ماتمی جلسہ۔۔۔ منٹو کی ایک کہانی جو پرانی نہیں ہو گی


 رات رات میں یہ خبر شہر کے اس کونے تک پھیل گئی کہ اتا ترک کمال مر گیا۔ ریڈیو کی تھرتھراتی زبان سے یہ سنسنی پھیلانے والی خبر ایرانی ہوٹلوں میں سٹے بازوں نے سنی جو چائے کی پیالیاں سامنے رکھے آنے والے نمبر کے بارے میں قیاس دوڑا رہے تھے۔ اور وہ سب کچھ بھول کر کمال اتا ترک کی بڑائی میں گم ہو گئے۔

ہوٹل میں سفید پتھر والے میز کے پاس بیٹھے ہوئے ایک سٹوری نے اپنے ساتھی سے یہ خبر سن کر لرزاں آواز میں کہا۔’’ مصطفی کمال مر گیا!‘‘

اس کے ہاتھ سے چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی۔’’ کیا کہا مصطفی کمال مر گیا!‘‘

اس کے دونوں میں اتاترک کمال کے متعلق بات چیت شروع ہو گئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا۔’’ افسوس کی بات ہے، اب ہندوستان کا کیا ہو گا؟ میں نے سنا تھا یہ مصطفی کمال، یہاں حملہ کرنے والا ہے…. ہم آزاد ہو جاتے، مسلمان قوم آگے بڑھ جاتی…. افسوس، تقدیر کے ساتھ کسی کی پیش نہیں چلتی۔

دوسرے نے جب یہ بات سنی تو اس روئیں بدن پر چیونٹیوں کے مانند سر کنے لگے اس پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہو گئی۔ اس کے دل میں جو پہلا خیال آیا یہ تھا۔’’ مجھے کل جمعہ کی نماز شروع کر دینی چاہیے۔‘‘

اس خیال کو بعد میں اس نے مصطفی کمال پاشا کی شاندار مسلمانی اور بڑائی میں تحلیل کر دیا۔

بازار کی ایک تنگ گلی میں دو تین کوکین فروش کھاٹ پر بیٹھے، باتیں کر رہے تھے۔ ایک نے پان کی پیک بڑی صفائی سے بجلی کے کھمبے پر پھینکی اور کہا میں مانتا ہوں ، مصطفی کمال بہت بڑا آدمی تھا لیکن محمد علی بھی کسی سے کم نہیں تھا، یہاں بمبئی میں تین چار ہوٹلوں کا نام اسی پر رکھا گیا ہے۔‘‘

دوسرے نے جو اپنی ننگی پنڈلیوں پر سے ایک کھردرے چاقو سے میل اتارنے کی کوشش کر رہا تھا اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا۔’’ محمد علی کی موت پر بڑی شاندار ہڑتال ہوئی تھی….‘‘

’’ ہاں بھئی تو کل ہڑتال ہو رہی ہے کیا تیسرے نے ایک کی پسلیوں میں کہنی سے ٹہوکا دیا۔ اس نے جواب دیا کیوں نہ ہو گی ارے اتنا بڑا مسلمان مر جائے اور ہڑتال نہ ہو۔‘‘

یہ بات ایک راہ گیرنے سن لی۔ اس نے دوسرے چوک میں اپنے دوستوں سے کہی اور ایک گھنٹے میں ان سب لوگوں کو جو دن کو سونے اور رات کو بازاروں میں جاگتے رہنے کے عادی ہیں معلوم ہو گیا کہ صبح ہڑتال ہو رہی ہے۔

ابو قصائی رات کو دو بجے اپنی کھولی میں آیا۔ اس نے آتے ہی طاق پر سے بہت سی چیزوں کو ادھر ادھر پلٹ کرنے کے بعد ایک پڑیا نکالی اور ایک دیگچی میں پانی بھر کر اس کو اس میں ڈال کر گھولنا شروع کر دیا۔

اس کی بیوی جو دن بھر کی تھکی ماندی ایک کونے میں ٹاٹ، پر سو رہی تھی برتن کی رگڑ سن کر جاگ پڑی۔ اس نے لیٹے لیٹے کہا۔ ’’ آ گئے ہو؟‘‘

’’ ہاں آگیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر ابو نے اپنی قمیص اتار کر دیگچی میں ڈال دی اور اسے پانی کے اندر مسلنا شروع کر دیا۔

اس کی بیوی نے پوچھا۔’’ تم یہ کیا کر رہے ہو!‘‘ مصطفی کمال مرگیا ہے۔ کل ہڑتال ہو رہی ہے!‘‘ اس کی بیوی یہ سن کر گھبراہٹ کے مارے اٹھ کھڑی ہوئی۔’’ کیا مارا ماری ہو گی؟ میں تو ان ہر روز کے فسادوں سے تنگ آ گئی ہوں۔‘‘ وہ سر پکڑ کر رہ گئی۔ میں نے تجھ سے ہزار مرتبہ کہا ہے۔کہ تو’’ ہندوؤں کے اس محلے سے اپنا مکان بدل ڈال پر نہ جانے تو کب سنے گا!‘‘

ابو جواب میں ہنسنے لگا۔ اری پگلی…. یہ ہندو مسلمانوں کا فساد نہیں ہے۔مصطفی کمال مر گیا ہے …. وہی جو بہت بڑا آدمی تھا۔ کل اس کے سوگ میں ہڑتال ہو گی۔‘‘

’’ جانے میری بلا یہ بڑا آدمی کون ہے…. پر یہ تو کیا کر رہا ہے؟‘‘ بیوی نے پوچھا’’ سوتا کیوں نہیں ہے!‘‘ قمیص کو کالا رنگ دے رہا ہوں …. صبح ہی ہڑتال کرانے جانا ہے!‘‘ قمیص، یہ کہہ کر اس نے قمیص نچوڑ کر دو کیلوں کے ساتھ لٹکا دی جو دیوار میں گڑی ہوئی تھیں۔‘‘

دوسرے روز صبح کو سیاہ پوش مسلمانوں کی ٹولیاں کالے جھنڈے لئے بازاروں میں چکر لگا رہی تھیں۔ یہ سیاہ پوش مسلمان دوکانداروں کی دوکانیں بند کرا رہے تھے اور یہ نعرہ لگا رہے تھے۔’’ انقلاب زندہ باد۔انقلاب زندہ باد۔‘‘

ایک ہندو نے جو اپنی دوکان کھولنے کے لئے جا رہا تھا۔ یہ نعرے سنے اور نعرے لگانے والوں کو دیکھا تو چپ چاپ ٹرام میں بیٹھ کر وہاں سے کھسک گیا۔ دوسرے ہندو اور پارسی دوکانداروں نے جب مسلمانوں کے ایک گروہ کو چیختے چلاتے اور نعرے مارتے دیکھا تو انہوں نے جھٹ پٹ دو کانیں بند کر لیں۔

دس پندرہ سیاہ پوش گپیں ہانکتے ایک بازار سے گذر رہے تھے۔ ایک نے اپنے ساتھی سے کہا۔’’ دوست ہڑتال ہوئی تو خوب ہے، پر ویسی نہیں ہوئی، جیسی محمد علی کی ٹیم پر ہوئی تھی…. ٹرامیں تو اسی طرح چل رہی ہیں۔‘‘

اس ٹولی میں جو سب سے جوشیلا تھا۔ اور جس کے ہاتھ میں سیاہ جھنڈا تھا، تنگ کر بولا۔آج بھی نہیں چلیں گی!‘‘ یہ کہہ کر وہ اس ٹرا م کی طرف بڑھا جو لکڑی کے ایک شیڈ کے نیچے مسافروں کو اتار رہی تھی۔ ٹولی کے باقی آدمیوں نے اس کا ساتھ دیا اور ایک لمحہ کے اندر سب کے سب ٹرام کی سرخ گاڑی کے ارد گرد تھے۔ سب مسافر زبر دستی اتار دیئے گئے۔

’’ شام کو ایک وسیع میدان میں ماتمی جلسہ ہوا۔ شہر کے سب ہنگامہ پسند جمع تھے۔ خوانچہ فروش اور پان بیڑی والے چل پھر کر اپنا سودا بیچ رہے تھے۔ جلسہ گاہ کے باہر عارضی دوکانوں کے پاس ایک میلہ لگا ہوا تھا۔ چاٹ کے چنوں اور ابلے ہوئے آلوؤں کی خوب بکری ہو رہی تھی۔

جلسہ گاہ کے اندر اور باہر بہت بھیڑ تھی۔ کھوئے سے کھوا چھلتا تھا۔ اس ہجوم میں کئی آدمی ایسے بھی چل پھر رہے تھے۔ جو یہ معلوم کرنے کی کوشش میں تھے کہ اتنے آدمی کیوں جمع ہو رہے ہیں۔ ایک صاحب گلے میں دور بین لٹکائے ادھر ادھر چکر کاٹ رہے تھے دور سے اتنی بھیڑ دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ پہلوانوں کا دنگل ہو رہا ہے۔ وہ ابھی ابھی اپنے گھر سے نئی دور بین لے کر دوڑے دوڑے آ رہے تھے اور اس کا امتحان لینے کے لئے بیتاب ہو رہے تھے، میدان کے آہنی جنگلے کے پاس دو آدمی کھڑے آپس میں بات چیت کر رہے تھے اور ایک نے اپنے ساتھی سے کہا۔’ ’بھئی یہ مصطفی کمال تو واقعی کوئی بہت بڑا آدمی تھا…. میں جو صابن بنانے والا ہوں ، اس کا نام’’ کمال سوپ‘‘ رکھوں گا…. کیوں کیسا رہے گا؟‘‘

دوسرے نے جوا ب دیا’’ وہ بھی برا نہیں تھا۔‘‘ جو تم نے پہلے سوچا تھا۔’’ جناح سوپ…. یہ جناح مسلم لیگ کا بہت بڑا لیڈر ہے!‘‘

’’ نہیں نہیں کمال سوپ اچھا رہے گا…. بھائی مصطفی کمال اس سے بڑا آدمی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔’’ آؤ چلیں جلسہ شروع ہونے والا ہے۔‘‘وہ دونوں جلسہ گاہ کی طرف چل دئیے۔ جلسہ شروع ہوا۔

آغاز میں نظمیں گائی گئیں۔ جن میں مصطفی کمال کی بڑائی کا ذکر تھا، پھر ایک صاحب تقریر کرنے کے لئے اٹھے، آپ نے کمال اتا ترک کی عظمت بڑے بلند بانگ لفظوں میں بیان کرنا، شروع کی۔ حاضر ین جلسہ اس تقریر کو خاموشی سے سنتے رہے جب کبھی مقرر کے یہ الفاظ گونجتے۔’’ مصطفی کمال نے درہ_¿ دانیال سے انگریزوں کو لات مار کر باہر نکال دیا۔‘‘ یا ’’ کمال نے یونانی، بھیڑوں کو اسلامی خنجر سے ذبح کر ڈالا۔‘‘ تو اسلام زندہ باد کے نعروں سے کانپ کانپ اٹھتا۔‘‘

یہ نعرے مقرر کی قوت گویائی کو اور تیز کر دیتے اور وہ زیادہ جوش سے اتاترک کمال کی عظیم الشان، شخصیت پر روشنی ڈالنا شروع کر دیتا۔

مقرر کا ایک ایک لفظ حاضرین جلسہ کے دلوں میں ایک جوش و خروش پیدا کر رہا تھا۔

جب تک تاریخ میں گیلی پولی کا واقعہ موجود ہے، برطانیہ کی گردن ٹرکی کے سامنے خم رہے گی۔ صرف ٹرکی ہی ایک ایسا ملک ہے۔ جس نے برطانوی حکومت کا کامیاب مقابلہ کیا اور صرف مصطفی کمال ہی ایسا مسلمان ہے جس نے غازی صلاح الدین ایوبی کی سپاہیانہ عظمت کی یاد تازہ کی، اس نے بہ نوک شمشیر یورپی ممالک سے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ ٹرکی کو یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا۔ مگر کمال نے اسے صحت اور قوت بخش کر مرد آہن بنا دیا۔‘‘

’’ جب یہ الفاظ جلسہ گاہ میں بلند ہوئے تو’’ انقلاب زندہ باد، انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے پانچ منٹ تک متواتر بلند ہوتے رہے۔‘‘

اس سے مقرر کا جوش اور بڑھ گیا۔ اس نے اپنی آواز کو اور بلند کر کے کہنا شروع کیا۔’’ کمال کی عظمت مختصر الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ اس نے اپنے ملک کے لئے وہ خدمات سرانجام دی ہیں جن کو بیان کرنے کے لئے کافی وقت چاہئے…. اس نے ٹرکی میں جہالت کا دیوالہ نکال دیا۔ تعلیم عام کر دی تھی نئی روشنی کی شعاعوں کو پھیلایا۔ یہ سب کچھ اس نے تلوار کے زور سے کیا۔ اس نے دین کو جب علم سے علیحدہ کیا تو بہت سے قدامت پسندوں نے اس کی مخالفت کی۔ مگر وہ سر بازار پھانسی پر لٹکا دیئے گئے اس نے جب یہ فرمان جاری کیا کہ کوئی ترک رومی ٹوپی نہ پہنے تو بہت سے جاہل لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھا نا چاہی۔ مگر یہ آواز ان کے گلے ہی میں دبا دی گئی…. اس نے جب یہ حکم دیا کہ اذان ترکی زبان میں ہو تو بہت سے ملاؤں نے عدول حکمی کی مگر وہ قتل کر دیئے گئے….‘‘

’’یہ کفر بکتا ہے‘‘…. جلسہ گاہ میں ایک شخص کی آواز بلند ہوئی اور فوراً ہی سب لوگ مضطرب، ہو گئے۔

’ یہ کافر ہے…. جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ کے نعروں میں مقرر کی آواز گم ہو گئی۔ پیشتر اس کے کہ وہ اپنا ما فی الضمیر بیان کرتا اس کے ماتھے پر ایک پتھر لگا اور وہ چکرا کر اسٹیج پر گر پڑا۔ جلسہ میں بھگدڑ مچ گئی۔

…. اسٹیج پر مقرر کا ایک دوست اس کے ماتھے پر سے خون پونچھ رہا تھا….اور جلسہ گاہ ان نعروں سے گونج رہی تھی’’…. مصطفی کمال زندہ باد‘‘…. ’’ مصطفی کمال زندہ باد‘‘….’’مصطفی کمال زندہ باد۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments