بھارت یاترا میں پولیس حاضری (مسرت اللہ جان)۔


\"mussarat\"

اعتبار اور بے اعتبار کا لفظ لکھنے میں صرف اتنا سا ہے کہ صرف ایک لفظ بے کے لکھنے سے سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ کتنا تلخ ہوتا ہے اس کا اندازہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو بے زمین ہو تے ہیں یعنی اپنی زمین سے انہیں کسی اور کی سرزمین جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ صحافت کے میدان میں لکھتے ہوئے عرصے سے خواہش تھی کہ سکالرشپ ملے۔ اللہ کی مہربانی سے جولائی 2016 ء میں یہ موقع مل گیا اور اگست میں جانے کا موقع بھی پڑوسی ملک بھارت کا ملا۔ لیکن وہاں جا کر احساس ہوا کہ کیسے لوگ اپنی سرزمین سے نکل کر بے اعتبار ہو جاتے ہیں دوسرے ملک کے حکمرانوں کے روئیے پریشان کردیتے ہیں ایک ایسا احساس جو انسان کو اندر ہی اندر چور بناتا ہے حالانکہ ہر کوئی چور نہیں ہوتا۔

کچھ باتیں دل کی اندر ہی رہیں تو اچھا ہے لیکن کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو یقیناً ہر کسی کے ساتھ شیئر کرنے کی ہوتی ہیں۔ بھارت کی سرزمین پر جانے کے لئے لوگوں کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کا اندازہ گھر کی یوٹیلٹی کے بل جمع کرانے والے افراد سے پوچھیں جو وہ ویزہ کاغذات کے ساتھ جمع کرواتے ہیں۔ بھارت کی سرزمین پر اترنے کے بعد جب کسی پاکستان کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ آپ پاکستانی ہے اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر آپ نے اپنی رجسٹریشن کروانی ہے اور اس کا گھر کا ایڈریس، ادارے جہاں پر آپ رہائش پذیر ہوں کے کاغذات بھی چوبیس گھنٹے کے اندر متعلقہ علاقے کے پولیس کمشنر کے پاس جمع کرانے ہیں جہاں پر آپ سے باقاعدہ انٹرویو لیا جائے گا تو لگتا ہے کہ کسی قید خانے آگئے ہیں۔ کیونکہ یہ عمل صرف پاکستانی شہریوں کے لئے ضروری ہے اس کے مقابلے میں نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان، سری لنکا کے شہریوں کے لئے علیحدہ قوانین ہیں۔ بھارت میں نیپال والوں کے تو مزے ہیں تو بنگلہ دیش والوں کے لئے پندرہ دن کے اندر رجسٹریشن کرنی پڑتی ہے اسی طرح تمام ممالک کے شہریوں کو پورے بھارت جانے کی اجازت ہوتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستانی شہریوں کو صرف ایک شہر تک محدود رکھا جاتا ہے اور اگر کبھی غلطی سے کہیں نکل گئے تو پھر۔ مسافر کی اپنی قسمت۔ کہ دہشت گردوں میں اندر کردے یا پھر جاسوسوں میں۔ اللہ بھلا کرے ہالی ووڈ کی فلموں کا جنہوں نے اپنی بعض فلموں میں صحافیوں کو جاسوس بنا کر پیش کیا اور بعض مغربی ممالک نے ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں جاسوس بھی صحافی کے روپ میں بھیجے۔ ان فلموں اور کچھ حقیقت میں ہونیوالے واقعات نے سرکار کی نوکری کرنے والے بہت سارے موٹے دماغ والے افسران کو بھی ہوشیار کردیا ہے اور جب کوئی صحافی پاکستان سے بھارت جاتا ہے تو اس پر پہلا شک جاسوس کاکیا جاتا ہے۔

\"india-police\"

بھارت کے سرکاری دفاتر خصوصا پولیس دفاتر کاموازنہ پاکستانی پولیس اور اگر خیبر پختونخواہ کے پولیس سے کیا جائے تو پشتو مثل کے بقول ہمارے پولیس اہلکاروں کے ”پاؤں دھو دھو کر“ پینے کے لائق ہیں۔ بھارت میں پولیس کمشنر کے دفتر کا ماحول کچھ ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ سلو موشن میں چل رہا ہو۔ پسینے کی بو، سست روی سے چلنے والے پنکھے جن پر کئی سالوں کا گرد و غبار پڑا ہو، کالی کالی میزیں جن پر فائلوں کے انبار ہو، سرگوشیوں میں باتیں کرنے والے مخصوص لوگ، سیکورٹی کے لئے جاری ہونیوالے پھٹے پرانے ” وزیٹر“کے نیم پلیٹ، مردوں کے منہ میں پان، کالی رنگت اور عورتوں کے جسموں پر ساڑھیاں اور بالوں میں موتیے کے پھول جن کی بھینی خوشبو ہر جگہ آپ کو سونگھنے کو ملتی رہے گی۔ ایک انگوٹھی والی چپل جسے گھسٹتے ہوئے کالے رنگ کے مرد و عورت دفاتر کے کالے کاریڈو میں یوں بھاگتے ہیں جیسے انسان نہیں مشین ہوں لیکن ان کی چابی سست ہوئی ہوں، یہاں آپ جا کر تقریبا ہر ایک کو ایک ہی احساس ہوتا ہے کہ کسی سی آئی ڈی تھانے میں تحقیقات کے لئے بلایا گیا ہو، تحقیقاتی افیسر کے تھکے ہارے سوال، ساتھ میں اگر آپ کھانے کے وقفے کے دوران چلے جائیں تو پھر ہندوستا ن کے ان اہلکاروں کی شکلیں، ماتھے پر بل اور تامل زبان میں سنائی جانیوالی مسلسل باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی ان کے لئے کتنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں انگریزی زبان سے انہیں خدا واسطے کا بیر ہے، ہندوستانی زبان اس لئے نہیں بھولتے کہ کہیں پاکستانی اردو میں اس کا جواب نہ دیں۔

رجسٹریشن کے نام پر دیے جانیوالے فارم میں بھارت آنیوالے مسافروں خصوصا پاکستانیوں سے یہ سوال کیا جاتا کہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں کہ نہیں، بحیثیت طالب علم کے اپنی رجسٹریشن کرتے وقت چھٹی منزل پر جانے کے بعد ساتویں منزل پر پہنچنے کے لئے ایک منزل پیدل اوپر پہنچے کیونکہ مسافروں کے لئے الگ سیکشن ہے کالج کے ساتھی کیساتھ کمروں کی طرف سے جاتے ہوئے میں نے ہندوستانی ریاست میں سوشل میڈیا کے لئے الگ ٹیم پولیس ڈیپارٹمنٹ میں دیکھی جس میں بیشتر کام کرنے والے نوجوان تھے ساتھ میں خواتین بھی کافی تعداد میں تھی چلتے چلتے نظر پڑی تھی تو اندازہ ہوا کہ یہ لوگ کس طرح ہر چیز مانیٹر کرتے ہیں جس میں آنیوالے تمام مسافروں کا ڈیٹا بھی شامل ہوتا ہے۔ اس طرح کی کوئی سوشل میڈیا کی سروس میں نے پاکستان میں کہیں پر بھی نہیں دیکھی۔

سابقہ مدراس اور آج کے چنائی میں قیام کے دوران یہ اندازہ بھی ہوا کہ اس شہر میں بھارت کے دیگر شہروں کے مقابلے میں صنف نازک کسی حد تک محفوظ ہیں ساتھ میں یہ احساس بھی ہوا کہ عورت یقیناًایک گاڑی کے دو سرے پہیے کی طرح چل رہی ہیں لیکن یہ پہیہ کبھی کبھی اپنی مرضی سے بہت غلط استعمال ہوتا ہے اس کا اندازہ دوران تعلیم ہاسٹل میں قیام کے دوران ہوا۔ جہاں پر ایک ہی ہاسٹل میں طلباء و طالبات کے لئے رہنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ نچلے فلور پر طالب علم جبکہ اوپر کے تین چار فلوروں پر ساری طالبات تھی۔ ایسے میں آزادی کا استعمال طلباء وطالبات کس طرح کرتے ہیں یہ الگ داستان ہیں۔ لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہیں کہ پڑوسی ملک کی تباہی میں ان کے اپنی نوجوان نسل کا بہت بڑا ہاتھ ہوگا۔ ان کے مقابلے میں ہمارے ہاں پاکستان میں عورت کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے اس کا اندازہ سڑک کنارے بیٹھے افراد کے رویوں سے کیا جاتا ہے جو شٹل کاک برقعوں میں بھی خواتین کو گھورنے سے گریز نہیں کرتے۔ شاید ہم لوگ اپنی ماں بہنیں بھول جاتے ہیں۔ ویسے ہمارے اعمال بھی ان لوگوں سے کم نہیں لیکن یہاں مواقع نہیں ملتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments