پرائیویٹ سکولز، فن فیئرز اور کارِ سرکار


\"salimبنیادی سوال یہ ہے کہ ملک میں پرائیوٹ سکولز کھولنے کی اجازت کیوں دی گئی بلکہ اس کی ضرورت ہی کیوں پڑی ہے؟

اپنے شہریوں کو تعلیم و صحت کے یکساں مواقع فراہم کرنا، کسی بھی حکومت کا اولیں فریضہ ہے۔ ملک میں پرائیویٹ ہسپتالوں کے لئے کچھ گنجائش نکل سکتی ہے کہ اس کا معاملہ بچوں کی تعلیم سے جدا ہے۔ ہسپتال کی ضرورت ایمرجنسی میں پڑسکتی ہے جب کہ بچے کی تعلیم میں ایسی کوئی ایمرجنسی نہیں ہوتی بلکہ اس کی پیدائش کے وقت سے ہی والدین اس کی تعلیمی منصوبہ بندی شروع کردیا کرتے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتال کی ضرورت یوں بھی ہے کہ آج کل کے گوناگوں امراض اور پیچیدہ طریقہ ہائے علاج کی بنا پر حکومت کے پاس ملک بھر میں یکساں نظام صحت مہیا کرنے کے وسائل میسر نہیں ہوسکتے۔ لیکن بچوں کی تعلیم کا یکساں نصاب و نظام مہیا کرنے میں بہرحال کوئی خاص مانع درپیش نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ حکومت کے اپنے بس کی چیز ہے۔

تو آخر پرائیوٹ سکولوں کے قیام کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ آبادی بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں سرکاری عمارتی گنجائش کم پڑ گئی اور نئی عمارات کے لئے بجٹ نہیں ہوتا۔ لیکن ہر سال، ہر صوبہ میں زورو شور سے نئی داخلہ مہم شروع کی جاتی ہے جس میں عوام سے منت سماجت کی جاتی ہے کہ بچوں کو سرکاری سکول میں ضرور داخل کروائیں۔ دوسری طرف رنگا رنگ پرائیوٹ سکولوں میں ایک ایک کلاس میں 40، 45 بچے ہوتے ہیں پھر بھی نئے داخلوں کا رش لگا ہوتا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اصل مسئلہ عمارتی گنجائش کا نہیں بلکہ سرکاری سکولوں کے معیار کا ہے جس میں لوگ بچے داخل کرانا ہی نہیں چاہتے۔۔ کیا پرائیویٹ سکولوں میں زیادہ اچھی تعلیم مہیا کی جاتی ہے؟ نتائج اس کی نفی کرتے ہیں۔ مگر یہ الگ موضوع ہے –

فی الحال، اس سوال کو سوال ہی رہنے دیں کہ حکومت کو ایسی کیا مجبوری آ پڑی کی ایک ہی شہر میں بغیر کسی حدود وقیود کے دھڑادھڑ پرائیوٹ سکولز کے قیام کی نہ صرف اجازت دیتی ہے بلکہ حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

اب ہمارا دوسرا سوال یہ ہے کہ جب حکومتی سکولوں کا نصاب، گریڈ 20 کے تجربہ کار ماہرین تعلیم نے ترتیب دیا ہوا ہے تو پرائیوٹ سکول وہی نصاب کیوں نہیں پڑھاتے؟ آخر کیوں ان کو رنگ برنگی، دیسی بدیسی کتابیں، اپنے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت پڑجاتی ہے؟

اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت کو چونکہ ایک پرائیوٹ سکول کی رجسٹریشن فیس وصولنے سے ہی غرض ہے، اس کے علاوہ حکومت کو اس دکان کی سیل اور کسٹمرز سے کوئی علاقہ نہیں تو پرائیوٹ سکول مالکان نے اپنے اخراجات وصولنے، منافع کمانےاور مارکیٹ میں تجارتی مقابلہ بازی کی خاطر، منفرد یونیفارمز، مہنگی کتب اور انوکھی مدات میں فیسز (سیکیورٹی فیس وغیرہ) وصول کرنے کا پاکھنڈ رچایا ہوا ہے۔ جب خود والدین کو اس سے غرض نہیں کہ سکول میں \”چراغ دین اینڈ سنز\” جیسوں کی طبع کردہ، چار رنگی نصابی کتب سے بچوں کی کیا ذہنیت بنانا مقصود ہے؟ تو ہمارے سرکاری بابو بھلا کیوں اس پہ مغزماری کریں؟

چلیں، پرائیوٹ سکولوں کی مہنگی کتب اور یونیفارم وغیرہ کی کوئی نہ کوئی توجیہہ دی جاسکتی ہے مگر ان سکولوں میں فن فیئر کے نام سے گاہے بگاہے سوشل تقریبات کا انعقاد اور اس بہانے والدین کی جیبیں ہلکا کرنے کا کیا مقصد یا جواز ہے؟

مجھے سکولوں میں غیر نصابی سرگرمیوں پہ اعتراض نہیں بلکہ کسی حد تک ان کا موید ہوں۔ ہم جب ٹاٹ سکولوں میں پڑھا کرتے تھے تو بزم ادب کا ایک پیریڈ ہوا کرتا تھا جس میں بیت بازی وغیرہ ہواکرتی تھی۔ ( انہی ٹاٹ سکولوں سے ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر قدیر، فیض احمد فیض وغیرہ تیار ہوئے ہیں۔ جبکہ ایچی سن ادارے سے عمران خان، چوہدری نثار اور ایازصادق کی موجودہ مثلث برآمد ہوئی ہے)۔ پھر جب ہم کیڈٹ کالج میں پہنچے تو انٹر ہاوس کوئز کمپٹیشن ہوتا تھا جس کی ٹرافی وغیرہ ملا کرتی۔ ایسی سرگرمیوں کی علمی افادیت سے کون منکر ہوسکتا ہے؟

آج کل سوشل میڈیا پہ فن فیئر کے نام سے سکولوں میں ڈانسنگ پارٹی وغیرہ کے کلپ شیئر ہوتے ہیں۔ میری ذاتی ناپسندیگی کے باوجود، میں اسے متعلقہ طلبہ اور ان کے والدین کا ذاتی مسئلہ سمجھتا ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ سرکاری سکولوں کے پاس کنالوں پر محیط گراونڈز موجود ہوتے ہیں جہاں فٹبال، کرکٹ وغیرہ جیسی کھلی صحت افزا سرگرمیاں برپا ہوسکتی ہیں جب کہ پانچ مرلہ بلڈنگ میں قائم، نرسری تاکالج لیول پرائیویٹ ادارے میں، غیر نصابی سرگرمی کے نام پر فقط ڈانس کا ہی آئٹم منعقد ہوسکتا ہے کہ وہاں دس فٹ سٹیج کی جگہ بھی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے چہ جائیکہ گراونڈ وغیرہ۔ پرائیوٹ اداروں میں فن فئیرز کے نام پر اگر ڈانس پارٹی منعقد ہو تو علمی طور پر مفید نہ سہی مگر بہرحال یہ بے ضرر سا شغل میلہ ہے۔ مخلوط یا غیر مخلوط تعلیمی ادارے سرے سے میرا مسئلہ ہی نہیں ہیں۔

میں صرف اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ کہیں فن فیئرز کے نام سے سوسائٹی کے لئے افادیت کی بجائے، مضرت کو فروغ نہ مل رہا ہو۔

گذشتہ ہفتہ، پنڈی کے ایک پوش علاقے میں پرائیوٹ سکولز کی ایک معروف چین کی ایک شاخ میں فن فیئر کا انعقاد ہوا۔ ایسے ناٹک طلبہ سے پیسہ بٹورنے کے لئے کھیلے جاتے ہیں۔ میرے بیٹے نے بڑی خوشی سے فن فیئر کی \”کارگذاری\” سنائی۔

بتاتا ہے کہ سکول کے کونے میں ایک جگہ کو زنجیر لگا کر\”جیل\” قرار دیا گیا۔ اب کھیل یوں ہے کہ آپ کسی کلاس فیلو کو گرفتار کرانا چاہیں تو 100 روپے ادا کریں۔ جس کے بعد محترم پی ٹی صاحب (فزیکل ٹرینر صاحب)، مذکورہ طالبعلم کو ہانکتے ہوئے جیل لے جاتے ہیں۔ اب اس طالبعلم کو جیل سے رہا کرانے کیلئے، اس کے دوست 100 روپے مزید ادا کرتے ہیں جس پر اس کو رہائی ملتی ہے۔ ٹیچر کو جیل بجھوانے اور رہا کرانے کے لئے 1000 روپے رکھے گئے۔ سکول کی میڈم کو جیل کرانے اور چھڑانے پر 4000 روپے تھے۔ بیٹا بتاتا ہے کہ میڈم کو تین بار جیل کرایا گیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میڈم اس ناٹک میں پوری طرح شریک ہوگی جو خود کو تین بار جیل کرانے اور چھڑانے پر طلبہ کی جیبوں سے 24000 روپے اینٹھ چکی ہوگی۔ یوں ہنسی مذاق میں سکول والوں نے صرف ایک دن میں والدین سے ہزاروں روپے بٹور روپے لئے۔

سوال یہ ہے کہ بے مقصد ایک دوسرے کی جیبیں کاٹنا تو چلو اب ہمارا قومی شعار ٹھہرا مگر کیا بچوں کو بدتہذیبی سکھانے کی فیس الگ سے دینا ہوگی؟

اب مجھ کم فہم کے نزدیک، پیسے دے کر کسی کو جیل کرانا اور چھڑانا، بچوں کے لئے کوئی اچھی ذہن سازی نہیں ہے تاہم اگر کوئی صاحب فہم، مجھے سمجھا سکیں کہ اس ناٹک سے طلبہ کی کیا تربیت مقصود تھی تو میں اپنی \” پینڈوانا\” سوچ پہ استغفار کرلوں۔

بہرحال، میں محترم قارئین کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ان کو اس بڑھتے ہوئے ناسور کی سنگینی کا احساس ہے تو اس مسئلے کا حل سوچنے میں اپنی ذہنی صلاحیت بروئے کار لائیں۔ پرائیوٹ تعلیمی ادارے اتنی بڑی تعداد میں کھل گئے ہیں کہ ان کو یک قلم موقوف کرنا بھی ایک بڑا معاشی مسئلہ ثابت ہوگا۔ مجھے اعتراف ہے کہ بہت سوچنے کے باوجود، میں کلی طور پر اس کا کوئی بہتر حل تلاش نہیں کرسکا تاہم، ماضی قریب میں میرے صوبے کی حکومتوں نے اس معاملے میں جو پالیسیاں بنائیں، ان کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ (اس لئے کہ خیبر پختونخوا کومختلف منصوبہ جات کے لئے ٹسٹنگ لیبارٹری قرار دیا گیا ہے)۔

عمران خان نے صوبے میں یکساں نظام تعلیم نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ غالباً جلد ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ یکلخت یہ اقدام بوجوہ ممکن نہیں۔ لہذا، تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے متبادل حکمت عملی سوچی کہ سرکاری سکولوں کا معیار بلند کردیا جائے تاکہ پرائیوٹ تعلیمی دکانداری کی خود بخود حوصلہ شکنی ہو۔ اس کے لئے تحریک انصاف نے تین بنیادوں پہ کام شروع کیا۔ ایک تو نئےاساتذہ کی تعیناتی اور پرانے اساتذہ کی ترقی میں میرٹ کو مدنظر رکھا گیا جس کے لئے این ٹی ایس کا ٹول استعمال کیا گیا۔ بلاشبہ، کئی حقداروں کو ان کا جائز حق ملا۔ دوسرے، موجود اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ، ان کے تبادلوں میں سیاسی دخل اندازی ختم کی گئی۔ اس کے لئے مانیٹرنگ ٹیمز تشکیل دی گئیں۔ یہ اقدام، شروع میں بہت بہتر رہا مگر اب، ہمارے قومی مزاج کے مطابق، وہی پرانی روش در آئی ہے۔ بہرحال، اس اسٹریٹجی کی بنیاد نیک نیتی پر تھی۔ تحریک انصاف کا تیسرا منصوبہ یہ تھا کہ باہر سے پیسہ لاکر، سرکاری سکولوں کا انفرا سٹرکچر تبدیل کیا جائے۔ چونکہ پیسہ باہر سے آئےگا تو نقشہ سازی سے عمارت سازی تک، بیرونی کنسلٹنٹ ہی نگرانی کریں گے اور خورد برد کم ہوگی۔ مگرخرانٹ بیوروکریسی، اپنے منہ کا نوالہ کسی اور کے حلق میں کیوںکر جانے دیتی؟ پس یہ منصوبہ سرخ فیتہ کی نظر ہوگیا اور یوں تحریک انصاف، جہاں سے چلی تھی وہیں آکھڑی ہوئی۔

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایم ایم اے دور کی تعلیمی سٹریٹیجی بہت اچھی تھی حالانکہ اس وقت صوبوں کو اسقدر آئینی اختیارات حاصل نہیں تھے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد حاصل ہوئے۔ اس دور کے صوبائی وزیر تعلیم نے یہ پالیسی بنائی تھی کہ دور دراز کے وہ علاقے جہاں پہ سکول بنانے اور چلانے کے لئے صوبائی بجٹ متحمل نہیں ہوسکتا تھا، ان علاقوں میں پہلے سے موجود پرائیوٹ پبلک سکول سے صوبائی حکومت ایک معاہدہ کرتی تھی۔ اس معاہدے کی رو سے، ان کی بلڈنگ میں مثلاً دو مزید کلاس رومز حکومت تعمیر کرتی اور دو مزید اساتذہ کی تنخواہ حکومت دیتی۔ اس کے بدلے، حکومت اس سکول کو ایک مقررہ حد سے زیادہ فیس نہ لینے کی پابند رکھتی۔ یوں سکول کو بھی فائدہ تھا اور والدین کو بھی۔

ان کے بعد عوامی نیشنل پارٹی نے صوبے کے سرکاری سکولوں اور تعلیمی میعار کو بلند کرنےکے لئے دل وجان سے کوشش کی اور محدود بجٹ میں کئی نئے ادارے کھولے مگر اس زمانے میں دہشتگردی کا ناسور جڑ پکڑ چکا تھا اور صوبے کے سکولوں کو بموں سے اڑایا جا رہا تھا پس، کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔

راقم کی تمنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے تینوں وزارئے تعلیم، یعنی جمیعت علماء اسلام کے مولانا فضل علی حقانی، اے این پی کے حسین بابک اور موجودہ وزیر تعلیم عاطف خان مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا ایسا معقول حل سوچیں جو سارے پاکستان کے لئے ایک نمونہ بن سکے۔ اس لئے کہ مذکورہ تینوں شخصیات جو کہ اس موضوع سے ذاتی طور پر عہدہ برآ ہوچکے ہیں، نہ صرف زمینی حقائق کا درست ادراک رکھتے ہیں بلکہ بیوروکریسی کے ہتھکنڈوں اور عوام کی بے بسی سے بھی کماحقہ واقف ہیں۔ ان کو باہم مشورہ کرنا چاہئے کہ \”گھر تو آخر اپنا ہے\”۔ اہل الرائے کے مشورے سے ہمیشہ خیر ہی وجود میں آتی ہے۔

غالباً اس اعادے کی ضرورت نہیں کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کا مسئلہ، پاکستان کے بنیادی مسائل میں سرفہرست شمار ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments