بے حیائی، وبائیں اور ہماری سزا (مکمل کالم)۔


ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی بوئنگ نے 2016 ء میں اپنا جہاز 737 میکس متعارف کروایا، بوئنگ کی یہ فخریہ پیشکش تھی مگر بد قسمتی سے 2018 اور 2019 میں یکے بعد دیگرے اس جہاز کو دو حادثات پیش آئے جس کے بعد پوری دنیا میں اس کی پروازیں بند کر دی گئیں۔ وجہ یہ تھی کہ بوئنگ کی شرح حادثات دس لاکھ میں سے صفر اعشاریہ دو پروازیں تھی جبکہ 737 میکس کے ان دو حادثات کے بعد اس جہاز کی یہ شرح خطرناک حد تک بڑھ کر چار حادثات فی دس لاکھ پروازیں ہو گئی۔ یہ ایک انہونی بات تھی چنانچہ اس پر تحقیق کی گئی اور پھر جہاز کے سافٹ وئیر میں ایک خرابی کا پتا چلا لیا گیا جس کے بعد بوئنگ نے اعلان کیا کہ اب یہ خرابی دور کر لی گئی ہے۔ گویا 737 میکس کے سافٹ وئیر اور حادثات میں باہم تعلق تھا جسے تلاش کیا گیا اور پھر ناقابل تردید شواہد کی مدد سے ثابت کر دیا گیا۔

ہم بھی آج کل وباؤں اور بے حیائی میں ربط تلاش کرتے پھر رہے ہیں، اصول کی بات تو یہ ہے کہ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وبائیں قوم کی اجتماعی بے حیائی کے نتیجے میں نازل ہوتی ہیں تو اس باہمی تعلق کو ثابت کرنا بھی اسی کا کام ہے، یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ محض ایک دعوی ٰ کرکے ہم بیٹھ جائیں اور اس کے بعد لوگوں سے امید رکھیں کہ وہ اس دعوے کو بلا چوں چرا محض اس لیے تسلیم کر لیں کیونکہ یہ بات فلاں عالم نے کہی ہے اور اس سے زیادہ کوئی علم نہیں رکھتا۔ اس ضمن میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جا بجا ان قوموں کا ذکر ہے جو خدا کی نا فرمانی، برے اعمال اور اپنی بے حیائی کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں لہذا اس میں بحث کی کیا گنجائش!

یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اللہ کے عذاب کا ذکر ہے جو مختلف قوموں پر نازل ہوا لیکن اگر ہم ان تمام آیات کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوگا گہ جب بھی مختلف قوموں پر عذاب آیا اس میں گیہوں کے ساتھ گھن کو نہیں پیس دیا گیا بلکہ نیکو کاروں کو بچا لیا گیا اور اللہ کے نا ماننے والوں کو سزا دی گئی۔

مثلاً: ”پھر جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہود ؑ کو اور ان لوگوں جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیں بچا لیا۔“ (سورة ہود، آیت 58 ) ۔ ”آخر کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالح ؑ کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے ان کو محفوظ رکھا۔“ (سورة ہود، آیت 66 ) ۔ ”آخر کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیب ؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے۔ گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھا۔ (سورة ہود، آیت 94 ) ۔

یہ صر ف نمونے کی تین آیات ہیں، سورة ہود میں یہ مثالیں اللہ تعالی ٰ نے پوری تفصیل اور صراحت کے ساتھ کھول کر بیان کر دی ہیں اور ان میں رتی برابر بھی ابہام نہیں۔ قرآن کھولیے اور خود پڑھ لیجیے۔ یہ اللہ کی شان اور صفات اور اس کے انصاف اصولوں کے ہی خلاف ہے کہ وہ اپنا عذاب نازل کرے اور اس میں ان لوگوں کو بھی مار ڈالے جو اس پر ایمان رکھتے ہوں اور عمل صالح کرتے ہوں۔ لہذا جس وبا، آفت، زلزلے، سیلاب میں نیک و بد، ایمان والے اور غیر مسلم، بلا تفریق مارے جائیں وہ کسی صورت اللہ کا عذاب نہیں ہو سکتی کہ یہ بات قرآن کے آفاقی پیغام سے مطابقت نہیں رکھتی۔

یہاں ایک چیز کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ نے آخری مرتبہ اپنا عذاب مشرکین مکہ پر نازل کیا جس کی وعید اللہ کے آخری نبی محمد اللہ ﷺ نے دی، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی چونکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا اس لیے اب اس دنیا میں کوئی عذاب نہیں آئے گا، اب یہ عذاب روز قیامت برپا ہوگا کیونکہ یہی اصول قرآن میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مذہب کا مقدمہ ہے۔ اگر خدا نے ہر نا فرمانی، بے حیائی اور فراڈ کی سزا فوراً عذاب کی شکل میں اسی دنیا میں دینی ہے تو پھر روز قیامت جزا اور سزا کا بندو بست کس واسطے، پھر تو اسی دنیا میں حساب چکتا ہوگیا، جبکہ ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ گناہ گا ر اور نیکو کار کا فیصلہ آخرت میں ہو گا اس دنیا میں نہیں۔

قرآن کی واضح آیات کے بعد اب کسی مفروضے کی چنداں ضرورت رہ تو نہیں جاتی لیکن پھر بھی اگر ہم فرض کر لیں کہ بے حیائی اور عذاب کا آپس میں کوئی تعلق ہے جیسے کہ کشمیر کے 2005 ءکے زلزلے کے بارے میں بھی اس وقت کہا گیا تھاکہ وہ خدا کا عذاب تھا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس طرح کے زلزلے آئے دن دوسرے سیاروں پر بھی آتے ہیں، وہاں کون سے نیوز چینل چل رہے ہیں جن کے ذریعے بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے؟ مریخ میں کو ن سے کلب اور ڈسکو کھلے ہیں؟ عطارد پر کون سی عورتیں کھلے گلے پہن کر پھر رہی ہیں؟ وہا ں کون ہم جنس پرستی کر رہا ہے؟

چلیں مریخ سے واپس پاکستان آتے ہیں، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو سن ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں یہاں زیادہ ”بے حیائی“ تھی اس وقت کوئی وبا کیوں نہیں پھوٹی اور 1935 میں کوئٹہ جیسے مسکین شہرمیں ایسا کیا ہو رہا تھا کہ پورا شہر زلزلے نے ملیا میٹ کر دیا اور بنگلہ دیش کے بھوکے ننگے بنگالی ایسی کیا بے حیائی کرتے تھے کہ ان پر ہر سال سیلاب کا عذاب آ جاتاتھا؟ ان تمام باتوں کو چھوڑیں، اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ اب ملک میں بے حیائی، فحاشی اور عریانی ختم ہو گئی، کیا کوئی جنرل ضیا الحق بتائے گا؟

ویسے اس زمانے میں تو بے حیائی نا م کی بھی نہیں تھی، مہ پارہ صفدر سر پر دوپٹہ اوڑھ کر خبریں پڑھتی تھی اور ڈرامے میں خالدہ ریاست چادر اوڑھ کر سوتی تھی، اس کے باوجود اوجڑی کیمپ کا حادثہ ہو گیا، سینکڑوں بے گناہ افراد مارے گئے، کیا اس روز مہ پارہ صفدر کا دوپٹہ کھسک گیا تھا یا خالدہ ریاست پلنگ پر سوتے وقت چادر لینا بھول گئی تھی!

حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں شام، عراق اور مصر کے علاقوں میں طاعون کی وبا پھیل گئی، ایک اندازے کے مطابق اس میں کم از کم پچیس ہزار مسلمان فوجی ہلاک ہوئے، ان میں صحابہ کرام بھی تھے، طاعون کے بعد قحط بھی پھیلا، اور یہ سب اس عمر ابن خطاب ؓ کے زمانے میں ہوا جس سے بڑا کوئی ایڈمنسٹریٹر گزرا ہے اور نہ فاتح، آپ ؓ کی عظمت بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں، صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ حضرت عمر ؓ کا دور خلافت آئیڈیل دور تھا، اب کیا نعوذ باللہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت بے حیائی یا فحاشی تھی جس کی وجہ سے طاعون پھیلا اور قحط پڑا؟

ہمیں خدا کا خوف کرنا چاہیے، کیوں ہم دنیا میں اپنا مذاق اڑوانے پر تلے ہیں، پوری دنیا میں بائیولوجی اور وائرولوجی میں تحقیق ہو رہی ہے اور ہم یہ بحث کر رہے ہیں کہ یہ وبا ہماری بے حیائی کی وجہ سے پھیلی۔ بے حیائی کی سزا تو ہمیں روز قیامت ملے گی، جہالت کی سزا البتہ ہم آج دنیا میں ہی بھگت رہے ہیں!
(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments