نانی سے دادا مختلف کیوں ہے؟


آپ کو بارہا اس تجربے کا اتفاق ہوا ہو گا کہ برسوں پرانی کو ئی سویٹر یا کسی کا دیا تحفہ آپ کو یاد آیالیکن آپ بھول چکے ہیں کہ کمبخت رکھا کہاں تھا۔ برسوں پرانی بات ہے ہمیں تو یہ یاد نہیں ہوتا کہ کل کھایا کیا تھا۔ لیکن اچانک ہی گھر میں کوئی عورت بڑے اعتماد سے کسی کونے میں جاتی ہے اورمتعلقہ صندوق کھولتی ہے، آپکی وہ بھول چکی چیز آپ کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے۔
گھر میں خواتین کو اس معاملے میں آپ نے ماہر پایا ہو گا کہ ’چیز وقت اور جگہ‘ کے اس باہمی تعلق میں وہ بہت ماہر ہوتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین میں مقامی یا مکانی یاداشت (spatiel memory) کی صلاحیت مردوں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔
ہمارے معاشرے میں بالخصوص خواتین کی نسبت مردوں کو بہتر ڈرائیور خیال کیا جاتا ہے۔ یہاں بہتر ڈرائیونگ سے مراد ڈرائیونگ بطور فن ہے ۔ جس میں صلاحیت قدرے کم ہو گی وہ محتاط بھی زیادہ ہوگا۔ اگر تو محتاط ڈرائیونگ کے تغیر کو نکال دیں اور ڈرائیونگ کو بطور فن لیں تو مرد حضرات آگے ہیں (ہمارے معاشرے میں بالخصوص)
اس کی وجہ کیا ہے؟ ڈرائیونگ میں spatiel judgment کا اہم کردار ہے ۔ اس صلاحیت میں مرد کچھ آگے ہیں۔
کیا ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ مرد فطرتاً بہتر ڈرائیور ہوتے ہیں؟
کیا عورتیں یاداشت کے حوالے سے فطری اعتبار سے بہتر ہیں؟
انسانی جوڑے کے ہاں جب بچہ یا بچی پیدا ہوتے ہیں تو ان پر معاشرتی ٹھپہ (سوشل لیبلنگ) لگا دیا جا تا ہے۔ ہمارے ہاں سیکس (جنس)اور Gender (صنف) کے اختلاف کو عموما ہم معانی خیال کیا جاتا ہے۔ اس فرق کو نظر انداز کرنے سے بڑے مغالطے جنم لیتے ہیں۔
معاشرتی ٹھپہ بچوں کی پرورش میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم بچیوں کو گڑیا اور گڑیا گھر کھیلنے کو دیتے ہیں اور بچوں کو اچھلنے کودنے پر لگا دیتے ہیں۔ بچوں کا بالخصوص گیند سے کھیلنا ان کی آنے والی زندگی میں بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ آتی گیند اور گیند سے بتدریج کم ہوتے فاصلے کو نوٹ کرنا اور صحیح وقت پر ردعمل دینا ریفلیکس ایکشن اور spatiel judgment کی صلاحیت کو بہتر کر دیتا ہے۔
بچیوں کی تربیت میں اچھل کود کے نہ ہونے سے اس صلاحیت میں کمی رہ جاتی ہے۔ مغربی معاشرے میں جب سے بچوں کی پرورش میں جنسی تفریق ختم ہوئی ہے اور ویڈیو گیمز کی وجہ سے ردعمل دینے کی مشق میں اضافہ ہوا ہے ، ہر شعبہ میں وہ برابری کی سطح پر ہیں ۔ ڈرائیونگ بطور فن یا تیز ڈرائیونگ میں وہ پیچھے نہیں ہیں۔اور یہ صورتحال آپ کو پاکستان میں بھی نظر آ رہی ہے ۔ آنٹیوں کے مقابلے میں آج کی بچیاں بہترین ڈرائیور ہیںکیونکہ وہ سکول میں اچھل کود کرتی رہیں ، دوڑتی بھاگتیں رہیں اور ویڈیو گیمز کھیلتی رہیں۔
اگر آپ بچوں کو گڑیا اور گڑیا گھر کھیلنے کو دیں اور بچیوں کو بچوں والے کھیلوں پر لگا دیں اور نتائج الٹ ہو جائیں (کیا ہم کہیں کہ فطرت الٹ ہو گئی؟)
دماغ کا ارتقائی سفر بہت دلچسپ ہے۔ آپ جس کام کو دہراتے چلے گئے اس سے متعلقہ دماغ کے حصے کو مضبوط کرتے چلے گئے ۔
عورت اور مرد کے دماغ کے کچھ ردعمل طویل ارتقائی سفر کے بعد hardwiredہوچکے ہیںاور بذریعہ جینز آگے منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
مثال کے طور حساسیت اور چہروں کے تاثرات کو بہتر سمجھنے میں عورت بہتر ہے۔
انسانی ردعمل کے نتیجوں کی پیش گوئی کرنے میں بھی عورت بہتر ہے اور اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ وہ انسان پالتی رہی ہے۔
مرد ‘ شہر کے گلی کوچوں کا نقشہ بہتر انداز میں یاد رکھتا ہے ۔ ارتقائی سفر میں شکاری کے لیے یہ صلاحیت بہت اہم تھی ۔
مرد اور عورت کے رویوں میں زیادہ بلکہ بہت زیادہ فرق معاشرتی ٹھپے کی وجہ سے ہے۔
ثمینہ بیگ ماﺅنٹ ایورسٹ سر کر آتی ہے۔ کو ہ پیمائی سے شد بد رکھنے والے جانتے ہیں اس نے کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ گوری خواتین تو ایسے کارنامے سرانجام دیتی رہتی ہیں لیکن ایک پاکستانی خاتون نے یہ کارنامہ کیسے سرانجام دیا۔۔وجہ یہ ہے کہ ثمینہ بیگ کا تعلق وادی شمشال سے ہے جو بلند پہاڑوں اور خوفناک گلیشئرز میں گھری ہے ۔
لیکن اتنی وجہ اس کارنامے کے لیے کافی نہیں ہے بڑی وجہ ثمینہ کا تعلق ہنزہ سے ہونا ہے جہاں بچیوں اور بچوں میں بہت کم فرق روا رکھا جاتا ہے۔
ہنزہ میں بچوں اور بچیوں کا اونچی چراگاہوں پر جانا معمول ہے۔
ایسی چراگاہوں پہ جہاں پہنچنے کے لیے ہمیں دو سے تین دن درکار ہو تے ہیں اور یہ بچے اور بچیاں وہاں ایک دن میں پہنچ کر شام کو واپس گھر آ چکے ہوتے ہیں۔
ہنزہ میں ایک ضرب المثل بہت راسخ ہے۔ کہ اگر آپ کا ایک بچہ اور ایک بچی ہے اور آپ صرف ایک کو پڑھانے کی سکت رکھتے ہیں تو ترجیح بچی ہونی چاہیے۔
لیکن تصور کیجئے کہ ہنزہ میں بچیوں اور بچوں میں فرق رکھا جاتا تو نہ وہاں ثمینہ بیگ پیدا ہوتی اور نہ ہنزہ سو فیصد شرح تعلیم کو چھوتا۔
ہمارے ہاں خواتین(پچھلی نسل) کی اکثریت اگر خاندان کے ساتھ سیر و سیاحت کے لیے نکلیں تو پچاس کلومیٹر کے بعد ہی آوازیں آنا شروع ہو جاتیں
”میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے“ اور دوپٹے سے سر کَس کے باندھ لیا جاتا ہے ۔
دوسری طرف دیکھئے ، میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ دوسرے دن راکاپوشی بیس کیمپ پہنچا۔ جب ہم سہ پہر کو پہنچے تو ہمارے ساتھ ہی کچھ جرمن خواتین پہنچیں ۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ کریم آباد کے کسی ہوٹل میں صبح کا ناشتہ کر رہیں تھیں اچانک ان کا پروگرام بنا کہ چلو راکاپوشی بیس کیمپ تک ہو آتے ہیں۔
سہ پہر کو پہنچنے کے بعد انہوں نے وہاں چائے پی اور واپس کریم آباد روانہ ہو گئیں۔
جو ہمارے لیے ایک مہم تھی ، وہ ان خواتین کے لیے ایک چہل قدمی سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھی ۔گلگت بلتستان کی مہم جوئیوں اور جغرافیہ سے شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا سے آنے والی خواتین وہاں ہماری عقل میں سمجھ نہ آنے والے کارنامے سر انجام دیتیں ہیں
جو ہماری نظر میں کارنامے ہوتے ہیں لیکن ان کے لیے معمول ۔
اب ذرا دوپٹے سے سر باندھے اپنی امی کو ذہن میں لائیے اور سوچیے کہ کیا وہ نانگا پربت یا کے ٹو بیس کیمپ پر جاسکتیں ہیں؟
اگر آپ نے ان قاتل پہاڑوں کے بیس کیمپ تک رسائی حاصل کی ہوئی ہے اور ان خوفناک ٹریکس کو ذہن میں رکھ کر اپنی امی کی وہاں تک پہنچنے کے صرف خیال نے ہی آپ کے چہرے پر ہنسی بکھیر دی ہے تو ہنسنے کے بعد یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ ظلم تو نہیں کیا؟ وہ خواتین جنہوں نے ہمیشہ ہمارے لیے خوشیوں کے دروازے کھولے جنہوں نے ہمیں لفظ بولنے سکھائے ، کیا ہمارے لیے ان کے یہ فقرے ”میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے یا…. ہائے میرے جوڑ“ وغیرہ غور وفکر کا مقام نہیں ہے۔
سر میں درد کیوں ہوتا ہے؟ تیز روشنی سر درد کی وجہ کیوں بنتی ہے؟ جوڑوں کو درد کیوں ہوتا ہے؟ اس درد کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم نے ان پر خوشیوں کے دروازے بند تو نہیں کیے؟
مردو عورت کی جنسی اعضا میں فرق ، جنس سے متعلق ہے۔
لیکن مرد و عورت بطور انسان کیا فرق رکھتے ہیں؟ ہر فرق طاقتور کی کمزور پر اجارہ داری رکھنے کا نتیجہ ہے۔
مرد کے دماغ وزن میں زیادہ ہے عورت کا کم …. لیکن برابر ہیں کیوں دماغ کے بڑا ہونے کو ’دماغ اور جسم کے تناسب ( Brain to body mass ratio ) کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے وگرنہ انسان کے دماغ سے ہاتھی کا دماغ کہیں زیادہ وزن رکھتا ہے۔
مرد و عورت کے دماغ میں سفید اور سرمئی حصوں میں کچھ فرق ہے لیکن یہ بدستور انگنت نسلوں میں کوئی عمل دہرانے کی وجہ سے آیا ہے۔
’یہ عورت کی فطرت ہے …. وہ مرد کی فطرت ہے ‘ غلطیوں سے بھرپور معاشرتی سوچ کی عکاسی ہے ۔
نیورو بائیالوجی یا نیورو سائیکالوجی کے نزدیک یہ فقرے کوئی معانی نہیں رکھتے۔
اگر ہم نے ان معاملات کو سنجیدگی سے نہ لیاتو عورت کی ’عزت‘ لٹتی رہے گی ۔ یعنی عورت ، عورت کے جنسی اعضا کا نام ہے، مخالف جنسی اعضا کی جبرا ً مداخلت سے بھی عورت کی عزت لٹ جاتی ہے۔ کیا عورت چند جنسی اعضا کا نام ہے یا شخصیت بھی کوئی معانی رکھتی ہے؟
ہم سے کہیں ذہین تو سرمایہ دار ہے جو ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر تجوریاں بھرتا جا رہا ہے۔
اگر ہم نے ان معاملات کو سنجیدگی سے نہ لیا تو کارپوریٹ سیکٹر بھی ہماری ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا رہے گا۔
مسالے بیچنے والے سسر کا دل جیتنے کے لیے لڑکیوں کو اچھا کھانا (جو ان کے مسالے کو استعمال کرنے سے بن سکتا ہے) بنانے کے لیے ترغیب دیتے رہیں گی۔ تصور کیجئے ان سسر صاحب کی ذہنی بالیدگی کا کہ جن کا موڈ ، اچھا کھانا کھانے سے بہتر ہو جاتا ہے اور اس لڑکی کا جو پہلا نوالہ لیے سسر کے تاثرات کو ڈرے ڈرے دیکھ رہی ہے۔ انسان کی عظمت اور بڑائی ناپنے کے پیمانے ملاحظہ فرماتے جائیے۔
سرمایہ دار ہر باپ کو جہیز میں اپنی برانڈ کا بیڈ فوم خریدنے کی ترغیب دیتا رہے گا۔ اشتہار میں جذباتی مناظر سے ہماری آنکھیں بھیگتی رہیں گی۔
بچیاں اپنے آپ کو کمزور خیال کرتی رہیں گی…. اور سیٹھ امیر ہوتا رہے گا۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments