چنوا اچیبے: وطن اور جلاوطنی (3)


\"nasirr چنوا اچیبے اپنے خطبات میں گہرے تجزیے اور فلسفیانہ انداز سے بالعموم گریز کرتے ہیں، تاہم کچھ باتوں کے سلسلے میں انہوں نے فلسفیانہ سوالات اٹھائے ہیں۔ مثلاً انفرادیت کے سلسلے میں۔ اچیبے کے لیے اگبو لوگوں کی انفرادیت کا مسئلہ پہلی سطح پر نوآبادیاتی پس منظر رکھتا ہے، مگر گہری سطح پر یہ اگبویت اور انسانی پہچان کا ایک فلسفیانہ سوال ہے۔ استعمار نے اگبو لوگوں پر ’نئی شناخت ‘ مسلط کی، جس نے انھیں حقیقی شناخت سے محروم(Dispossess) کیا۔ اچیبے اپنی قوم کی اصلی شناخت بحا ل کرنا چاہتے ہیں؛ نظری طور پراصلی شناخت منفرد بھی ہوگی۔ یہ منفرد شناخت ان کے ماضی کی کہانیوں، اساطیر اور تاریخ میں مضمر ہے اور ان کی عملی زندگی میں ممکنہ حد تک رواں دواں ہے۔ اسی مقام پر اگبو انفرادیت کے تصورمیں ایک فلسفیانہ جہت پیدا ہوتی ہے۔ اچیبے کہتے ہیں”[اگبو] فرد کسی جاری عمومی صنفی (جنرک) تخلیقیت کی پیدوار نہیں، بلکہ ایک خصوصی الوہی سرگرمی جو ایک مرتبہ اور حتمی طور پرہوتی ہے، کی پیداوار ہے۔ ایسے فرد کی قدرو قیمت کا اثبات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تخیل یکتائی کے راستے پر دور تک جا سکتا ہے۔ “یہاں ایک بار پھر ہمیں اچیبے ایک مشکل کا سامنا کرتے محسوس ہوتے ہیں جو مابعد نو آبادیاتی مطالعات کی عمومی مشکل ہے۔ اچیبے کی مخاطب مغربی دنیا ہے جس کے ایک حصے نے ان کی قومی شناخت سے متعلق طرح طرح کے سٹیریو ٹائپ تشکیل دیے، ا س لیے وہ ان کی زبان اور ان کا محاورہ اختیار کرنے سے باز نہیں رہ سکتے، مگر ساتھ ہی اس خطرے سے بھی مسلسل دو چار رہتے ہیں کہ کہیں ان کی زبان و محاورے میں قومی شناخت کی بحالی کا مقصداس طرح غائب نہ ہو جائے جس طرح اوپر کی کہانی میں مرغ غائب ہو گیا تھا۔ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ انفرادیت کا تصور محض مغربی نہیں، \"chinua-achebe3\"   جدید مغرب کا سب سے بڑا تفاخر بھی ہے۔ ہر تفاخر میں ایک نوع کی نرگسیت راہ پا جاتی ہے۔ چناں چہ مغرب جب غیر مغربی دنیا پر نظر ڈالتا ہے تواپنی اس نرگسیت پسندی کی وجہ سے اسے غیر مغربی دنیا انفرادیت سے خالی ہی نظرنہیں آتی، پس ماندہ، غیر جمہوری اور مطلق العنان بھی دکھائی دیتی ہے۔ اگبو لوگوں کی قبائلی شناخت میں یہی تصورات موجود تھے جن کی تصحیح اچیبے ضروری خیال کرتا ہے۔ اچیبے کے لیے مسئلہ افریقا سے متعلق یورپی بیانیوں کی تردیدو تنسیخ کا بھی ہے اورتصحیح کا بھی۔ لہٰذا وہ اگبو انفرادیت کو مغربی انفرادیت سے مختلف قرار دیتے ہیں۔ مغربی انفرادیت میں الوہی عنصر نہیں، وہ ایک ’جنرک ‘ قسم کی چیز ہے؛ ایک سماجی تشکیل ہے جب کہ اچیبے اگبو انفرادیت کو اس کی الوہیت ہی میں دریافت کرتے ہیں۔ اس کی اہم مثال ہر اگبو شخص کا ایک اپنے چی کا حامل ہونا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اچیبے ’الوہی انفرادیت ‘کے تصور کے ذریعے اپنی افریقی شناخت کو مغربی شناخت سے یک سر مختلف ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟اس سوال کا اثبات میں جواب دینا مشکل ہے۔

اچیبے جسے اگبویت یا اپنی قوم کی انفرادیت کے نام سے سامنے لاتے ہیں، وہ دراصل اپنی اساطیری تاریخ کی تعبیر ہے۔ یہ تعبیر حیرت انگیز طور پرژونگ کی فردیت کے تصور کے مماثل ہے۔ چی کا تصور بڑی حد تک ذات کے آرکی ٹائپ کے مماثل ہے۔ جس طرح ہر شخص کے اجتماعی لاشعور میں ذات کا آرکی ٹائپ موجودہے، اسی طرح ہر اگبو شخص کے پاس اس کا اپنا نجی دیوتا چی موجود ہے۔ اچیبے کا خیال ہے کہ اگبو لوگوں کے یہاں انفرادی آزادی کی لازمی ضرورت کا احساس ہوتا ہے، مگر عملاً کامل آزادی ممکن نہیں ہوتی۔ یہی کچھ فردیت کے مفہوم میں مضمرہے۔ بہ قول جیمز البرٹ ہال فردیت ”ایک ایسا عمل ہے جس میں ایک شخص اپنی حقیقی زندگی میں شعوری طور پر اپنی سائیکی کی مخفی انفراد ی صلاحیتوں کو سمجھنے اور ترقی دینے کی کوشش کرتا ہے۔ چوں کہ آرکی ٹائپل امکانات بے حد وسیع ہیں، اس لیے کوئی بھی فردیت کا عمل لازماً ناکام ہوتا ہے، اس سب کو حاصل کرنے میں جو داخلی طور پر ممکن ہے۔۔ اہم بات یہ نہیں کہ وہ کتنا کامیاب ہوا، بلکہ یہ کہ وہ اپنی گہری صلاحیتوں میں کس قدر سچا ہے، یعنی آیا وہ محض اپنی انا مرکزیت اور نرگسی رجحانات کی پیروی کر رہا ہے یا اجتماعی ثقافتی کردار کے ساتھ خود کو مشخص کر رہا \"achebe-nigeria\"ہے؟ “گویا صاف محسوس ہوتا ہے کہ اچیبے انفرادیت کے اسی تصور کی توثیق کر رہے ہیں جو ایک یورپی ماہرِ نفسیات نے پیش کیا۔ وہ ا س کے لیے اپنی اساطیر سے ضرور مدد لیتے ہیں(ژونگ نے بھی اساطیر ہی پر انحصار کیا)، مگر تعبیر کا طریقہ یورپی ہے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ مابعد نو آبادیاتی فکر یورپی معیارات سے مبارزت طلبی کے علی الرغم مقامی تصورات کوآفاقی یورپی تصورات کے ہم پلہ ثابت کرنے سے گریز اختیار نہیں کر سکتی؟ مابعد نو آبادیاتی مطالعات میں بعض مقامات ایسے آتے ہیں جہاں مغرب محبوب بھی ہوتا ہے اور رقیب بھی؛ اس سے لاگ، لگاﺅ اور رشک کے متنوع جذبات وابستہ ہوتے ہیں۔

چنوا اچیبے، یورپی استعمار کے مقابلے میں اگبو کی انفرادیت اجاگر کرنے کے لیے ایک اور نیم تاریخی قصے کا سہارا لیتے ہیں۔

میں نے سنا اوگڈی کے پڑوسی قصبات میں سے ایک قصبہ کافی عرصہ پہلے ہجرت کرکے آیا۔ اوگڈی سے درخواست کی کہ اسے وہاں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ ان دنوں کافی زمین تھی، اس لیے انھیں خوش آمدید کہا گیا۔ ان لوگوں نے دوسری درخواست کی جو زیادہ حیران کن تھی:انھیں بتایا جائے کہ اوگڈی کے خداﺅں کی پوجا کیسے کی جاتی ہے؟ (ان کے اپنے خداﺅں کے ساتھ کیا ہوا؟) اوگڈی کے لوگ پہلے حیران ہوئے۔ بالآخر فیصلہ ہو اکہ ایک آدمی جو آپ سے خدا طلب کرتا ہے، اس کی الم ناک کہانی ہوگی جس کی چھان بین مناسب نہیں۔ پس انھیں اوگڈی کے دو خدا دے دیے گئے۔ اودو اور اگ وگ وو۔ بس ایک شر ط کے ساتھ کہ اودوکو اودو کا بیٹا اور اگ وگ وو کو اس کی بیٹی کے طور پر مخاطب کیا جائے تاکہ کوئی الجھن پیدا نہ ہو۔

اچیبے اس کہانی سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے ”کہ اگبو لوگوں نے اپنے مذہبی اعتقادات مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی، حالاں کہ اس کی درخواست کی گئی۔ “ یہاں اچیبے \"chinua-achebe-and-nelson-ventures-africa\"ایک نئی قسم کی استعماریت کا تصور متعارف کرواتے ہیں:مذہبی استعماریت۔ نیز اس بات کو اگبو لوگوں کی انفرادیت اور امتیاز کے طور پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ ”اگبو لوگ مذہبی استعماریت کی نفسیات کا کوئی تصور نہیں رکھتے تھے۔ “مذہبی استعماریت کے ذریعے یورپی استعمار کاروں کی طرف طعن آمیز اشارہ ہے۔ وطن اور جلا وطنی میں انگریزوں کی مذہبی استعماریت کا زیادہ بیان نہیں، مگر بکھرتی دنیا میں اسے تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا نیم تاریخی قصے کے مقابل بکھرتی دنیا سے یہ اقتباس دیکھیے:

مسٹر براﺅن نے کہا:”کوئی دیوتا نہیں تم لکڑی کے ایک ٹکڑے کو تراشتے ہوجس طرح وہ پڑا ہے۔ “ (اس نے لکڑی کی کڑیوں کی طرف اشارہ کیا جس کے ساتھ آکونا خاندان کا تراشا ہوا “ آئی کنگا“ لٹک رہا تھا) ”تم اسے دیوتا کہتے ہو۔ لیکن اس کے باوجود یہ لکڑی کا ایک ٹکڑاہی ہے۔ “

آکونا بولا:”ہاں۔ بلاشبہ یہ لکڑی کا ایک ٹکڑا ہی ہے، لیکن وہ درخت جس سے یہ نکلا ہے، اسے چک وو نے ہی دیگر دیوتاﺅں کی مانند تخلیق کیا تھا، لیکن اس نے انھیں اپنے پیغام بروں کی حیثیت سے بنایا تھا تا کہ ہم ان کی وساطت سے اس تک پہنچ سکیں۔ اب اپنی مثال لے لو۔ تم اپنے گرجا کے سربراہ اعلیٰ ہو۔ “

مندرجہ بالا قصے اور ناول کے اس مختصر اقتباس کے تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ پس ماندہ، غریب افریقی دوسروں کو اپنے خدا دیتے ہوئے یہ احتیاط برتتے تھے کہ \"hings-fall-apart\"کہیں ان کے خداﺅں کو کسی المنا ک صورت سے دوچار لوگوں پر تسلط حاصل نہ ہوجائے۔ نیزچاہتے تھے کہ دونوں کے خداﺅں کی انفرادیت اور فرق قائم رہے، مگر یورپیوں نے انھی غریب افریقیوں کے دیوتاﺅں کو برا بھلا کہا اور ان کے اندر گناہ گار ہونے کا احساس پیدا کیا۔ اس سارے عمل میں حد درجہ کی مضحکہ خیزی یہ تھی کہ افریقیوں کے گناہ گار ہونے کا احساس انھی کی دیوتاﺅں خداﺅں کے ذریعے پیدا کیا گیا۔ یہاں عیسائی مشنریوں کی اپنے عقائد کے سلسلے میں نیک نیتی سے بحث نہیں، بس یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عیسائی مشنری، اسی استعماری نظام کے افریقا میں نفاذ کی کوششوں کا ساتھ دے رہے تھے، جس نے افریقا کو نئی تعلیم، نیا آئین اور نئی حکومت دی۔ تبدیلیِ مذہب کی مساعی، سیاسی و معاشی استعماریت کے ہم رکاب چلی اور اسی وجہ سے تبدیلیِ مذہب بھی ایک قسم کی استعماریت میں بدل گئی۔ یہاں بین السطور اچیبے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ حقیقت میں مہذب کون؟دوسروں کی انفرادیت کا تحفظ کرنے والے یا اسے ملیا میٹ کرنے والے؟نیز اچیبے اس طرف توجہ بھی دلاتے ہیں کہ افریقی کیوں کر غلام بنے۔ دوسروں کی انفرادیت کے تحفظ کا جذبہ انھیں ایک قسم کی انفعالیت سے ہم کنار کرتا تھا؛ ہر چند یہ انفعالیت انھیں دوسروں پر تسلط کی خواہش سے آزاد رکھتی تھی، مگر زیرتسلط آنے کا سامان بھی کرتی تھی۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments