چلیں کاسترو کو جلاتے ہیں مگر گھر سلامت رہے


\"zafarullah-khan\"

کیوبا کے صدر اور انقلاب کیوبا کے بانی فیڈل کاسترو کا انتقال ہو گیا۔ اپنے طویل آمرانہ دور کے باوجود فیڈل کاسترو دنیا بھر کے کمیونسٹ انقلابیوں کے لئے ایک افسانوی کردار رکھتے تھے۔ سامراج مخالف نقطہ نظر پر مسلسل اصرار سے وہ کمیونسٹ انقلاب کے لاکھوں حامیوں کے لئے جدوجہد کی ایک تجسیم تھے۔ کاسترو 13 اگست 1926کوپیدا ہوئے۔ 1947میں کاسترو نے باقاعدہ عملی سیاست کا آغاز Party of the Cuban People Orthodox سے کیا جو بائیں بازو کی جماعت سمجھی جاتی تھی۔ 1952 میں کاسترو نے ’’The Movement‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس نے کیوبا کے فوجی آمر Fulgencio Batista کے خلاف سیاسی جدوجہد کا آغازکیا۔ 1953۔ 55 کے زمانے میں کاسترو حکومت مخالف سرگرمیوں کی بنا کئی مرتبہ گرفتار ہو۔ جیل میں کاسترو نے اپنی تنظیم کا نام بدل کر 26th of July Movement رکھا جس کو عام طور پر MR-26-7 کہا جانے لگا۔ حکومت نے کچھ عرصہ بعد کاسترو کو بڑا خطرہ نہ جانتے ہوئے چھوڑ دیا۔ کاسترو کی رہائی کے بعد ملک میں دھماکوں اور حکومت مخالف سرگرمیوں میں تیزی آنے لگی۔ حکومت کاسترو کو اس کا ذمہ دارسمجھنے لگی اور اس کی گرفتاری کے لئے ایک بار پھرجگہ جگہ چھاپے پڑنے لگے۔ اس دور میں کاسترو نے پریس کو ایک خط لکھا جس کا متن کچھ یوں تھا، ’ میرے لئے پرامن جدوجہد کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ میں مجبور ہوں کہ کیوبا چھوڑ دوں۔ وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لئے بھیک مانگنے کی بجائے لڑنا شروع کردیں‘۔ اس کے بعد کاسترو میکسیکو چلے گئے جہاں ان کی ملاقات چے گویرا سے ہوئی۔

\"fidel-castro-1\"

1956 میں کاسترو نے چے اور کامیلو کے ساتھ مل کر گوریلا جنگ کا آغاز کر دیا۔ وہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں چھپ کر فوجی پوسٹوں پر حملہ کرتے اور پھر جنگلوں میں روپوش ہو جاتے۔ جنگ میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ کاسترو اور چے کے تمام ساتھیوں میں صرف 19 زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے جبکہ باقی یا قتل ہوئے یا پکڑے گئے۔ 1958 تک کاسترو کے گوریلوں نے کئی علاقوں میں حکومتی اداروں پر قبضہ کر لیا۔ صدر Batista کی حکومت شدید دباؤ میں آگئی۔ ملک میں بدامنی پھیل گئی تھی۔ پریس پر پابندیاں عائد تھیں۔ حکومت کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات تیز ہوگئے۔ عوام کی ہمدریاں حکومت کی بجائے MR-26-7 کے ساتھ تھیں۔ اس سارے عمل کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے Batista حکومت کو اسلحہ کی سپلائی روک دی۔ صورت حال کودیکھتے ہوئے صدر Batista نے MR-26-7 کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا جس میں MR-26-7 کے ٹھکانوں پر ہوائی بمباری بھی کی گئی مگر زمینی جنگ میں کاسترو کے گوریلوں کا پلا بھاری رہا اور حکومتی فوج نے سخت نقصانات اٹھائے۔

\"fidel-castro-2\"

کیوبا کے عوام میں کاسترو کے لئے ہمدردیاں بڑھ رہی تھیں۔ امریکہ اس سے واقف تھا مگر امریکہ کاسترو کے سوشلسٹ فکر سے بھی واقف تھا اس لئے امریکہ نے جوائنٹ سٹاف جنرل EulogioCantillo کو صدر Batista کو بے دخل کرنے کا مشورہ دیا۔ جنرل Cantillo نے خفیہ طور پر کاسترو سے صدر کو بے دخل کرنے اور جنگی مجرم قرار دینے کا وعدہ کیا اور یوں کاسترو جنگ بندی پر تیار ہوا۔ مگر جیسا کہ عموماً فوج کی روایت ہے کہ پیٹی بھائی کو عدالت میں کم گھسیٹا جاتا ہے۔ جنرل Cantillo نے صدر Batista کو ایک خطیر رقم کے ساتھ ملک بدر کریا۔ کاسترو نے اس وعدہ خلافی پر ایک بار پھر جنگ کا آغاز کردیا۔ اس نے فوج میں اپنے حامیوں کو جنرل Cantillo کوگرفتار کرنے کا حکم دیا۔ 2 جنوری 1959 کو فیڈل کاسترو Santiago میں داخل ہوا اور اپنی تقریر میں اس کو جنگ آزادی قرار دیا۔ یوں کیوبا کا انقلاب برپا ہوا۔ کاسترو 1959 سے 1976 تک کیوبا کا وزیراعظم رہا۔ جبکہ 1976 سے 2008 تک صدارت کے قصر پر قابض رہا اور وزیراعظم کا عہدہ بھی بدستور اپنے پاس رکھا۔

\"fidel-castro-3\"

کاسترو ایک انقلابی تھا یا ایک آمر، اس پر طویل عرصے تک بحث جاری رہے گی۔ اس کے چاہنے والے اسے ایک مضبوط اعصاب کا انقلابی اور سرمایہ دار سامراج کے خلاف جدوجہد کے استعارے کے طور یاد رکھیں گے۔ اس کے ساتھی Agustin Diaz Cartaya نے کاسترو کے بارے میں کہا تھا، ’ کاسترو تیسری دنیا کے لئے ایک جن تھا۔ تیسری دنیا کے لئے جتنی جدوجہد کاسترو نے کی اتنی کسی اور نے کبھی نہیں کی‘۔ کاسترو کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ ایک بدترین آمر تھا۔ 55 سالوں میں کاسترونے کیوبا کے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔ عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ ہزاروں مخالفین کو ملک بدر کیا۔ لوگوں پر جبر روا رکھا۔ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے کیوبا کی معیشت ٹھیک نہ ہوسکی جبکہ وہ کسی صورت قتدار چھوڑنے پر راضی نہیں تھا۔ اس طویل عرصے میں کاسترو اور امریکہ کے تعلقات کبھی بہتر نہ ہو سکے۔ ایک محتاط تخمینے کے مطابق امریکہ نے کم و بیش ایک ارب ڈالر کاسترو کے قتل یا اقتدار سے محروم کرنے پر لگائے مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ کاسترو پر کم و بیش 600 قاتلانہ حملے ہوئے مگر وہ ہر بار بچتا رہا۔ حتی کہ اس کی محبوبہ نے اسے زہر دینے کی بھی کوشش کی۔

\"fidel-castro-4\"

فیڈل کاسترو سے پہلا تعارف کوئٹہ سائنس کالج میں ہوا تھا۔ ایک انقلابی دوست کے کمرے میں فیڈل کاسترو کی تصویرلگی دیکھی تھی۔ انقلابی دوست سے کاسترو کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے، ’ یہ میرا رومانس ہے‘۔ عرض کیا اس رومانس کی وجہ بھی بتا دیجیے۔ فرمانے لگے، ’ کاسترو سرمایہ دار سامراج کے خلاف جدوجہد کا استعارہ ہے‘۔ اس دور میں کالج کے لڑکے بالے عموماً انقلابی ہوا کرتے تھے۔ روس کا شیرازہ تو کب کا بکھر چکا تھا مگر انقلاب کا خواب بدستور آنکھوں میں بیدار تھا۔ کالج کی کینٹین ہو، چائے کا ڈھابہ ہو یا ہاسٹل کا سنسان کمرہ، اکثر طالبعلموں کے الفاظ و استعارے انقلاب کے نوید دیتے رہتے تھے۔ فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ انقلابی دوست کے کمرے میں کاسترو کی تصویر ٹنگی تھی جبکہ دو کمرے چھوڑ کر ایک مجاہد کے کمرے میں اسامہ بن لادن کی تصویر لگی تھی۔ ایک بار مجاہد بھائی سے پوچھا کہ یہ اسامہ بن لادن کی تصویر کیوں لگائی ہے؟ متن میں صرف دو لفظوں کا فرق تھا مگرجملہ وہی تھا، ’ اسامہ طاغوتی قوتوں کے خلاف جدوجہد کا علم ہے‘۔

\"fidel-castro-5\"

سیاسی سرگرمیوں اور غیر قانونی قبضہ کی بناء پر ہاسٹل میں اکثر پولیس کے چھاپے پڑتے رہتے تھے۔ ایک دن ہاسٹل میں چھاپہ پڑا۔ تمام کمروں کی تلاشی لی گئی۔ سیاسی پمفلٹس اور کتابیں جمع کی گئیں۔ ایک سپاہی ہاتھ میں اسامہ بن لادن کی تصویر تھامے حوالدار صاحب کے سامنے حاضر ہوا۔ حوالدار صاحب نے اسامہ کی تصویر پکڑ کر پوچھا یہ کس کی ہے۔ مجاہد بھائی سر جھکائے ایک قدم آگے آیا۔ حوالدار نے دانٹتے ہوئے کہا۔ تم لوگ پڑھنے آتے ہو یا سیاست کرنے۔ آئندہ ایسی چیزیں ہاسٹل میں نہ دیکھوں۔ حوالدار نے تصویر تہہ کی اور دل کے عین اوپر بنی شرٹ کی جیب میں ڈال لی۔ اتنے میں ایک اور سپاہی کاسترو کی تصویر ہاتھ میں پکڑے حاضر ہوا۔ حوالدار صاحب نے تصویر کو دیکھ کر پوچھا، اب یہ کس کی ہے؟ انقلابی بھائی ایک قدم آگے آیا۔ حوالدار نے پوچھا یہ کون ہے؟ انقلابی صاحب نے کہا فیڈل کاسترو ہیں۔ حوالدار گرجا! فیڈرل کاسترو ہے کہ پرونشل کاسترو، میں پوچھ رہا ہوں یہ ہے کون؟ انقلابی بھائی نے کہا، کیوبا کے صدر ہیں۔ حوالدار پھر گرجا۔ کیوبا میں تمہاری نانی رہتی ہے؟ تھانے لے کر جاؤں گا تو ماں اور نانی دونوں یاد آجائیں گی۔ پھر جیب سے ماچس نکال کر کاسترو کی تصویر کو آگ لگا دی۔

\"fidel-castro-8\"

فیڈل کاسترو نے کہا تھا میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا۔ اسے غالباً جلایا جائے گا۔ اسے کیا علم کہ ہم برسوں پہلے اسے جلا چکے ہیں۔ بدقسمتی سمجھ لیجیے کہ انقلاب سے کبھی کوئی شغف نہیں رہا۔ انقلاب انسانی خون اور آگ سے عبارت ہے۔ نہ خون دیکھنے سے دلچسپی ہے اور نہ آگ لگانے سے۔ خون اور آگ اذیت اور نفرت کے استعارے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ دو الگ الگ تصوراتی دنیاؤں کے باسی کسی یوٹوپیائی جنت کی آرزو میں ایک دوسرے کے رومانس کو آگ لگا کر مدتوں سے سماج میں نفرت کا بیج بوتے رہے ہیں۔ حیران ہوتا ہوں کہ کسی خیالی نظریاتی حصار میں رہتے ہوئے انسان، اپنے جیسے گوشت پوست کے انسانوں سے نفرت کیسے کر لیتے ہیں؟ رسول حمزہ توف نے کہا تھا، ۔ ’سب انسان جولاہے ہیں۔ اپنی سانسوں کے تانے بانے سے زندگی کا کپڑا بنتے ہیں۔ کسی کا کپڑا تھوڑا ہے کسی کا زیادہ۔ نادان اس کپڑے کا کفن بناتے ہیں لیکن میں اس سے آزادی کے سرخ سویرے کا پرچم بناؤں گا۔ گھر کی منڈیر پر لہراہوں گا۔ سجاؤں گا‘۔ آپ گھر کی منڈیر پر آزادی کے سرخ سویرے کا پرچم لگائیں یا اس سویرے پر برش پھیر کر سبز بنائیں، یہ آپ کا حق ہے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ نفرت میں آ گ لگانے سے پہلے اپنے دل کے پاس والی جیب ٹٹول کر دیکھ لیجیے گا۔ کہیں گھر کا چراغ گھر جلا نہ ڈالے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments