قومی وقار سائنسی ترقی پر منحصر ہے


محمد نعمان کاکا خیل


\"muhammad-nauman\" طبیعات(فزکس)کے 2016 کے نوبل انعام کے اعلان کے بعد نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کے ساتھ نوبل کمیٹی کے میڈیا سیکرٹری ایڈم سمتھ نے رابطے شروع کر دئے۔ اس سال کا نوبل انعام کا سہرا تین افراد (ڈیوڈ جے تھاؤلس، مائیکل کاسٹرلٹز اور ایم ڈنکن ایچ ہالڈین) کے سر چڑھا اور تینوں افراد برطانیہ کے پیدائشی اور امریکہ کے رہائشی ہیں جو امریکہ کے تین بڑے تعلیمی اداروں واشنگٹن یونیورسٹی، براؤن یونیورسٹی اور پرنسٹن یونیورسٹی میں بالترتیب طبیعات کے معلمین و محققین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان حضرات کی سادگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ پروفیسر مائیکل کاسٹرلٹز کے ساتھ جب ٹیلیفون کے ذریعہ رابطہ کیا گیا تو اس وقت وہ ایک کار پارکنگ کے اندر موجود تھے اور نوبل انعام کے فاتحین کی فہرست کے اندر اپنے نام کی موجودگی اور انتخاب سے بے خبر تھے جب کہ خوشخبری ملنے پر انہوں نے انتہائی خوشی اور مسرت کا اظہار بھی کیا۔
اسی طرح پچھلے دنوں کوریا کے اندر طبیعات کے سالانہ کانفرنس کے انعقاد کے دوران ابتدائی کلمات کے لئے 2015 کے جاپان کے نوبل انعام یافتہ سائنس دان پروفیسر تکاکی کیجیتا (Profesor Takaki Kajita) کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کے اندر پروفیسر تکاکی کیجیتا کا لیکچر لینے کے لئے میری دلچسپی کی دو بنیادی وجوہات تھیں جس میں ایک وجہ تو طبیعات کی ایک شاخ کے بارے میں اس عظیم سائنسدان سے کچھ نیا سیکھنا جب کہ دوسری وجہ ان مناظر کو قلم بند کر کے اپنا کچھ تجزیہ کرنا بھی مقصود تھا۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی ملک کی سائنس کے اندر ترقی اس قوم کی معاشی اور معاشرتی زندگی کے اوپر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ اور وہی قومیں دنیا کے اوپر حکمرانی کر رہی ہیں جنہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اندر خاطر خواہ ترقی کی ہے اور کر رہے ہیں۔ جنوبی کوریا، جاپان، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا ء جیسے ممالک کو کمزور پالیسی والے ممالک کے ساتھ فہرست کے اندر گردانا جاتا تھا لیکن ان قوموں نے سائنس کے اندر ترقی کے ذریعہ دنیا کے اندر اپنی پہچان بنائی اور اپنا حوالہ بنایا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے سائنس دان ڈاکٹر عبد السلام جنہیں بعد میں نوبل انعام بھی ملا کو پاکستان بلا کر صدارتی مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تعینات کیا جو کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک سائنسی مشیر رہے۔ اس دور میں پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی منظوری سے پنسٹک(PINSTECH)  اور سپارکو (SUPARCO) کی بنیاد رکھی جبکہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی شکل میں ایک چھتری مہیا کرنے کی تجویز کو عملی جامہ بھی پہنایا جس کے نیچے ریاضی، کیمیاء، طبیعات اور حیاتیات کے میدان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا انتخاب کیا جاتا ہے تا کہ ان کو تربیت دی جا سکے۔ جبکہ انٹرنیشل نتھیا گلی سمر کالج کا آغاز بھی کیا گیا جس کے اندر باہر ممالک سے محققین و معلمین بھی پاکستان آ کر شرکت کرتے ہیں اور تحقیق کے میدان میں نئے علوم اور نئی راہوں کے اوپر تبصرہ کرتے ہیں۔
آج کے وزراء اور مشیران اور ان کے طریقہ انتخاب کے لئے بنائے گئے سانچے کو دیکھ کر صرف کوئی تعلیم یافتہ فردہی کیا بلکہ ایک عام انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔
آج کل پاکستان کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے مشیر اور روح رواں ایک سیاست دان اور قانون دان ہیں۔ بہت سی کتابیں اور ویب سائٹس ڈھونڈنے کے بعد بھی یہ راز نہ کھل سکا کہ آیا سائنس کا قانون کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یا پھر اس عہدے کے لئے سیاسیات پڑھنے والے کا ہونا کیوں ضروری ہے
جناب اس سر زمین کی کوکھ بانجھ نہیں ہوئی بلکہ کچھ مخصوص ٹولوں کے ہاتھوں اغوا شدہ نظام ہی معاشرے کے بھلے مانسوں کے ناپید ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ یہ وقت اور دور یہ تقاضا کر رہا کہ ہم اپنے قبلے درست کر لیں جیسا کہ ایک مشہور قول ہے کہ ’ لمحوں نے غلطی کی اور صدیوں نے سزا پائی‘۔ یہ ملک اس دور میں اہم قومی امور کے اندر شاہی خاندانوں کی ذاتی مفادات کی خاطر یا پھر اپنی رشتے داریاں یا دوستیاں نبھانے کی خاطر غلط فیصلوں اور پالیسیوں کا کسی بھی صورت متحمل نہیں ہو سکتا اور یہ بات سمجھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ہماری عزت اور ہمارا وقار اس ملک کی عزت و وقار سے کسی صورت الگ نہیں بلکہ پوری طرح سے ایک دوسرے کے اوپر منحصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments