹھتے بیٹھتے ان کاتذکرہ کرتے رہتے۔ یہاں تھے تو کیا تماشے دکھاتے تھے اور بمبئی میں ہیں تو کس ٹھاٹ سے رہتے ہیں۔ ایک مشہور شعبدے باز کے للکارنے پر انگاروں کے اوپر ننگے پاؤں چلنے کی داستان اور امریکیوں کے ہاتھ تاج محل فروخت کرنے اور اسے امریکہ میں نصب کرنے کا منصوبہ، جو ان کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھا، اور ایسی کئی باتیں شہر کی اساطیر میں شامل ہو چکی تھیں۔ اپنے گھر میں، جو مشہور کوچہ وکیلاں میں واقع تھا، آٹھ ایم ایم( 8 MM) کا پروجیکٹر چلا کر کباڑیوں سے جمع کیے ہوئے دیسی بدیسی پرانی فلموں کے ٹکڑے دوستوں کے ساتھ مل کر دیکھتے تھے۔ اور یہ پروجیکٹر بھی، جسے ایم اے او کالج کی فزکس لیب سے ادھار لیا ہوا تھا، بمبئی جاتے ہوئے کہیں ٹھکانے لگا گئے تھے کہ وہاں اتنی چھوٹی سی مشین بھلا کس کام آتی۔

وہ ایک سیشن جج کے بیٹے تھے جن کا شمار شہر کے معززین میں ہوتا تھا۔ براق اور بے چین طبیعت، معصوم اور غیر معصوم شرارت کے ان مظاہروں میں کبھی امّ الخبائث اور کوٹھے والیوں کا ذکر نہیں آتا تھا یا تو لڑکے بالوں کے لیے داستان کا یہ حصّہ سماجی سنسر کا شکار ہو جاتا یا پھر منٹو صاحب کو اپنے مقبولِ عام لقب ”ٹامی“ کے باوجود ایک شریف زادہ بنا کر پیش کرنے کی مہم جاری رہتی۔

بمبئی سے ان کا مُرتّبہ ہفت روزہ ’مصوّر‘ کئی لوگوں کے پاس آتا تھا اور بازار میں بھی بِکتا تھا۔ یہ رسالہ یوں تو بظاہر فلمی تھا اور اس لحاظ سے خاصا چٹپٹا بھی، لیکن خاص خاص موقعوں پر اس کے سیاسی سماجی ایڈیشن بھی چھپتے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ ہر ہفتے ”منٹو کا صفحہ“ شامل ہوتا اس اعلان کے ساتھ کہ اس صفحے پر منٹو جو چاہے گا لکھے گا۔ یہ کالم اتنی بار پڑھ پڑھ کر سنایا جاتا کہ ہر ایک کو حفظ ہو جاتا اور اس کے معنی خیز اشارے کنایے بھی شفاف ہو جاتے۔

ایک دن، منٹو صاحب کے گھر کے قریب، ٹُنڈے فٹ پاتھیے کے بک سٹال پر کتابوں کے ڈھیر کے اوپر سیدھی کھڑی کی ہوئی ایک کتاب دکھائی دی ”منٹو کے افسانے“ جس کے سروَرق پر ان کا زبردست قلمی خاکہ بنا ہوا دُور سے اپنی طرف کھینچتا تھا۔ یہ ٹُنڈا، نئی پرانی کتابیں کرائے پر بھی دیتا تھا، پرانی ایک آنہ روز، نئی دوّنی روز، مگر یہ خاص کتاب، جس کی اس نے پانچ کاپیاں منگوائی تھیں، چوّنی روز پر ہی مل سکتی تھی۔ پھر بھی ایک کاپی کو چھوڑ کر، جو ہر وقت سٹال پرسجی رہتی، باقی سب گردش میں رہتیں۔ ان کی وہ ایڈوانس بکنگ بھی کرتا تھا اور جب تک میں ایک چونی بچا سکا، تو میری باری کئی مہینے بعد آئی۔ اُسی ٹُنڈے کو میں نے بیس پچیس برس کے بعد کراچی صدر کے جی پی او کے سامنے ایک اچھے خاصے بُک شاپ کا مالک بنا پایا مگر وہ گاہکوں سے بے نیاز ایک طویل ٹیلیفون کال میں مصروف تھا جس پر ریس کے گھوڑوں کی ٹِپس کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ ویسے یہ بات امرتسر میں ہی مشہور ہو گئی تھی کہ اس نے ’منٹو کے افسانے ’ کرائے پر چڑھا چڑھاکر ریس کا ایک گھوڑا خرید لیا تھا جو وقتاً فوقتاً کوئی انعام بھی جیت جاتا۔

سعادت حسن منٹو کی والدہ

یہی ٹنڈا قسم کھا کر کہتا تھا کہ منٹو کی والدہ ایک تہجد گزار خاتون تھیں جن کا دروازہ رات بھر بیٹے کے انتظار میں کھلا رہتا کہ والد صاحب کو آنے کے صحیح وقت کی خبر نہ ہو۔ لیکن آخر یہ رات بھر کہاں رہتے تھے، اپنے منٹو صاحب؟ یہی کچھ دیر یاروں کے ساتھ سیر سپاٹے میں اور پھر کسی اخبار کے دفتر میں لیکن والدہ کی دعائیں ان کا پیچھا کرتی رہتیں، اس لیے کسی جوئے خانے یا کوٹھے کے پاس بھی نہ پھٹکتے اور شرابی کے ساتھ تو کھڑے بھی نہ ہوتے۔

لیکن اب؟ اب تو وہ بمبئی میں ہیں، والدہ کو وہیں بُلا لیا ہے۔ جج صاحب عرصہ ہوا اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ بڑے بھائی افریقہ میں رہتے ہیں، وہ دوسرے پیٹ سے ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بیرسٹر وغیرہ۔ مگر منٹو صاحب کبھی یہاں کا چکر کیوں نہیں لگاتے؟ بھائی یہاں اب کون ہے، بہنیں تھیں سو پرایا دھن ہو کر چلی گئیں بلکہ اب تو جدّی مکان بھی بِک گیا جس کا منٹو صاحب کو ایک پیسہ نہیں ملا۔ مگر انہیں کیا پروا ہے، ہزاروں کماتے ہیں، لاکھوں لُٹاتے ہیں۔ پچاس ہزار تو اسی کتاب کے لیے ہوں گے۔ (بعد میں معلوم ہوا کہ تین چار سو سے زیادہ نہ ملے تھے، خیر آج کے حساب سے پچاس ہزار ہی سمجھو)۔

دوسری جنگِ عظیم چھڑ چکی تھی اور برلِن ریڈیو سے اُردو خبریں سننے کے لیے ہمارے گھر میں ریڈیو لایا گیا تھا جس کے گرداگرد پاس پڑوس کے بڑے بوڑھے رات کو والد کے ساتھ جمع ہوتے اور ڈائلنگ کی ڈیوٹی میرے ذمے ہوتی۔ وہ تو بس خبریں سنتے، زیادہ سے زیادہ دیہاتی پروگرام یا کوئی قوالی لیکن باقی سارا دن ریڈیو میری تحویل میں رہتا۔ میرا پسندیدہ پروگرام ڈراما تھا جس کا ہر مہینے آل انڈیا کمپی ٹیشن ہوا کرتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سال ڈیڑھ سال تک آدھے سے زیادہ مقابلے منٹو صاحب نے جیتے لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ان کا نام ہی نشر ہونا بند ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ وہ دہلی ریڈیو چھوڑ کر بمبئی واپس جا چکے ہیں جہاں وہ اشوک کمار کی فلم کمپنی میں کام کرتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments