ترک بھائی ہیں مگر کیا ہم واقعی بخشو ہیں؟


\"Shahid
ہم نے اپنے دوست و بھائی کو تحفہ دے دیا ہے۔ اور ایک عام پاکستانی کو اس تحفے پہ ہرگز بھی کوئی اعتراض نہیں ہے کیوں کہ بھائیوں کے بہت مان ہوتے ہیں۔ بھائیوں کو بہت فخر ہوتا ہے اپنے بھائیوں پہ، مگر اس کے ساتھ ہی ہم نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ نہ تو ہماری کوئی خارجہ پالیسی ہے نہ ہی ہم کسی مضبوط داخلہ پالیسی پہ کاربند ہیں۔ ہم نہ ہی کسی طویل مدتی منصوبے پہ کام کر رہے ہیں نہ ہی کسی مختصر مدت کے لائحہ عمل کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم دوسروں کے کہے پہ سر تسلیم خم کرنے میں ماہر ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی کوئی ہمیں دوستی یاری میں ہم سے نہ جانے کیا کیا منوا لیتا ہے۔ اور کبھی زور زبردستی سے ہمیں وہ کچھ کرنے پہ مجبور کر دیا جاتا ہے جو چاہے ہمارے مفاد میں ہو یا نہیں مگر کرنا ہمیں ضرور ہوتا ہے۔

ایک عام پاکستانی کے نزدیک بھی پاکستان کی سالمیت، خود مختاری اور مفاد باقی تمام دنیا سے مقدم ہے مگر پاکستان کا مفاد صرف پاکستان کی حکومت و عوام ہی بہتر بتا سکتے ہیں نہ کہ ہمارا قریب سے قریب بھی کوئی دوسرا دوست ملک یا کوئی عام ملک۔ بادی النظر میں کوئی اعتراض نہیں کہ 100 سے زائد ترک اساتذہ اور ان کے خاندان کو جو ملک بدر کیا گیا ہے وہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ چند لوگوں کی خاطر ایک برادر اسلامی ملک سے تعلقات کو داؤ پہ نئی لگایا جا سکتا تھا۔ مگر اعتراض صرف اس سلوک پر ہے جو ان محترم اساتذہ کے ساتھ روا رکھا گیا جیسے وہ خدانخواستہ کوئی عادی مجرم ہوں کہ انہیں بمشکل تین دن کی مہلت دی گئی۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر ہم ایک برادر اسلامی ملک کے کہنے پر اپنے ملک میں ایک بہترین تعلیمی نظام میں سے اساتذہ کو نکالنے پہ بھی راضی تھے تو کیا برادر اسلامی ملک کے لیے ہم برادر نہیں ہیں جسے وہ ایک ماہ تک دینے پہ تیار نہیں تھا؟

ہم تالی ایک ہی ہاتھ سے بجانے پہ کیوں مصر ہیں؟ کیوں شک نہیں کہ برادر اسلامی ملک نہ صرف ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے بلکہ اسلامی دنیا کا بھی اہم ترین ملک ہے لیکن کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کر سکتے تھے کہ حضور اگر آپ اجازت دیں تو ہم ان اساتذہ کی بے دخلی کے حوالے سے جو کیس ہے اس کا انتظار کر لیں۔ یا پھر کم از کم اتنی مہلت تو دے دیجئے کہ اس تعلیمی نظام کے تحت جو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا تعلیمی سال تو مکمل ہو جائے تا کہ ان کی پڑھائی کا حرج نہ ہو سکے۔ لیکن ہم ایسا کیوں کرتے، ہم سوال کیوں کرتے، ہمیں تو سوال پوچھنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ ہم نے تو فوری تحفہ دینا تھا۔ ہم نے تو دو دنوں کی میزبانی کرنی تھی تو ظاہری سی بات ہے کچھ کر کے دکھانا تھا کہ دیکھیے جناب آپ سے بڑھ کر تو ہمیں ہمارے ملک کی تعلیم بھی نہیں ہے۔

ہم نے اتنی عجلت میں یہ قدم اٹھایا ہے کہ یہ تک نہیں سوچا کہ کل کلاں اگر ٹرمپ پاکستان میں چلنے والے امریکی سکولوں کو بین کر دیں تو کیا ہم ان سکولوں میں اکا دکا کام کرنے والا غیر ملکی سٹاف بھی ایسے ہی عجلت میں نکال باہر کریں گے۔ اور کیا انٹرنیشنل سکول آف اسلام آباد سے بھی اسی طرح غیر ملکی سٹاف کو جانے کے لیے تین دن ہی دیں گے؟ اور کل کلاں کو امریکہ میں کوئی ہنگامی صورت حال ہوئی تو کیا ہم کراچی امریکن سکول کے غیر ملکی سٹاف پہ بھی ایسی ہی قدغن لگائیں گے بناء سوچے کہ وہ ہمارے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں؟ کل کلاں بیک ہاؤس سکول سسٹم سے کوئی غیر ملکی وابستہ ہوں تو کیا ہم ان کو بھی اسی طرح مجرموں کی طرح دھکیل پائیں گے؟

اسی طرح اور بہت سے غیر ملکی تعلیمی ادارے پاکستان میں کام کر رہے ہیں جو اے اور او لیول کے تعلیمی نصاب کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے غیر ملکی اساتذہ پہ انحصار کر رہے ہیں اللہ نہ کرئے کل کلاں کو ان کے متعلقہ ممالک میں کسی قسم کی ہنگامی حالت نافذ ہو جاتی ہے تو کیا ہم ایسا ہی کریں گے؟ کیا ہم ایسے ہی اپنے پہلے سے ہی ابتر حالت میں موجود تعلیمی نظام کو مزید ابتری کی طرف دھکیل دیں گے؟ بات صرف سو اساتذہ کی نہیں ہے بلکہ ہماری بہبود میں شامل کسی بھی غیر ملکی کے لیے احساس تحفظ کی ہے۔ اگر ہم دوستیاں نبھانے میں اتنے ہی مخلص رہے کہ ہمارے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے غیر ملکیوں کو ہم تین دن میں مجرموں کی طرح ملک سے بے دخل کرنے کی روایت اپنا لیں تو وہ وقت دور نہیں کہ کوئی غیر ملکی ہماری فلاح کے لیے بھی یہاں آنے کا نام نہیں لے گا۔ خدارا بے شک دوستیاں بھی نبھائیں مگر اپنا ملکی مفاد مقدم جانیں کیوں کہ آپ کی شناخت آپ کے دوست نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ بے شک بھائی چارہ قائم کریں۔ مگر اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ نا \”جناب آپ ہمارے بھائی ہیں، مگر ہم ایک آزاد مملکت بھی ہیں اور فیصلہ کرنے سے پہلے ملکی سطح پر مشورہ و رائے بھی ضرور کریں گے\”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments