جنسی رجحانات: انکار سے حقیقت ختم نہیں ہو جاتی


” ہمارے ہاں گے ز (ہم جنس پسند) نہیں ہوتے ہیں جیسے آپ کے ملک میں ہوتے ہیں …. “

25ستمبر2007کی ایک شام سابق ایرانی صدر محمد احمدی نژاد نے کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک میں جب ایک سوال کے جواب میں آئی وی لیگ سکول کے لگ بھگ سات سو طالب علموں کے سامنے یہ بیان دیا تو پنڈال قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ کچھ ہی عرصہ پہلے ایران کے قانون کے مطابق دو نوجوان مردوں کو آپس میں محبت کرنے کے جرم میں سرِ عام پھانسی دے کر موت کے گھاٹ اُتار ا جا چکا تھا اور لاتعداد ایرانی اپنے ہمسایہ ملک ترکی کی سرزمین پر اُس وقت بھی امریکہ اور دیگر مغربی ممالک استنبول کے قانون دانوں کی معاونت سے جنسیت کی بنیاد پر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیئے اپنا وطن ترک کئے بیٹھے تھے کون جانے اُس شام کولمبیا یونیورسٹی کے مجمع میں بھی ایسے ”ایرانی امریکن “موجود ہوں جو اِسی بنیاد پر پہلے سے امریکہ میں ہجرت کر چکے ہوں۔

” میں نہیں جانتا کس نے آپ کو یہ غلط معلومات پہنچا دی ہیں جبکہ ایران میں ہم جنسیت جیسی کوئی علت سِرے سے موجود ہی نہیں۔ “ ایرانی صدر نے مزید وضاحت دیتے ہوئے مجمع کو اپنے انکار کا جواز پیش کیا تو حاضرین نے معزز مہمانِ خصوصی کی ذہنی پختگی پر اپنے شک کا اظہار کرتے ہوئے خاصا تمسخر اُڑایا۔ احمدی نژاد شاید ذ ہنی طور پر تیار نہ تھے کہ امریکہ جیسے ملک میں نوجوان طالبعلموں کو کسی بھی ایسے موقعے پر ہر نوعیت کا سوال اُٹھانے کی جرات سکول کے ابتدائی برسوں میں ہی تہذیبی تجسس کے زمرے میں مل چکی ہوتی ہے اُس پر ترقی یافتہ مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں ’جی ایل بی ٹی‘ (گیز، لزبین، بائی سیکچوئل اور ٹرانسجینڈر) طلبا و طالبات کی تنظیمیں بالکل اُسی طرح اپنا منظم وجود رکھتی ہیں جیسے کھیل، ادب اور دیگر فنون لطیفہ اور سماجی و سیاسی دلچسپیوں کی حوصلہ افزائی کے لیئے غیر نصابی سرگرمیوں کے پلیٹ فارمز نصابی عمل کے شانہ بشانہ اپنی موجودگی برقرار رکھتے ہیں۔ آج بھی یوٹیوب پر احمدی نژاد کے اس مضحکہ خیز تاریخی دعویٰ کا کلپ، بین الاقوامی سیاست اور سماجی علوم کے محققین، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ایرانی ریاست کی قومی سطح پر اجتماعی خود فریبی اور مسلمانوں کی تہذیبی نرگسیت کے حوالے سے ایک معروف مثال سمجھا جاتا ہے۔ کہنے کو احمد نژاد نے اپنی کم علمی ظاہر کرتے ہوئے ایک ناقابلِ قبول حقیقت سے  نظریں چرانے کی کوشش میں جھوٹ بول دیا تھا لیکن غور کرنے پر یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ طالب علموں نے جس تناظر میں یہ سوال اُٹھایا ہو گا، ایرانی صدر اپنے انکار میں کسی حد تک غلط بھی نہ تھے۔ آج اگر صدر یا وزیر اعظم پاکستان سے بھی یہی سوال ایسے ہی کسی بے ساختہ جمہوری ماحول میں پوچھ لیا جائے تو یقینا اُن کا جواب بھی لگ بھگ ایسے ہی فکری اُلجھاﺅ پر مبنی ہو گا۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں بھی ایران، عرب امارات اور سعودی عرب جیسے دیگر قدامت پسند مسلم ممالک کی طرح جنسی میلان کی بنیاد پر ”جی ایل بی ٹی“ برینڈ کی کسی بھی اقلیت کا سماجی وجود سِرے سے ہے ہی نہیں البتہ اغلام بازی یا امرد پرستی (جو کسی حد تک ہم جنسیت یا ہومو سیکچوئلٹی کے زمر ے میں آتی ہو) ایک جرم، اخلاقی بے راہ روی، ذ ہنی کج روی، غیر فطری علت کے طور پر جانی جاتی ہے البتہ بطور ممنوعہ موضوع کے اپنی ایک منافقانہ حیثیت ضرور رکھتی ہے۔

 دُنیا بھر میں شہریت کے قوانین کے معاملے میں ” جی ایل بی ٹی رائٹس “ کو بنیادی انسانی حقوق کی بریکٹ میں ریاست کی سطح پر اخلاقی قبولیت کا درجہ دیئے جانے پر کھل کر بات کی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں بھی چونکہ ایران کی طرح اس نوع کے جنسی فعل کو قانونی طور پر جرم گردانا جاتا ہے اس لئے تاحال جنسیت سے قطع نظر فقط ٹرانسجینڈر یا خواجہ سراﺅں کی سرکاری طور پر شناخت 70سال بعد اب کہیں جا کر عدالتِ عظمیٰ نے منظور کی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں خواجہ سراﺅں کی کمیونٹی خطے میں ایک تاریخی اور روایتی تناظر میں اپنی ایک سماجی پہچان رکھتی ہے جو دراصل نسل در نسل کچھ ایسی اساطیری کہانیوں کی لپیٹ میں معاشرتی قبولیت کے درجے پر فائز ہے جس کا فائدہ نہ صرف خواجہ سراﺅں کی اکثریت بلکہ اُن کے ساتھ وابستہ دیگر سماجی اور معاشی ادارے بھی اُٹھا رہے ہیں۔ حال ہی میں ملک کے مختلف حصوں میں خواجہ سراﺅں پر تشدد اور اُن سے نفرت کی بنیاد پر قتل کی وارداتوں نے سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملکی سطح پر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ خواجہ سرا ملک میں اکثریت کے ہاتھوں محض تمسخر اُڑانے اور تحقیر و تذلیل کی زد میں آنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ انہیں بھی معاشرے میں انسانوں کی طرح عزت کے ساتھ جینے کا حق دیا جا سکتا ہے۔ یقینا سرکاری اور سماجی سطح پر انسان دوستی کی یہ تحریک پاکستان جیسے ملک کے لئے خوش آئند ہے جس کی اکثریت ناخواندگی اور ذ ہنی اور معاشی پس ماندگی کے باعث مذہبی تنگ نظری اور جنونیت کا شکار ہے۔ اس وقت پاکستان کے مرکزی شہروں میں ” شی میلز“ کے حقوق کی حفاظت کے لیئے خواجہ سراﺅں نے چند بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی معاشی اور علمی معاونت سے بہت سے پلیٹ فارمز منظم کر رکھے ہیں جوملکی سطح پر’ٹرانسجینڈر‘ کے حقوق اور وقار کی بحالی کے لیئے سرگرمِ عمل ہیں۔

کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ میں مشی نامی ٹرانسجینڈر پر ججا بدمعاش نامی گروہ کے غیر انسانی تشدد کی وڈیو وائرل ہوتے ہی قومی میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وساطت سے ملز مان کے خلاف جو قانونی کاروائی کی گئی ہے سماجی حلقوں میں حکومت کے اس اقدام کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اس کی ایک وجہ یقینا یہ بھی ہے کہ خواجہ سراﺅں سے متعلق پاکستان میں نسلوں سے جو متھ رائج ہے وہ جنسیت کے حوالے سے نہیں بلکہ روحانیت کے حوالے سے ہے۔

تاریخ میں خواجہ سراﺅں کی روایت ہمیں مغلیہ دورِ حکومت میں حرم سراﺅں کی معاشرت میں نظر آتی ہے اور موجودہ دور میں انہیں معرفت کی کسی ایسی منزل پر سمجھا جاتا ہے کہ ان کی بددعا ساتوں آسمانوں تک اپنی رسائی رکھتی ہے عموماً بچوں کی پیدائش اور شادی بیاہ کے موقعہ پر یہ ہمیں ناچتے گاتے یا نذرانے لیتے دکھائی دیتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے شہری آبادیوں میں خواجہ سرا ہمیں گداگری کرتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں ان میں سے بیشتر جنسی مزدوری بھی کرتے ہیں اور میلوں، عرسوں میں تماشبینوں اورگاہکوں کا دل لبھاتے نظر آتے ہیں۔ اندرون سندھ اور حیدرآباد، عمر کوٹ جیسے بیشتر علاقوں میں خواجہ سراﺅں کی ایک خاص کمیونٹی خودکو فقیر کہلوانے پر مصر ہے یہ خواجہ سراﺅں کی وہ خاص کیٹگری ہے جو پیدائشی طور پر ”اے سیکچوئیلز “ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور فقر کا بھید اوڑھے اپنی پراسراریت کا پرچار کرتے ہیں۔ قطع نظر خواجہ سرا کی معاشرت کے اسرار ورموز، حال ہی میں میڈیا کی توجہ بننے والا ”سیالکوٹ تشدد“ ٹرانس جینڈر کی حقیقت پر آپ ہی آپ بہت سے سوال اُٹھانے کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ تشدد کرنے والے ملزم مرد کا وہ بیان ہے جس کے مطابق ”مشی “ کے ساتھ اُسکی دوستی اور جذباتی تعلق کا اعتراف ہے۔

نجی ٹی وی چینلوں پر ضلعی اور صوبائی سطحوں پر منطم کیئے گئے رجسٹرڈ شی میلز رائٹس فورمز کے عہدیداران جو بذاتِ خود بھی ٹرانس جینڈر ہیں، قومی نیٹ ورک پر ببانگِ دہل یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم ٹرانس جینڈر کو گیز نہ سمجھا جائے، امر د پرستی اور اغلام بازی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔

شعیب منصور کی بین الاقوامی شہرت یافتہ فیچر فلم ”بول“ اور اس موضوع پر بننے والے بیشتر ٹیلیویژن ڈراموں کی کہانی خواجہ سراﺅں کے ساتھ وابستہ اس ” مِتھ“ کی بنیاد پر گھڑی گئی ہے جس کے مطابق خواجہ سرا پیدائشی طور پر جنسی شناخت سے محروم ہوتے ہیں اور یہ کہ جب بھی ایسے کسی بچے کی پیدائش ہوتی ہے علاقے کے خواجہ سرا نومولود کے والدین سے اپنی امانت کا مطالبہ کرنے کے لئے وارد ہو جاتے ہیں اور یہ کہ ان کے ڈیروں پر پیدائشی خواجہ سراﺅں کو پال پوس کر جوان کیا جاتا ہے اس من گھڑت کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

پاکستان کے تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں چونکہ اس موضوع پر سنجیدگی سے کسی بھی انتھروپالوجیکل سٹڈی کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے اس لیئے سائنسی اور علمی بنیادوں پر ایسے اساطیری پرچار کو آج تک چیلنج نہیں کیا جا سکا حقیقت جاننے کی اس چشم پوشی کی ایک بڑی وجہ تو وہی اجتماعی انکار” collective denial“ہے جسکا اظہار سابق صدر ایران نے کولمبیا یونیورسٹی میں کیا تھا اور دوسری وجہ وہ خوف یا فوبیا ہے جو صدیوں سے مسلم معاشروں کا وتیرہ رہا ہے اور یہ خوف ہی اِن معاشروں کو کسی بھی صورت پسماندگی سے تہذیبی ترقی کی جانب قدم بڑھانے نہیں دیتا ہے۔

بات معاشرے میں جنسیت کے حوالے سے مختلف صورتوں کی ترویج اور تبلیغ کی نہیں، ضرورت اس فکر کی ہے کہ ایک ہومو فوبیک سوسائٹی اُسی طرح اپنے آپ پر ذہنی کشادگی کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر لیتی ہے جیسے آج کی دنیا کی تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ قومیں اسلامو فوبیا اور زینو فوبیا کی زد میں آ کر انسان دوستی اور ہم آہنگی کے بنیادی تہذیبی اصولوں سے دُور ہونے کو پرتول رہی ہے۔ اور خدشہ ہے کہ یہ حقیقت مجموعی طور پر آج کے انسان کے فکری اور اخلاقی ارتقا کی راہ میں ایک ایسی دیوار ثابت ہو گی جسے آنے والے زمانوں میں گرانا آسان نہ ہو گا جتنی آسانی سے اسکی بنیادوں کو آج اور ابھی مضبوط ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments