معصوم کا عذاب – آدرش فاروق


\"adirsh-farooq\"موسم کا عذاب چل رہا ہے

بارش میں گلاب جل رہا ہے

درد، تکلیف، ازیت اور کرب احساسات کے ساتھ ہی جڑے ہیں مگر معاشرتی حالات و واقعات ہمیں ان سے بے بہرہ کر دیتے ہیں کہ ہم کچھ بھی سمجھنے کی بجائے آنکھ بچا کر نکلنے کی کو شش کرتے ہیں جیسے وہ احساسات نہیں بلکہ آسیب ہیں۔ ہم ان احساسات کو اتنی بار اپنے اندر پیدا ہو کر مرتے ہوئے محسوس کر چکے ہوتے ہیں کہ حکومتی وعدوں کی طرح ان کی معنویت ختم ہو جاتی ہے اور اندر باہر ایک سا کہر آلود جمود طاری ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سوچنے، سمجھنے اور کبھی کبھار بولنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے۔ الفاظ ہوا میں معلق ہو جاتے ہیں اور ذہن کی تختی صاف ستھری ہوتی ہے پھر نہ اندر، باہر کا موسم بدلتا ہے نہ ہی آنکھ کوئی منظر دیکھ پاتی ہے۔ گھٹن اتنی کہ سانس لینا محال۔
دلوں کے حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور نیتوں کے حال بھی وہی جانتا ہے۔ مگر جہاں جہالت، گھمنڈ، غرور اور اتراہٹ بحثیت قوم وطیرہ بن جائے اُن قوموں کی قسمت نادر ہی بدلتی ہے۔ ہمیں ہر چیز میں صفائی اور نفاست پسند ہے مگر اپنے اندر کی صفائی اور طبیعت کی نفاست پہ بہت سے خود کا ر آلہ کی طرز کے کئی قد غن لگا رکھے ہیں۔

وقت اپنی رفتار سے گزر رہا ہے اور ہمیں آج تک اس بات کو سوچنے کی فُرصت نہیں ملی کہ ترقی یافتہ معاشروں کے طرز پر زندگی گزارنی ہے یا کہ اپنی ہی درویشانہ صفت پہ۔ اس کوے اور ہنس کی چال نے ہمیں آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا رکھا ہے۔ جیسے آگے تو بڑھنا چاھتے ہیں محنت کے بغیر، منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں راستوں کا تعین کئے بغیر، منزل چاہتے ہیں سفر کی دھول چاٹے بغیر۔ اقبال نے جن شاہینوں کے خواب آنکھوں میں سجائے تھے وہ تو محبت، بھائی چارے جیسے احساسات کی طرح کہیں کھو گئے ہیں۔ غربت اور افلاس نے جہاں بھوک اور ننگ کو فروغ دیا ہے وہیں اخلاقیات اور انسانی قدریں بھی ختم ہوتی جاتی ہیں۔ انسانی زندگی کی قدر پاکستانی روپے کی طرح کم ہوتی جا رہی ہے۔ جن معاشروں کی روش میں بے حسی، خود ستائش اور ڈھٹائی پائی جاتی ہے وہاں معصوم لوگ اپنی اُمیدوں کا جنازہ اُٹھاتے ہیں۔

شفقت بھی ان ہی لوگوں میں سے ہے جو روز چندے کا بکس لے کر سڑک کنارے بیٹھا کرتا اور ہم میں سے بہت سے لوگ کبھی کبھار نوازتے، کچھ بالے بانکے مذاق اُڑاتے اس کو تحقیر سے دیکھا کرتے اور کچھ رحم طلب نظروں سے اُسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے۔ لیکن جب وہ اپنی عمر کے بچوں کو نئے کپڑے پہنے سکول جاتے دیکھتا تو اس کے دل میں سکول جانے کی خواہش سر اُٹھانے کی لگتی انہی سوچوں اور سڑک کی زندگی نے اسے ایک دم ہی کمسنی سے بہت بڑا کر دیا اتنا بڑا کہ پاس سے گزرنے والی ہر نظر کا مفہوم سمجھنے لگا۔ ان رویوں کے کٹر معنوں نے اسے نہ صرف گھر سے لے کر باہر والے ہر فرد سے بلکہ خود سے بھی متنفر کر دیا۔ جب یہ نفرت کراہت میں بدلتی تو اسے خود کے وجود سے بھی بدبو آنے لگتی۔ وحشت اور خود ترسی کی وجہ سے معاشرتی صاحبِ عقل اُسے نفسیاتی مریض سمجھنے لگے جب کہ شفقت جانتا تھا کہ اندر جاگی اس بے چینی، خود ترسی اور معاشرتی ذلت کا احساس کیسا ہے؟

ہر اُٹھتی نظر نے شفقت کو اس کی کسمپرسی اور احساسِ محرومی کا یقین دلایا۔ ہر لمحے اندر سے بار ہا مرنے کی اذیت نے اس کے احساسات کو منجمد کر دیا ہے مگر شفقت کا سوال یہ ہے کہ میری زندہ لاش۔ جس میں خودترسی اور زوال کا تعفن ہے، محرومی کا اندھیرا ہے جو کہیں چین نہیں لینے دیتا میرا قصور کیا ہے؟ ایسے کئی شفقت ہیں جو زندگی کی خوبصورتی کو محسوس کئے بغیر ہی اپنے آپ سے بدلا لیتے لیتے ہی کھو گئے۔
ہماری تھوڑی سی بے دھیانی اور لا پرواہی نے ایسے کئی چراغ گُل کر دیئے۔ کتنے ڈاکٹر، انجینئر اس ملک وقوم کے رکھوالے ہم نے گنوا دیے یہ جانے اور سوچے بنا ایک شفقت کے کھونے سے ہمارا معاشرتی طور پر کتنا بڑا نقصان ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments