دو صالحین اور ان کے قانون گو


\"Sheraz

مجھے یاد ہے کہ جب سورج کی پہلی کرن آپ کے کمرے کی جانب راستہ تلاش کرتی تو آپ بذات خود پردہ ہٹا کر اسے راستہ دیتے۔ آپ کبھی راستوں میں مخل نہ ہوتے راستے بنانا آپ کا شوق ہو نہ ہو راستہ دینا آپ کا جنون ہے، ہم نے آپ کو کبھی نماز فجر قضا کرتے نہیں دیکھا، آپ کا وضو تہجد سے لے کر عشاء تک قائم رہنا کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ برگزیدہ ترین صالحین کی اول صف میں سے ہیں؟ صبح جب کرن اپنا راستہ بنا کر کمرے میں داخل ہوتی تو مجھے یاد ہے کہ ”صف دوم صالحین“ سے مجھے پکارا جاتا۔ ’صالح‘ میری لبیک پر آپ کہتے کہ ”تم آج کل سوتے کیوں نئیں! “ (نیند آج کل پوری نہیں ہوتی میری پریشانی میں رات بھر گریہ و زاری کرتے ہو تم ایسا مت کیا کرو)۔

میں حیران ہوتا کہ میاں صاحب کو کیسے اور کیونکر معلوم ہو جاتا ہے کہ میں گریہ و زاری کرتا ہوں جبکہ میں تو ان کے سونے کے بعد سے جاگنے تک گریہ بند کر دیتا ہوں۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا جب سرکار نے میرے غم غلط کرنے (جو مجھے لگا) کی خاطر مجھے اٹھایا اور کہا ’صالح اٹھو‘۔ جب گریہ کا ذکر آیا تو پھر میری وہی حالت کہ ماجرا کیا ہے؟ پہلے مجھے لگا کہ سرکار صالحین کی صف میں سے ہیں اسی لیے خود ہی معلوم ہوجاتا ہوگا۔ دل میں ایک عجیب سا احساس جنم لیتا۔ آج بالآخر میں نے سوچا کہ کیوں نہ معلوم کر ہی لیا جائے۔ میں نے کل ہمت اکٹھی کی اور سوال گوش گزار کیا، ”کیسے آپ کیسے جان جاتے ہیں سرکار؟ کیسے؟ یہ الہام ہے یا خدائی رحمت؟ خدارا بتائیے“ سرکار نے میری جانب دیکھا، پھر دوبارہ میری جانب دیکھا، پھر مجھے غور سے دیکھا اور جانے خدا زیر لب کیا کہا! لیکن جو باآواز بلند کہا، اس نے میرے طوطے اڑا دیے (لہجہ اونچا تھا تو میرے پاس جو دو طوطے تھے، دونوں ہی اڑ گئے) سرکار فرمانے لگے ”انھی دیا اپنا رونا دھونا بند رکھی کر کیسا تیرا سومالیہ دے سستے نشئی ارگا منہ اے۔ سونا حرام کر رکھا ہے“۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ سرکار آج حالت جذب میں ہیں۔ بس پھر کیا تھا، بقول غالب ”گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا“ کے مصداق میں نے قدم بوسی کی اجازت چاہی اور نکلنے لگا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ سرکار کی وجدانی کیفیات میں میری وجہ سے خلل پڑے!

بھلا ہو چھوٹے میاں صاحب کا جن کی زیارت بھی ساتھ یوں ہوئی کہ آپ علی الصبح غالبا نماز و سیر سے لوٹ رہے تھے۔ آپ نے جونہی مجھے دیکھا ٹھہر گئے۔ میں قریب گیا آپ نے مجھے دیکھا اور دوبارہ دیکھا۔ پھر کیا تھا ایک بار اور دیکھتے ہوئے زیر لب کچھ کہا اور باآواز بلند ”انھی دا“ کہتے ہوئے چل دیے! سو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ سرکار بھی حال کھیل رہے ہیں اور حالت جذب میں ڈوبے ہیں!

میں بے حد حیران ہوتا ہوں کہ ایسے دو صالحین کے ہوتے ہوئے بھی نیا آرمی چیف آرمی ہی سے تلاش کیا جا رہا ہے، حالانکہ اپنے چچا نون ممنون بھی کہہ رہے تھے کہ ”قانونگو مل کر گنجائش نکال ہی لیں گے بیک وقت دو عہدوں کی“۔

صالح حاضر
بقلم سوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments