مضبوط دفاع ریاست کی بقا کی ضمانت“ جیسی غلط فہمیاں”


ملک احمد ندیم آرائیں

\"ahmad-nadeem\"پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور سول اتھارٹیز کے مابین کشمکش معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور سیاسی نظام و انفرسٹرکچر ہی کسی معاشرے یا ملک کی بقاء کی ضمانت ہے جب کہ دفاعی حلقے اس کے برعکس اپنی اہمیت منوانے کے درپے ہیں کہ مضبوط دفاع کے بغیر کوئی معاشرہ یا ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ بادی النظر میں دونوں اداروں کا دعویٰ درست معلوم ہوتا ہے۔ ناچیز کے چھوٹے سے ذہن میں جو سوالات اور باتیں گردش کر رہی ہیں اسے کاغذ پر منتقل کرنے کا دل کر رہا تھا جو کر رہا ہوں۔

اگر دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو ایسے کئی ممالک سامنے آتے ہیں جنہوں نے مضبوط دفاع کی عدم موجودگی میں مگر ایک سیاسی انفراسٹرکچر کے ہوتے ہوئے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں اور آج وہ ایک مستحکم ممالک کی صفحوں میں موجود ہیں۔ جیسا کہ ملائشیاء، ترکی، سپین، جرمنی، جاپان، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سنگاپور، مالدیپ وغیرہ۔ مگر ایسے ملک جہاں پر مضبوط دفاع موجود تھا مگر سیاسی انفراسٹرکچر موجود نہ تھا یا موجود ہونے کے باوجود اسے غیر فعال کر دیا گیا تھا وہ ممالک اپنے وجود کو قائم نہ رکھ سکے۔ روس، عراق، ہٹلر کے دور کا جرمنی وغیرہ۔ روس تو ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی خود کو محض اس لئے نہ بچا سکا کہ کیمونزم کی وجہ سے وہاں پر سیاسی ڈھانچہ موجود نہ تھا۔ دوسری مثال آپ کے سامنے پیش ہے کہ عراق جیسا ملک جس پر صدام حسین نے دہائیوں تک حکومت کی مگر وہاں پر سیاسی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے خطے کی بہترین عراقی فوج ہونے کے باوجود اس ملک کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ جب کہ مصر میں حسنی مبارک جن انتخابات کے بل بوتے پر دہائیوں تک مصر پر حکومت کرتا رہا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر یہ بات قابل ذکر ہے کہ مصر میں ایک\” لنگڑا لولا \”ہی صحیح مگر سیاسی ڈھانچہ موجود تھا جس نے تحریر سکوائر پر عوام کے جم غفیر کو پر امن رکھا اور مصر کو عراق، شام یا لیبیا نہ بننے دیا حالانکہ لہر وہی تھی جو عرب میں چل چکی تھی اور اس کی زد میں عراق لیبیا اور شام جیسے ملک بعد میں آئے۔

انڈیا جیسے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے رجحانات میں اضافہ ہونے پر چند حلقے اسکے ٹوٹنے کی نوید سنا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا میں ایک مذہبی انتہاپسند شخص کی حکومت آچکی ہے۔ مگر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی بھی معاشرہ کو قائم رکھنے والے اساس سول سوسائٹی کی بیداری، سیاسی ڈھانچہ، آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ کے ہوتے ہوئے بھلا کوئی ملک کیسے ٹوٹ سکتا ہے؟ انڈین پارلیمنٹ کی سپر میسی پر کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے۔ انڈیا جیسا ملک جہاں پر مذہبی انتہا پسندی اور ذات پات جیسے معاملات بھی موجود ہیں کی بقاء کی ضمانت فوج نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہے جس میں موجود بھارتی سیاستدان جو کہ کرپشن اور غنڈہ گردی میں ملوث ہیں موجود ہیں۔
ایک اور اہم ترین مثال پیش خدمت ہے۔ افغانستان میں دنیا بھر کی مضبوط ترین فوجیں اس صدی کے آغاز میں اتاری گئیں جنہوں نے انواع اقسام کے مہلک ترین ہتھیار استعمال کر کے طالبان کی حکومت ختم کی اور لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک کیا جس کی قیمت ہم نے بھی چکائی۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ دنیا کی بہترین افواج اور مہلک ترین ہتھیاروں کے استعمال کے بعد افغانستان کو پر امن اورمستحکم ہو جانا چاہیئے تھا مگر ایسا کیوں نہیں ہوا۔ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ افغانستان کی سرزمین سیاسی ڈھانچہ مرتب نہ کر سکی جس کی وجہ سے آج غیر ملکی افواج کی موجودگی ہی افغانستان میں امن کی ضمانت ہے۔ اگر افغانستان میں سیاسی ڈھانچہ قائم ہو چکا ہوتا تو شاید غیر ملکی افواج اپنا کام ختم کر کے یہاں سے بوریا بستر لپیٹ چکی ہوتیں۔
دراصل ایک مخصوص مقصد کی خاطر ہمیں دن رات یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ مضبوط دفاع ہی پاکستان کی بقاء کی ضمانت ہے اور مثالیں دی جاتی ہیں لیبیا اور عراق کی اور جان بوجھ کر سیاسی انفراسٹرکچر کی افادیت کا سبق عوام الناس کو نہیں پڑھایا جاتا بلکہ الٹا سیاستدانوں کو کرپشن زدہ کہہ کر فوج کو ہی نجات دہندہ کا راگ الاپا جاتا ہے۔ اس کار خیر میں مخصوص لابی شامل ہے جو کہ حاضر سروس، ریٹائرڈ آرمی افسران، اینکرز، عوامی مینڈنٹ سے عاری سیاستدان اور چینل مالکان پر مشتمل ہے۔
ان سکالرز سے چھوٹی سے گستاخی کرنا چاہوں گا کہ 1965 کی جنگ میں بھارت جیسے بہت بڑے ملک کو شکست سے دو چار کرنے والے ملک میں آخر ایسا کیا ہوا کہ محض چھ سال بعد ہی ملک پاکستان ٹوٹ گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کے ٹوٹنے کی وجہ مضبوط دفاع ہونے کے باوجود سیاسی سٹرکچر کا مفلوج کر دیا جانا ہے؟
متذکرہ بالا حالات واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک یا معاشرہ کی بقاء کے لیئے سیاسی ڈھانچہ کا ہونا بہت ضروری ہے چاہے اس معاشرتی نظام میں کرپشن زدہ سیاستدان ہی موجود کیوں نہ ہوں۔ مگر ان کرپٹ سیاسی عناصر کا احتساب سویلین اداروں کے ذریعے ہی کیا جانا ضروی ہے چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہوں۔ آلودہ جمہوری سیٹ اپ کی یہ مشق دہرانے پر ہی ہم ایک آئیڈیل سیاسی سیٹ اپ اور ثمر آور جمہوری معاشرہ حاصل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments