پاک ترک سکول سسٹم میں ایک سابق طالبہ کے مشاہدات


\"aliترکی کا نام زبان پر آتے ہی ایک جدید ترقی کی راہ پر گامزن ریاست کا تصور زہن میں ابھرتا ہے جس کی بنیاد مصطفےٰ کمال اتا ترک نے 1922 میں ایک جدید سیکولر جمہوری ریاست کے طور پر رکھی تھی۔ ترکی ایک ریاست ہی نہیں بلکہ ترکی زبان و ثقافت کا پالنہار بھی ہے جو یورپ سے لے کر وسط ایشیا اور ہمارے پڑوس میں شینگجیانگ تک موجود ہے اس لئے تو اس کو مشرقی ترکستان کہتے ہیں۔ جدید تعلیم سے آراستہ ترکی کے مرد و خواتین کو دیکھ کو ہمیں بھی حوصلہ ملتا ہے کہ مسلمان بھی چاہیں تو ترقی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس ملک میں پیدا ہونے والے تازہ سیاسی واقعات ایک عمیق نا امیدی کی نشاندہی کرتے ہیں جو دوسرے اسلامی ممالک سے مختلف نہیں۔

ہمارا خیال یہ ہے سعودی عرب اور ایران کے ایمان روشن کرنے والے سکولوں کے مقابلے میں ترک ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی اعلیٰ اور ارفع تعلیم دے رہے ہیں۔ جب پاک ترک سکولوں سے اساتذہ کے فارغ ہونے کی خبر پڑھی تو دل بہت ہی رنجیدہ ہوا۔ اخباروں اور سوشل میڈیا میں طلبہ کی استانیوں سے بچھڑنے کی تصاویر دیکھیں تو طبعیت میں اور گرانی آئی۔ جس ملک میں امریکن سکولوں کو پڑھانے کی اجازت ہے، مجھ جیسے غریب بھی اپنے بچوں کو انگلستان کے تعلیمی نظام سے استفادہ کروانے پر خون پسینے کی کمائی صرف کر رہے ہیں تو کیا دنیائے اسلام کے واحد ترقی یافتہ ملک کے سکولوں سے اساتذہ کو نکال دینا انصاف ہے؟

میں اس واقعے پر لکھنا چا رہا تھا اور میں نے اپنے خیالات اور تاثرات کا اظہار کرنے کے بجائے کسی ایسے طالب علم کو دھونڈنے کی کوشش کی جس کے تاثرات سے ہم سب آگاہ ہوں۔ مجھے یاد آیا کہ میرے ایک دوست کی بیٹی پاک ترک سکول میں پڑھ رہی تھی۔ میں نے ان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کمال مہربانی سے بڑی اچھی انگریزی میں مجھے جو لکھ کر بھیجا اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔

میں نے پاک ترک سکول میں پانچ سال تک تعلیم پڑھا اور پھر اسی سکول کے ذریعے مجھے ترکی میں بیچلرز کرنے کے لئے سکالر شپ ملی۔ ترکی میں جہاں ہمیں ٹھہرایا گیا اس کو ہم جماعت کہتے تھے (یہ اسی سیاسی جماعت کے زیر اہتمام تھا جس کو فتح اللہ گولن چلاتے ہیں)۔ جماعت کے منتظمیں یہاں ہم سے ملاقات کرتے تھے اور ہائی سکول کے دیگر بچوں کو پڑھانے کے لئے ہمارے حوالے کیا جاتا تھا جن کو ہم بطور ذمہ داری پڑھاتے تھے۔ یہاں ہم خود بھی فتح اللہ گولن کی کتابیں پڑھتے تھے اور اپنے شاگرد طلبہ کو ایسا کرنے کی تاکید بھی کیا کرتے تھے۔ ہفتے میں دو بار ہمیں فتح اللہ گولن کی تقاریر سنائی جاتی تھیں۔ ہمیں جماعت کے امور کو اپنے خاندانوں پر ترجیح دینے کو کہا جاتا تھا۔ جماعت کے لوگ فتح اللہ گولن کو مہدی کہتے تھے، ان کی کتابوں کو اسلام کے کسی بھی عالم کی کتابوں پر ترجیح دی جاتی تھی۔

ہمیں جماعت کے حلقہ احباب کے علاوہ کسی سے دوستی کی اجازت نہیں تھی۔ جماعت کے کاموں کے علاوہ ہمیں کسی قسم کی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ تعطیلات کے دوران ہمیں سٹڈی کیمپس میں لے جایا جاتا تھا جہاں ہمیں زیادہ سے زیادہ فتح اللہ گولن کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں اور لیکچر سنائے جاتے تھے۔ اس کا مقصد طلبہ کو چھٹیوں کے دوران اپنے خاندانوں سے دور رکھنا ہوتا تھا۔ میں نے جماعت کے لوگوں کو ترک طلبہ کو یہ بتاتے بھی سنا کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں ووٹ کس کو دینا ہے۔ میں نے ان لوگوں کو مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے دیکھا کیونکہ بطور مسلمان ہم ایسے لوگوں پر شک نہیں کرتے ہیں جو اچھائی اور نیکی کا ہمارے سامنے پرچار کریں۔ میں جماعت کے لوگوں کے ایک مضبوط حلقے کو سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور سرکاری دفتروں میں موجود دیکھا۔ وہ تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور طلبہ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ جماعت کے زیر اثر طلبہ مقابلے کے امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کرکے سرکاری عہدوں پر فائز ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے ہم خیال لوگوں کی ہر طرح کی مدد کرتے ہیں۔

جماعت کے لوگ طلبہ کو ابتدائی طور پر مخصوص مطالعاتی حلقوں میں شامل کرتے ہیں پھر ان کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ خاص لوگ ہیں جن کو اللہ نے ایک نیک مقصد کے لئے پیدا کیا ہے جس کے حصول کے لئے وہ کام کر رہے ہیں۔ جماعت کے لوگ امیر والدین کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات بھی قائم کرتے ہیں۔

جو میں جانتی ہوں جماعت دراصل فیٹو یا فتح اللہ گولن کی وہ تنظیم ہے جس کو ترکی میں لوگ دہشت گرد سمجھتے ہیں اور میں اور میری طرح دوسرے لوگ نادانستہ طور پر اس تنظیم کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ ترکی میں جب اس تنظیم نے امور مملکت میں مداخلت شروع کی تو حکومت نے ان کے دفاتر ملک کے اندر بند کر دئے لیکن انھوں نے بیرون ملک اپنا کام جاری رکھا۔

پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک حکومت نے نہ صرف اپنے ملک کی فوج اور تعلیمی ادروں کے اندر موجود فیٹو کے لوگوں کے خلاف کارروائی کی بلکہ دوسری حکومتوں سے بھی کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کریں۔

میں اس طالبہ کی تحریر پڑھنے کے بعد اسلامی دنیائے اسلام کے چند جمہوری ممالک میں سے ایک ترکی سے سخت مایوس ہوا ہوں جہاں ایک طرف اردوان کی بغیر داڑھی کے ملاؤں کی حکومت ہے جو اس پورے خطے میں اپنی مخصوص سوچ کی حکمرانی چاہتے ہیں تو دوسری طرف فتح اللہ گولن کے لوگ حکومت اپنے ہاتھ میں لینے اور اپنے مخصوص نظریات کے مطابق چلانے کے درپے ہیں۔ جس جدید ترکی کی بنیاد مصطفےٰ اتا ترک نے رکھی تھی وہ شاید ختم ہو چکی ہے اور پاکستان کی طرح وہاں بھی مذہب کے نام پر ترقی معکوس کا سفر جاری ہے۔

پاکستان میں مذہبی تعلیم پر لکھے گئے میرے گزشتہ مضمون ’’فرقہ ورانہ تعلیم سے تعلیم کی فرقہ واریت تک‘‘ کے مندرات سے احباب نے جس قدر اتفاق کیا وہ خود اس ملک کی تعلیمی اور معاشرتی زبوں حالی کا ایک مظہر ہے۔ ہم درس نظامی سے لے کر ولایتی نظام تعلیم تک کئی ایک طریقہ ہائے تعلیم کو پنپنے کا موقع تو دے رہے ہیں لیکن اپنا کوئی قومی نظام تعلیم وضع نہیں کر سکے جس کی وجہ سے پہلے سے موجود معاشرتی تفاوت کی دراڑ مزید گہری اور وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments