فرائڈے ٹائمز اور مزاح


\"CMہفت روزہ انگریزی جریدہ ”دی فرائڈے ٹائمز“ نجم سیٹھی صاحب کی ذمہ دارانہ نگرانی میں شائع ہوتا ہے۔ غالباً اس کی سرمایہ کاری بھی انہیں کی ہے۔ مجھے علم نہیں کہ مطبوعہ شکل میں کتنے لوگ اسے خرید کر پڑھتے ہیں۔ میں خود اسے نیٹ پر ہی پڑھتا ہوں کیونکہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی مضمون کارآمد مل ہی جاتا ہے۔ لیکن اس میں پابندی سے شایع ہونے والے ایک کالم کا کیا مقصد ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ سمجھ میں تو آتا ہے لیکن دل قبول نہیں کرتا۔

اس کالم کا نام ہے Nuggets from the Urdu Press ، یعنی اردو پریس سے چنیدہ شاہکار۔( ویسے انگریزی لفظ nugget کا مطلب ہوتا ہے زمین سے نکلا ہوا سونے یا کسی قیمتی دھات کا ٹکڑا۔ ) عنوان سے تو لگتا ہے کہ یہ طنزیہ یا کم از کم مزاحیہ کالم ہوگا جس میں اردو کے نامور کالم نگاروں کے تحقیقی یا تحلیلی کارناموں سے اقتباسات دے کر ان کا ”تجزیہ“ کیا جائےگا، یا انہیں بغیر کسی تبصرے کے پیش کیا جائےگا کہ قارئین خود ہی کالم نگار کی دور اندیشی سے لطف اندوز ہولیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس کالم میں اردو اخباروں سے چن چن کر خبریں ہی پیش کی جاتی ہیں۔ یعنی وہ ”دور اندیشی“ جس سے قاری کو لطف اندوز ہونا ہے اس میں پوشیدہ ہے کہ اردو اخبار میں جو خبر شائع ہوئی وہ ہرگز ہرگز کسی انگریزی اخبار میں شائع نہیں ہوسکتی تھی۔ انگریزی اخبار سنجیدہ صحافت کرتے ہیں؛ ان میں اس طرح کے سنہری \’شاہکار \’ نہیں چھپتے۔ اردو اخبار غیر سنجیدہ صحافت کرتے ہیں اور ساتھ ہی بیش بہا \’شاہکار \’ بھی شایع کرتے ہیں، جن سے انگریزی خواں پاکستانی فرائڈے ٹائمز کی مدد سےلطف اندز ہو سکتے ہیں۔

اس ہفتے جو سنہری شاہکار پیش کے گئے ہیں ان میں سے دو ملاحظہ ہوں۔ لیکن پہلے یہ عبارت بھی پڑھ لیں جو ہر ہفتے کالم کی ابتدا میں درج کی جاتی ہے:

These nuggets are culled from the Urdu press. They are summarised here without comment.

Absurd or ridiculous, tft takes no responsibility for them.

\"friday-times\"اس میں خاص طور پر دل لبھانے کی چیز یہ شرمیلا شرمیلا اعلان ہے کہ یہ شاہکار اگر مضحکہ خیز یا بے معنی ہے تو اس کی ذمہ داری جریدہ کے اسٹاف یا اس کے ناشر پر نہ ڈالی جائے۔ گویا، صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں۔ اور انگریزی محاورے میں یوں سمجھ لیجئے کہ جریدے کے انگیزی خوان کارکنان کیک کھانا بھی چاہتے ہیں اور گھر لے جانا بھی۔ بلکہ موقع ملے تو چوراہے پر کھڑے ہوکر کچھ پیسے بھی کھرے کر لینا بھی۔

بہر کیف، ملاحظہ ہو وہ خبریں جو اردو اخبار اپنی اردو فطرت سے مجبور ہو کر شائع کرتے ہیں اور جنہیں مقطّع چقطّع انگریزی اخبار کسی حالت میں شائع نہیں کریں گے۔

Daily Jang reported (24 Oct 2016) that opposition parties in the provincial assembly of Khyber-Pakhtunkhwa province announced extraordinary protests against the decision of the PTI provincial government to accept loans totaling more than Rs 100 billion from the World Bank and the Asian Development Bank. The opposition parties insisted that the matter be taken up at a Parliamentary level and called upon the PTI leadership to explain why such loans were necessary.

 مجھے تو اس میں کوئی بات ایسی نظر نہیں آئی جس پر قہقہہ لگایا جائے۔ ممکن ہے اس کا سبب یہ ہو کہ مجھ میں اس شےٴ لطیف کی شدید کمی ہے جو فرائڈے ٹایمز کےادارتی عملے میں فراوانی سے موجود لگتی ہے۔

It was reported in Daily Jang (24 Oct 2016) that when Print and Electronic Media Regulatory Authority (PEMRA) personnel tried to shut down an illegal cable TV operator in district Hafizabad, the team of officials was set upon by the owner and his armed accomplices. After beating the PEMRA team, the cable operators fled the scene.

\"najam-sethi\"اس خبر نے بھی کوئی خاص لطف نہیں دیا۔ سرکاری لوگوں کی پٹائی ہوئی، برا ہوا۔ مار پیٹ کرنے کے بعد مجرم بھاگ گئے، یہ بھی برا ہوا۔ مگر اس میں قہقہہ لگانے کی کیا بات ہوئی؟ مزید یہ کہ اردو صحافت نے کیا کردار ادا کیا سوا اس کے کہ اس واقعہ کی اطلاع دوسروں تک پہنچا دی؟ یہ تو کوئی مضحک بات نہیں ہوئی۔ کم ازکم اردو زبان اور ادب میں جو معیار رائج ہیں ان کے اعتبار سے۔ انگریزی میں مذاح کے کیا معیار ہیں ان کے بارے میں کچھ کہنا میری لیاقت سے باہر ہے۔ میں نے اردو ادب میں ایم اے کیا تھا، اور وہ بھی 1955 میں، یعنی دور جاہلیہ میں۔ اس نئے دور میں انگریزی میں ایم اے کر کے نکلنے والے کس طرح سوچتے ہیں اور ان کی رگ مذاح کو کیا چیز پھڑکا دیتی ہے اس کا نہ مجھے علم ہے نہ ہو سکتا ہے۔

اگر نیٹ پر تلاش کیا جائے تو یہ خبریں اس تاریخ کے انگریزی اخباروں میں مل جانی چاہئیں۔ انگریزی اخبار بھی ذمہ داری سے مقامی اہمیت کی خبریں ضرور چھاپتے ہیں۔ وہ اپنی جڑوں سے اتنے دور نہیں ہوتے جتنا کہ فرائڈے ٹائمز کے قلمکار نظر آتے ہیں۔ مثلاً اسی شمارے میں ایک نوٹ علامہ اقبال کے والدین کے بارے میں بھی ہے۔ مضمون نگار رہتا غالباً لاہور میں ہوگا جہاں اقبال کے بارے میں اسے بتانے کے لئے اساتذہ بھی ہیں اور لائبریریاں بھی۔ لیکن وہ اپنی رائے کی تائید کے لئے سند لاتا ہے دہلی کے خوشونت سنگھ کی، اور وہ بھی 2007 کے ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون کی۔ شاید اسی موقعہ کے لئے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا : بدھو اکڑ رہے ہیں صاحب نے یہ کہا ہے۔ پتہ نہیں سیٹھی صاحب اپنا اخبار پڑھتے ہیں یا نہیں، لگتا تو یہی ہے کہ نہیں پڑھتے۔ کیونکہ مثل ہے، دیوانہ بکار خود ہشیار۔ بہر کیف، کسی کو چاہئے کہ انہیں ایک کاپی خرید کر دیدے۔ وہ بھی ایک دو قہقہہ لگالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments