پائے لاگوں بانو آپا


میں ان کے عالمگیر شہرت یافتہ ناول راجہ گدھ کے غیر مدلل اور غیر سائنسی ہونے کو بھی ہرگز نہیں للکاروں گی جس کی وجہ سے کئی نسلوں میں خوش فہمیاں، غلط فہمیاں اور کنفیوژن پیدا ہوئی۔ جس میں کئی کمزور عقائد کی سرپرستی کا سبق دیا گیا۔ اکثر پڑھنے والے روبوٹ کی مانند سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے چلے گئے۔ اندھی بھیڑوں کی طرح تقلید اور بجا آوری میں اتنے دور نکل گئے کہ لوٹنا کٹھن ہو گیا۔ اس بات کا سہرا البتہ ان دونوں فاضل میاں بیوی کو جاتا ہے کہ انہوں نے نوجوان نسل کی ذہن سازی اتنے غیر محسوس اور کامیاب طریقے سے کی کہ آج بھی ان کے پیش کردہ تصورات، فرسودہ خیالات، رجعت پسند نظریات اور نان پروگریسو رویوں کو توڑنے کے لئے، متضاد سوچ رکھنے والوں کو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ میں ان کی اس تھیوری کو بھی یہاں تنقید کا نشانہ نہیں بناؤں گی کہ معذور بچوں کی پیدائش ان کے والدین کے کالے کرتوتوں اور غلط کاریوں کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اب تو بہت سے ماہرین جینیات ان کے حرام حلال کی تھیوری کو بھی بے بنیاد کہہ کر رد کر چکے ہیں۔ ویسے گدھ بیچارہ تو ماحول صاف کر کے قدرت کا توازن اور تناسب برقرار رکھتا ہے، آپا نے اسے منفی انداز میں پیش کیا تو میں ان سے اتفاق نہ کر سکی۔

مگر ایک بات ایسی ہے جو میرے دل میں کانٹے کی طرح برسوں سے کھٹکتی رہی ہے۔ سوچا اس کانٹے کو نکال ہی دوں اس سے قبل کہ میرا بلاوا بھی آ جائے اور ان کہی ہمیشہ کے لئے میرے اندر ہی دفن ہو جائے۔

بانو آپا نے اپنے اور اشفاق صاحب کی زندگی میں آنے والے اشخاص کے حوالے سے اپنی یادداشتیں قلم بند کیں تو انہیں ”راہ رواں“ کے نام سے اپنی کتاب میں شامل کیا۔ اس توانا، باوقار اور مستند ادیبہ کی اس کتاب کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا مگر جب مندرجات سامنے آئے تو انکشاف ہوا کہ اس میں احمد بشیر کی فیملی کے بارے میں انتہائی بے سر و پا باتیں لکھی ہیں، وہ باتیں جن سے ہماری فیملی کی عزت اور ساکھ کو ٹھیس پہنچی تھی۔

جب یہ کتاب شائع ہوئی، تو ابا اور اشفاق صاحب دونوں ہی پر لوک سدھار چکے تھے۔ اگر ابا زندہ ہوتے تو یقیناً بہت فساد پڑتا، شکر ہے وہ جا چکے تھے اور اب یہ پدی رہ گئی ہے چوں چوں کر کے شور مچانے کو۔ اس یاد نگاری میں ہماری فیملی کے بارے میں کافی غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ اوپر اوپر سے اتنے پیار محبت سے ملنے والوں کے دل میں کیسی کیسی باتیں چھپی ہوتی ہیں۔

جو پہلا الزام لگایا گیا، سراسر جھوٹا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ابا نے ”نیلا پربت“ فلم بنانے کے لئے شہاب صاحب سے چار لاکھ روپے قرض لئے تھے جو وہ نہ لوٹا سکے۔ تو پیارے لوگو! یہ بات بالکل ہی غلط ہے۔ ابا نے قرض لیا ضرور تھا مگر اپنے ابا اور بہن سے، اور کسی سے کچھ نہیں لیا تھا کیونکہ ایسے وقت میں فیملی ہی کام آئی تھی۔

دوسرا الزام صرف جھوٹا ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی تھا۔ لکھا تھا کہ احمد بشیر ہماری الیکٹرانک میڈیا کی شہرت سے جلتے تھے، اس لئے انہوں نے اپنی بیٹیوں کو آگے کر دیا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ احمد بشیر فکشن یا ڈرامے کے آدمی ہی نہیں تھے، یہ ان کا میدان تھا ہی نہیں، وہ تو ایک دبنگ صحافی تھے ضیاء الحق کے ”نظام مصطفیٰ“ کے نعرے کے کٹر مخالف، منافقت کی روزی پر لات مار نے والے، نڈر اور بے خوف آدمی۔ ویسے اس بات پر ہنسی آتی ہے کہ آج بھی اس طرح کا خواب ریاست مدینہ کے نام سے بیچا جاتا ہے اور خریدار بھی نکل آتے ہیں۔

ابا کو بانو آپا اور اشفاق صاحب کی طرح مراعات بھلا کیوں ملتیں؟ چاپلوس صحافیوں کی طرح وہ پلاٹ، روپیہ، نوازشات کے حقدار کیوں ٹھہرتے؟ نہ تو وہ ضیاء کے لاڈلے تھے اور نہ فوج کے خوشامدی۔ وہ تو آتش نمرود میں بے خوف و خطر کود جانے والے ایک دیوانے تھے۔ ان کی ٹھوکر سے حکومتی، صحافتی ادارے دو نیم ہو جاتے اور موقع پرست، رجعت پسند ان کی ہیبت سے رائی بن جاتے۔ ان کو الیکٹرانک میڈیا کی شہرت کی کوئی طلب یا بھوک نہیں تھی، اگر وہ لالچی اور موقع پرست ہوتے تو بہت سے ادیبوں اور صحافیوں کی طرح عہدہ داروں کے آگے گھگیاتے، منمناتے اور ایلیٹ کلاس لکھاری بن کر خاطر خواہ اجر کماتے۔ انہوں نے فقر اور درویشی کی روش اختیار کی اور تاحیات اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہیں نوجوانی میں ریڈیو پر نوکری کے دوران احمد فراز، مفتی، زیڈ اے بخاری جیسے قابل لوگوں کے ساتھ سکرپٹ نویسی کا موقع ملا تھا، وہ ڈاکومنٹری فلمیں بھی بنا چکے تھے مگر ان کے نزدیک میڈیا کی شہرت عارضی اور غیر مطلوب تھی، انہیں اس کی کوئی للک نہیں تھی۔

اور پھر بھلا وہ اپنی بیٹیوں کو کیسے آگے کر سکتے تھے؟ بشریٰ انصاری اپنے شوہر کے ساتھ تھیں، انہوں نے مل کر اپنا شوبز کیریئر بنایا، دوسری بیٹیاں تو ابا کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہی ٹیلی ویژن آرٹسٹ بنیں۔ ان کے اپنے خانگی حالات نے جب انہیں موقع دیا تب وہ آگے آئیں۔ باقی رہ گئی میں، تو میں کون سی کوئی میڈیا سٹار ہوں کہ کسی کو نظر آؤں یا میرا کوئی نوٹس لے؟ میں ٹھہری ادبی دنیا کی باسی، مجھے کس نے آگے کرنا تھا؟

سچ بات تو یہ ہے کہ ابا اپنی زندگی میں مست الست اور من موجی قسم کے آدمی تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی کسی بیٹی یا اکلوتے بیٹے تک کو نہیں کہا کہ تم ایسا کرنا اور ایسا نہ کرنا۔ میری شادی ہوئی تو میں امریکا روانہ ہو گئی۔ ائرپورٹ پر ابا میرے کان میں فرماتے ہیں :

”بہادر لڑکی بن کر جینا اور یہ کبھی نہ بھولنا کہ تم ایک پاکستانی ہو۔“

نہ جنازے کی شکل میں واپس آنے کی تلقین نہ سرنگوں ہو کر جینے کی نصیحت نہ ایسی کوئی اور بات۔ لو جی کیا ہمارے ہاں کوئی باپ اپنی بیٹی کو پردیس رخصت کرتے وقت کیا ایسا بھی کہتا ہے؟ جہاں تک میرا کچھ ماڑی موٹی کہانیاں لکھنے کا تعلق ہے تو وہ سب کچھ خود بخود ہی ہوتا چلا گیا۔ نہ انہوں نے کبھی مجھے نہ اپنی بہن پروین کو پوچھا کہ آخر تم دونوں کیا کرتی پھرتی ہو؟ کیا لکھتی ہو؟ کیا پڑھتی ہو؟ کبھی نہیں پوچھا۔ البتہ ممتاز مفتی نے ہم دونوں کی حوصلہ افزائی ضرور کی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم میں ابا کے سامنے جانے کا اعتماد ہی نہیں تھا۔ ان کے آگے ہماری بساط ہی کیا تھی؟ وہ ٹھہرے اتنے اعلیٰ پائے کے لکھنے والے تو ہم جیسی بھلا چھوٹی موٹی لکھنے والیاں ان کے آگے کیا حیثیت رکھتی تھیں؟ ابا کی بہن اور بیٹیوں نے اپنے اپنے محاذوں پر زندگی کی لڑائیاں خود لڑیں۔ اپنے ماتھے پر ہمت کی پٹی باندھ، کمر پر جرآت کا دوپٹہ کس، اظہار کے میدان میں کود پڑیں کہ ان میں خداداد صلاحیتیں موجود تھیں۔ ممتاز مفتی کہا کرتے تھے :

”احمد بشیر کے جینز کا جوار بھاٹا ان کو چین سے نہیں جینے دے گا۔ یہ اپنے اپنے اظہار کی راہ ڈھونڈ نکالیں گی۔“

ان کی بات واقعی سچ ثابت ہوئی۔ ویسے یہ ایک بڑی خوبصورت حقیقت ہے کہ آج ہم میں سے کوئی بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اور کوئی ہمارے ساتھ احمد بشیر کا لا حقہ لگا دے تو دل فخر سے بھر جاتا ہے۔

بانو آپا کو کبھی ادب کی مدر تھریسا سے کم نہیں سمجھا گیا۔ ایک زمانہ ان کے مرتبے، ذہانت، متانت، قابلیت کا معترف ہے۔ ان کی تحریروں نے کئی نسلوں کی ادبی تربیت کی۔ تو پھر بھلا ان کے قلم سے ایسی غیر ذمہ دارانہ تحریر کیسے پھوٹ پڑی؟ ہم لوگ تو حیران ہو کر رہ گئے۔ پیاری آپا کا پیارا تصور کچھ ایسا ہی ہے جیسے وہ ایک برگزیدہ صوفی منش خاتون ہوں، جسے دنیا کی کوئی لوبھ نہیں ہوتی۔ انہیں ججمینٹل ہونے سے کوئی سروکار نہیں، ایک پیار کا سمندر ان کے اندر ہے مگر پھر سنا ہے کہ کبھی کبھی سمندر بھی سلگ اٹھتے ہیں۔ شاید ہم سب کے اندر ایک کالا سیاہ گدھ چھپا رہتا ہے جو موقع ملنے پر ٹھونگا مارنے سے باز نہیں آتا۔ شاعر کہتا ہے ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی۔ تو کوئی ننھا سا کمینہ سا آدمی ایک پیاری سی ہستی میں بھی کہیں نہ کہیں تو سانس لیتا ہوگا اور یہ قصور اسی کا رہا ہو گا کہ جو کچھ انہوں نے لکھا آج ادبی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ میں یہ سب اس لئے لکھ رہی ہوں تاکہ تاریخ اپنا ریکارڈ درست کر لے، کوئی کسی کو غلط انداز سے یاد نہ رکھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments