نفسیاتی عدم توازن کا کرب


نہیں اماں نے پیاز دی تھی جیب میں رکھنے کے لیے۔ یہ دیکھو۔۔۔ اس نے کٹی پیاز کے لچھے نکال کر اس کے سامنے بیڈ پر رکھ دیے۔۔۔ ادھ موئے پیاز کی سڑاند سے اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کمرے میں پھیلی ہلکی ہلکی خوشبو کو اس مردہ بو نے نگل لیا تھا۔

”کیا کرنے آتے ہو کمرے میں؟“ اس کی آواز اونچی ہو گئی۔
”ک۔۔۔ ک۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ “ کمزور مرد کی بری نیت ہوا بن کر اڑ گئی۔

تو پھر جا۔۔۔ جا کر سو ماں کے پاس۔ اٹھا یہ بدبو گھاٹ یہاں سے۔ مجھے نہیں ضرورت تیری۔ رہ سکتی ہوں اکیلی۔ تیری ماں کو تیری زیادہ ضرورت ہے۔

”باہر آ جاؤ بیٹا۔“
سیڑھیوں کو بڑھیا نے کب چڑھا جو کن سوئیاں لینے کھڑی تھی۔
”آ جا میرا بچہ۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں اس ڈائن کے پاس جانے کی۔۔۔ “

چپ چاپ نیچے اتر جائے تب بھی قابل برداشت ہے کمینہ، مگر جب کندھوں کو ہلکا سا اچکا کر گردن نیچے ڈھلکا کر، بتیسی بھینچ کر ڈرنے کی اداکاری کی۔۔۔ تب شبانہ کا دل چاہا کہ گریبان سے پکڑ کر کمرے کے باہر پھینک دے یا مچھر سمجھ کر دونوں ہتھیلیوں کے بیچ مسل ڈالے۔

پتہ نہیں۔۔۔ بادل کا چھوٹا سا ٹکڑا۔۔۔ کب سمندر سے یوں ہم آغوش ہوا کہ سیپ نے اپنا دامن بھر لیا اور گہر پلنے لگا۔ شبانہ امید سے۔۔۔ آس پاس سبھی لوگ خوش ہوئے۔۔۔ چہرہ اگر ستا ہی رہا تو وہ ساس کا تھا جسے یہ خبر کوئی خوشی نہ دے سکی تھی۔

شبانہ کو تو جیسے اپنے ہونے کی سند مل گئی۔ پورے دن اس نے امیدوں اور خواہشوں کے کئی گھر بناتے ہوئے گزارے۔ بیٹے کا یقین تو اسے چھٹے مہینے کے الٹراساؤنڈ سے ہی ہو گیا تھا۔ اس خبر نے اسے اور معتبر کر دیا تھا۔ خواہش تو تھی کہ میاں ناز چونچلے اٹھائے مگر وہ غریب ماں کے نخرے اٹھانے میں ہی پورا تھا۔ اسے فرصت ہی کہاں تھی۔

اسکول سے واپس آ کر۔۔۔ کھانا پکانا ہوتا تھا اور پھر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچتی تھی۔ تھکن سے اس کا برا حال ہو جاتا تھا۔ ساس نے جھوٹے منہ آرام کرنے کے لیے کبھی نہیں کہا۔ ہفتہ، ہفتہ میاں اوپر نہیں آ پاتا تھا۔ آتا بھی تھا تو نہ معلوم کتنے کاموں کی تھکن سے نڈھال۔

بچہ کیا پیدا ہوا۔۔۔ میاں کا بستر، کپڑے، ضروری سامان، سلیپر، باتھ روم کا سامان سب ایکا ایکی نیچے شفٹ ہو گئے۔ یعنی اب کمرہ مکمل طور پر شبانہ اور اس کے بچے کے لیے تھا۔ شبانہ کے احتجاج کے بدلے میں معلوم ہوا کہ بچہ رات کو روئے گا۔ لہٰذا باپ کی نیند میں خلل پڑے گا نتیجے کے طور پر نہ صرف اس کی نوکری متاثر ہو گی بلکہ وہ بیمار بھی ہو سکتا ہے۔

”اچھا!“
یہ ایک اور حیرت انگیز خبر تھی اس کے لیے۔ کیا ایسا بھی ہوتا ہے۔

دونوں ماں بیٹا اوپر کی دنیا سے بالکل ہی کنارہ کش ہو گئے تھے۔ لگتا تھا اب ان کی دنیا زیادہ پرسکون ہو گئی تھی۔ بیٹا پیدا ہونے کی باپ کو کوئی خاص خوشی نہیں تھی۔ ایسی الگ تھلگ دادی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔۔۔ پوتے کا منہ بھی ہفتوں میں دیکھتی تھی۔

اکیلی ماں کے لیے بچہ پالنا آسان ہوتا ہے کوئی۔ سارا دن، ساری رات شبانہ تو پاگل ہی ہو گئی تھی۔ ایسا کوئی دستور بھی نہیں تھا کہ چھوٹی بہن یا ماں زیادہ رک سکتی۔ دردوں کی ماری ماں بس آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کا الٹراساؤنڈ کرتی واپس ہو لیتی۔

بس جس رات بچہ بلکتا اور چپ ہونے کا نام تک نہ لیتا اس رات شبانہ چیخ چیخ کر خود بھی رونے لگتی۔ نیچے سے ہی پوچھ لیا جاتا۔۔۔
”بچہ کیوں رو رہا ہے؟“
”اپنی یتیمی پر“ وہ بھی جل بھن کر جواب دیتی۔ بچے نے اسے چڑچڑا اور بد لحاظ بنا دیا تھا۔
بے چارہ بن باپ کے پل رہا تھا۔ اکیلی ماں۔۔۔ نوکری کرے۔۔۔ خدمتیں کرے یا بچہ پالے۔ وہ بلبلائی۔

ساس کو تو بولنے کی بیماری سرے سے نہیں تھی۔ گونگی، بہری سی بن کر بیٹھی رہتی۔ بیٹا آس پاس منڈلاتا رہتا۔ شبانہ کو دیکھتے ہی نظریں ادھر ادھر کر کے خود کو مصروف ظاہر کرنے کی کوشش کرتا۔ مہینوں بعد بلی کی سی چاپ سے اوپر آیا۔ ملگجے سے اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھا۔ لمحے بھر کو بچے کے سرہانے بھی کھڑا ہوا۔ شبانہ کا دل بیتابی سے دھڑکا۔۔۔ مگر دوسرے ہی لمحے وہ مڑا اور کپڑوں کی الماری میں سے کچھ تلاش کرنے لگا۔ غصہ شبانہ کی رگوں میں سیال بن کر اتر گیا۔ موت گلے لگے سور کو، میں سمجھی تھی، ماں کو سلا کر۔۔۔ جھانسا دے کر آیا ہے۔ میرے پاس سونے۔۔۔

کپڑے الماری سے نکال کر دبے پاؤں واپس نکلنے لگا۔

نکلتے نکلتے شبانہ کے سرہانے تیل سے بھرے لفافے میں کچھ تکے کباب رکھ دیے۔ ہلکی ہلکی روشنی میں دونوں کی نظریں ملیں۔۔۔ وہ پھر جھینپا۔ شبانہ نے تڑپ کر پیکٹ کھولا۔ در فٹے منہ۔۔۔ سن۔۔۔ وہ جو نیچے سوکن بیٹھی ہے نا میری۔۔۔ اس کو کھلا جا کر۔ رانڈ نے دوسری شادی کر لی ہوتی تو آج تجھے بغل میں نہ سلاتی۔

مگر وہ تو ایک ہی جھپٹ میں باہر پہنچ چکا تھا۔

آج پہلی بار اسے خیال آیا۔۔۔ بیوہ ہے زمانوں سے کمبخت۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ دونوں ماں بیٹا؟ چھی۔۔۔ گناہ ہے ایسے خیال کا آنا بھی۔۔۔ مگر ایسا بھی ماں اور بیٹے کا کیا عشق جو بیوی کے قریب بھی نہ پھٹکے مہینوں۔ نہ اولاد کی محبت قریب آنے پر مجبور کر سکے۔ پوری پوری رات بچہ چلاتا رہے تو کون سا باپ ہے جو بے چین نہ ہو پائے۔۔۔ اور۔۔۔ کیا ایسا ہونا ناممکن ہے۔ یہ ضرورت سے زیادہ عبادتیں، نمازیں، پاک و صاف رہنے اور رکھنے کے جتن ڈھکوسلے ہوں۔۔۔ اور ہو بھی سکتا ہے!

مگر اس خیال پر لعنت بھیج کر وہ بچے تک محدود ہو گئی۔ وقت پر کھلانا پلانا، اچھی غذا، بہت سا دودھ، جوس، کھلونے، اچھے کپڑے، کارٹون۔ سارا وقت اسی کے لیے۔ ساری تنخواہ اسی پر لگانے لگی۔ ساس کے اعتراضات اس تک پہنچتے رہتے۔ ساری تنخواہ ایک ہی بچے پر لگا رہی ہے۔ گھر میں دیتی ہی کیا ہے۔ مگر وہ تو ایسی ہر بات سے بے نیاز تھی۔ دونوں ایک دوسرے کا سایہ بن گئے۔ یہ قد، یہ کاٹھ یہ اٹھان نکالی ننھے میاں نے کہ سب حیران رہ گئے۔ شبانہ کی محبت اور محرومی دونوں نے بیٹے پر بہت خوش گوار اثرات مرتب کیے۔ وہ بھی باپ سے دور ہی رہا۔

محلے کے دو بچوں کو پیٹ کر گھر آیا ہی تھا کہ نیچے شکایت پہنچ گئی۔
”آپ کا بچہ۔۔۔ دوسرے بچوں کو مارتا ہے۔ سمجھا دیں اسے۔“

”سن رہی ہو؟“ وہ سیدھا شبانہ کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ ؟ شاید آج اسے باپ ہونے کا کچھ زیادہ ہی احساس ہو گیا تھا۔

”ہاں تو کیا تیرے جیسا مریل ہو؟“ تمسخر شبانہ کے چہرے پر ناچ رہا تھا۔ ”چار چار سیڑھیاں ساتھ اترتا ہے اور دو چھلانگوں میں گلی پار کر لیتا ہے۔ تیرے جیسا کمزور ہوتا تو سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے پورے بدن کی پازیب بجنے لگ جاتی۔“

ماں کو آخر تو مرنا تھا۔ کھانسی کی ڈھولکی بجاتے بجاتے دم دے بیٹھی۔۔۔ مگر بہت کچھ لے کر ٹلی۔ بہو نے بیواؤں کی طرح زندگی کاٹی۔ اپنے بیٹے کی ساری ہمت اور توانائی لے کر مری۔ پوتے کو اپنی خطرناک آنکھوں سے ڈرا ڈرا کر مری۔

ماں کے مرتے ہی نیچے والا گھر بھائیں بھائیں کرنے لگا۔
ڈرا ڈرا سہما سہما۔۔۔ رویا دھویا۔۔۔ بچہ بنا۔۔۔ خوفزدہ سا، سہارے کی تلاش میں مظلوم شکل بنا کر اوپر چڑھا۔۔۔ شبانہ تو شاید پندرہ سال سے اسی دن کے انتظار میں بھری بیٹھی تھی۔ بھوکی شیرنی لپکی۔

مر ادھر جا کر اپنی ماں کی قبر میں۔ پندرہ سال کا ہونے کو آیا ہے میرا شہزادہ۔ چڑھتی جوانی اور صحت کا روپ دیکھا ہے۔ اور اپنے آپ کو دیکھ سوکھا سڑا مرگھلا۔ ہڈیاں چبھیں گی تیری میرے پاس سے گزرا بھی تو۔۔۔ الٹیاں آئیں گی مجھے تجھے پاس سلاؤں گی تو۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2