سینیٹر حافظ حمدالله۔۔۔ جزاک الله


\"wajahat1\"جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر حافظ حمدالله نے ایوان بالا میں خواجہ سراؤں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ حافظ حمدالله نے کہا کہ خواجہ سرا پیدا ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔ خواجہ سرا بھی انسان ہیں، پاکستانی ہیں، آئین کے تحت جو حقوق عورت اور مرد کو حاصل ہیں وہی خواجہ سرا کو بھی حاصل ہیں۔ پاکستان کے لاکھوں خواجہ سراؤں کی تعلیم، تربیت اور تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ حافظ حمد الله کی انصاف پسندی، سیاسی بصیرت اور قانون دان کے طور پر مہارت کو سلام پیش کرنا چاہئے۔ حافظ حمداللہ نے اپنے بارے میں پائے جانے والے عمومی تاثر کے علی الرغم انسانی مساوات اور مساوی حقوق اور احترام انسانی کا پرچم بلند کیا ہے۔ جزاک الله!

چند مہینے قبل سینیٹر حافظ حمد اللہ معروف صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن محترمہ ماروی سرمد کے ساتھ ایک ٹی وی پروگرام کے دوران نازیبا تنازع میں الجھ گئے تھے۔ اس دوران حافظ صاحب کے جملوں پر سخت اعتراض اٹھا۔ پیمرا نے تادیب کی، رائے عامہ نے دو ٹوک انداز میں حافظ حمد الله کی مذمت کی۔ 22 نومبر 2016 کو حافظ صاحب نے سینٹ میں جو قابل تحسین موقف اختیار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ ٹیلی وژن پروگرام میں وہ فوری اشتعال سے مغلوب ہوکر کچھ ایسا رویہ اختیار کر گئے جو ان کا سوچا سمجھا موقف نہیں تھا۔ حافظ صاحب نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ خواجہ سرا پیدا ہونا جرم نہیں۔ بالکل اسی طرح عورت یا مرد پیدا ہونا بھی تعزیر کا درجہ نہیں۔ ہمارے ملک کے آئین کی شق 25 میں دو ٹوک اعلان کیا گیا ہے کہ صنف کی بنیاد پر کسی شہری کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ ہمارے دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق ہماری اخلاقی اقدار کی دستوری حدود بیان کرتے ہیں۔

پیدائش کے نتیجے میں ملنے والی شناخت میں صنف کے علاوہ مذہب کی شناخت بھی شامل ہے۔ آئین کا آرٹیکل 20 پاکستان کے ہر شہری کو عقیدے کی آزادی دیتا \"hamdullah\"ہے۔عقیدے کی اس آزادی میں کسی مذہب یا مسلک کی تفریق نہیں کی گئی۔ جس طرح انسان عورت، مرد یا خواجہ سرا پیدا ہونے کا شعوری فیصلہ نہیں کرتے اسی طرح کوئی انسان اپنے خاندان کی مذہبی شناخت کا فیصلہ بھی نہیں کرتا۔ سینیٹر حافظ حمد الله ایک مذہبی جماعت کے رہنما ہیں۔ یہ مذہبی جماعت مذہب کی تشریح میں ایک خاص نقطہ نظر رکھتی ہے۔ حافظ حمد الله اور ان کے رفقا کو مذہب کی اس تشریح کا مکمل حق حاصل ہے۔ بہت سے مسلمان حافظ حمدالله اور ان کی جماعت کے عقائد سے مختلف تشریح پر کاربند ہیں۔ مہذب انسانی معاشرے میں ہمیں یہ حق تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسان نہ صرف ایک ہی مذہب کے بارے میں مختلف تشریح کو درست سمجھنے کا حق رکھتے ہیں بلکہ بطور انسان مختلف مذاہب سے تعلق بھی رکھ سکتے ہیں۔ عقیدہ ایک انفرادی انسانی آزادی ہے۔ ہر انسان کو اپنے ضمیر کے روشنی میں عقیدہ اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کے عقیدے کو غلط قرار دے۔ صنف، عقیدے، زبان، رہن سہن اور سیاسی رائے کا اختلاف انسانی معاشرے کی حقیقت ہے۔ ان اختلافات کا احترام کرتے ہوئے سب شہریوں کو ایک جیسا تحفظ، ایک جیسے حقوق اور ایک جیسا رتبہ دینا تہذیب کا تقاضا ہے۔ اس سے رواداری اور امن کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔

خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اپنے جسمانی ساخت کا انتخاب خود نہیں کیا۔ انسانوں کا جنسی رجحان بھی ان کے شعوری انتخاب کا حصہ نہیں ہوتا۔ معاشرتی ارتقا کے ان مرحلوں میں جہاں نسل انسانی کا تحفظ بالا دست ترین قدر کی حیثیت رکھتا تھا حیاتیاتی تحدیدات کی بنیاد پر خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیاز کیا گیا۔ آج \"tansgender\"دنیا میں سات ارب سے زیادہ انسان بستے ہیں۔ حیاتیاتی اعتبار سے نسل انسانی کا تحفظ یقینی بنایا جا چکا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ خواجہ سراؤں کو انسانی معاشرے کا مکمل، مساوی اور محترم حصہ تسلیم نہ کیا جائے۔ انھیں روزگار، سیاسی شرکت اور معاشرتی اقدار میں برابر کا حصہ ملنا چاہئے۔ خواجہ سراؤں کی جسمانی خصوصیت ان کے ساتھ جنسی ناانصافی کا جواز نہیں ہے۔ سینیٹر حافظ حمد الله نے خواجہ سراؤں کے ضمن میں جو موقف اختیار کی ہے اس سے ہمارا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ رضا ربانی، حافظ حمد الله اور ان جیسے صائب الرائے قانون دانوں کی رہنمائی میں ہم ایک مہذب معاشرے کی طرف قدم بڑھائیں گے۔

حافظ حمد الله نے ایک قابل احترام خاتون کے بارے میں قابل اعتراض رویہ اختیار کیا تو ان پر کڑی تنقید کی گئی۔ انہوں نے معاشرے کے ایک پسے ہوئے، کمزور اور مظلوم طبقے کے بارے میں قابل تحسین موقف اختیار کیا ہے تو اس پر ان کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے۔ شکریہ سینیٹر حافظ حمد الله۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments