تعلیم یافتہ نوجوانوں کا احترام


\"samira-zafar\"پچھلے دنوں فیس بک پہ حالات و واقعات کا جائزہ لے رہی تھی کہ ایک پوسٹ نظروں کے سامنے سے گزری، ایک بہن نے اپنے بھائی کے لئے کسی مناسب جاب کی درخواست کی تھی۔ بھائی کی تعلیمی قابلیت ایم۔ بی۔ اے اور ایم۔ کام بتائی گئی۔ موصوف کی تعلیمی قابلیت دیکھ کر اس کے بیروزگار ہونے پہ مجھے افسوس ہوا۔ پوسٹ پہ تبصرے پڑھے تو یہ جان کے اور افسوس ہوا کہ موصوف جہاں بھی جاب کے لئے جاتے ہیں وہاں پیسہ چاہیے ہوتا ہے یا پرچی جسے حرفِ عام میں سفارش کہتے ہیں اور اس کے پاس یہ دونوں ذرائع ہی نہیں۔

ویسے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہمارے ملک میں ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے۔ اگر آپ کے تعلقات ملک کی موجودہ حکمران جماعت کے کسی نمائندہ سے اچھے ہیں تو آپ با آسانی اپنے کسی بھی پسندیدہ شعبہ میں ایک اچھا عہدہ حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے لئے ڈگری کا ہونا بھی ضروری نہیں اور دوسرا بہترین موقع آپ کو تب مل سکتا ہے جب آپ حادثاتی طور پر کسی بہترین ڈیجیٹل کیمرے کی زد میں آجائیں اور تصویر انسٹا گرام پہ اپ لوڈ کر دی جائے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ وائرل ہو جائیں، نہیں نہیں پریشان نہ ہوں، میرا مطلب ہے کہ آپ کی تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل ہو جائے اور آپ کو دھڑا دھڑ مختلف ٹی وی چینلز سے کام کی آفر آنے لگے۔ مشہور برانڈڈ کمپنیاں آپ کو گود تک لینے کو تیار ہو جائیں۔ ایسے میں آپ کو نہ ڈگری کی ضرورت ہوگی نہ پرچی کی۔

پتہ نہیں کمزوری ہمارے نظام میں ہے یا ہماری سوچ میں، جہاں ایک معقول تعلیمی قابلیت رکھنے والے شخص کو نوکری کے حصول کے لئے اور اپنی بھاری بھرکم ڈگری کو کارآمد بنانے کے لئے ایک سفارش پرچی میں لپیٹ کر پیش کرنا پڑتا ہے یا نوٹوں کی تازہ مہکتی خوشبو سے لیس کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر وہ اپنا پورٹ فولیو سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کر بھی دے تو اسے ایسی پزیرائی نہیں ملے گی جو کہ ایک چائے والے کے حصہ میں آئی۔

دوسری طرف ایک فیشن شو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ریمپ پر واک کرتی ایک عورت کو دیکھ کے مجھے کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی بلکہ اپنے معاشرے کے معیار کا مزید اندازہ ہوگیا۔ اعتراض یہ نہیں کہ مختاراں مائی کو ریمپ پہ واک کرائی گئی بلکہ حل طلب مسلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں کو سپورٹ کیوں نہیں کرتا جو دن رات کی محنت اور کوششوں کے بعد اپنے آپ کو ایک اعلیٰ عہدہ کے قابل بناتے ہیں۔ سالہا سال مختلف قسم کی ریسرچ میں گزار دیتے ہیں۔ مثال ایک ڈاکٹر کی لیجئے جس کی پوری زندگی کتابوں میں سر دے کے گزر جاتی ہے جب تعلیم مکمل ہوتی ہے تو کسی عام اسپتال میں ہاوٗس جاب مل جاتی ہے اور مسیحا بن کر لوگوں کی خدمت پہ معمور ہو جاتا ہے۔ اس پہ بھی اپنی جان کا دھڑکا کہ ناحق کسی تیماردار کے طیش کا نشانہ بن جائے۔

لوگوں میں یہ شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ براہِ کرم ایسے لوگوں کی بھی قدر کیجئے جو پاکستان میں ہی رہ کر پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں اور پوری دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثر پیدا کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں کو کوئی این۔ جی۔ او سپورٹ نہیں کرتی اور نہ ہی یہ لوگ مارننگ شوز کا حصہ بنتے ہیں۔

پورا نظام تو ایک دم نہیں بدلا جا سکتا لیکن کم از کم سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی عام عوام میں اتنا شعور تو پیدا کریں کہ وہ اپنے اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئرز اور اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ہیرو مانیں تاکہ مغربی دنیا میں ہمارے معاشرے کا منفی تاثر ختم ہو اور ترقی کی راہ میں کوئی سفارش رکاوٹ نا بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments