چیخ – جنوبی افریقہ کی ایک کہانی


میں نے پیٹر سے ان باتوں کا ذکر کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اس کے پاس اچھے کپڑے نہ ہوں تو اسے ملازمت ملنا بھی مشکل تھا۔ ان چھٹیوں کے دوران میں نے اسے کئی دفعہ فاصلے سے دیکھا۔ میں نے اسے جو کپڑے دیے تھے اس نے انہیں ملازمت حاصل کرنے کے لیے کم اور لڑکیوں سے میل ملاپ بڑھانے میں زیادہ استعمال کیا تھا۔ یک دن وہ کہنے لگا کہ اسے ایک ہوٹل میں ملازمت ملنے کی امید تھی اور وہ آخری فیصلے کا منتظر تھا۔ اسے کہیں سے کچھ رقم مل گئی تھی۔ اس نے مجھے میرا پونڈ واپس کرنا چاہا لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اس واقعہ کے چند دن بعد میں واپس یونیورسٹی چلا آیا۔

اس سے اگلے سال چھٹیوں میں گھر آیا تو پیٹر کا دور دور پتہ نہ تھا۔ میں اس کے ٹاؤن شپ بھی گیا لیکن ملاقات نہ ہو سکی۔ یونیورسٹی جانے سے چند دن پہلے ایک اتفاقی واقعہ نہ بہت سی باتوں سے پردہ اٹھایا۔

ایک سہ پہر میں اپنے دوست کے ہاں ٹینس کھیلنے گیا۔ میں نے ایک گھر کے پچھواڑے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے مزدوروں پو نگاہ ڈالی تو مجھے دور سے ہاتھ ہلاتا ہوا بش مین نظر آیا۔ میں بہت حیران ہوا۔ میں میزبانوں سے چند منٹ کی اجازت لے کر اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ چہل قدمی کرتا ہوا کھیتوں کی طرف چل پڑا۔ مجھے بش مین سے مل کر خوشی ہوئی۔ وہ بھی خوش تھا کہ میں نے اس کا نام یاد رکھا تھا۔ اس کا حال چال پوچھا سب خیریت تھی۔ میں نے پیٹر کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا اسے کچھ خبر نہ تھی لیکن اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے تھے۔

میں نے بش مین کو سگریٹ کا پیکٹ پیش کیا لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ مجھے جلد جانا پڑا کیونکہ میری گرل فرینڈ میرا انتظار کر رہی تھی۔

اسی شام جب سب مہمان اور میزبان برآمدے میں بیٹھے شراب پی رہے تھے ایک ملازم نے آ کر مجھے بتایا کہ کوئی شخص گھر کے عقب میں مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ سب لوگ حیران ہوئے لیکن میں خاموشی سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔

بش مین میرا منتظر تھا۔ وہ بے چینی سے سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ پیٹر مر چکا تھا اسے جوہانس برگ کی پولیس نے مار ڈالا تھا۔

بش میں نے مجھے اس واقعہ کی تفاصیل بتائیں۔

پیٹر نوکری کی تلاش میں جوہانس برگ گیا تھا لیکن چونکہ وہ اس علاقے کا نہیں تھا اور وہ ورک پرمٹ نہ حاصل کر سکا تھا اس لیے اسے ملازمت نہ ملی۔ تنگ آ کر اس نے، ڈاکوؤں، کی ٹولی میں شرکت کر لی تھی۔ بش مین جانتا تھا کہ پیٹر جس ٹاؤن شپ میں پلا بڑھا تھا وہاں کے بدمعاش ان ڈاکوؤں سے کئی ہاتھ آگے تھے۔ ڈیوب اور الگزینڈرا جیسے علاقوں میں وہی بدمعاش شام کے بعد سب سے بڑا قانون ہوا کرتے تھے۔ وہ گوروں سے زیادہ مقامی کالوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ قتل کرتے تھے۔ عورتوں کو اغوا کرتے تھے اور لوٹ کھسوٹ سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ پیٹر چونکہ طاقتور تھا، عورتوں میں ماہر تھا اور پیتا پلاتا خوب تھا اس لیے جلد ہی اس گروپ کا سرغنہ بن گیا۔ اس نے بش مین کو بھی بلا لیا۔

شروع میں پیٹر اور اس کے ساتھیوں کو کافی کامیابی حاصل ہوئی اور ہر کامیاب گروہ کی طرح وہ جلد ہی پولیس کی نظر میں آ گئے۔ پولیس نے اس گروہ کے بہت سے لوگوں کو پکڑ لیا۔ بعض کو جیل میں ڈال دیا اور کئی ایک کو قتل کر دیا۔ بش مین واپس گاؤں چلا گیا۔ جانے سے پہلے اس نے پیٹر کو بھی ساتھ چلنے کو کہا لیکن پیٹر نے جانے سے انکار کر دیا۔ بش مین نے باقی کہانی اور لوگوں سے سنی تھی۔

پولیس نے کافی محنت کے بعد پیٹر کا سراغ لگا لیا۔ وہ اپی محبوباؤں میں سے ایک کے گھر چھپا ہوا تھا۔ دو پولیس افسر اسے پکڑنے گئے۔ پیٹر نے ہاتھ میں ریوالور لیے دروازہ کھولا۔ اس نے گورے سارجنٹ پر گولی چلائی اور سیاہ فام کانسٹیبل کو زخمی کر دیا۔ پولیس نے باقی پولیس افسروں کو بلایا اور اس گھر کو حصار میں لے لیا۔ پیٹر کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا فرار ناممکن تھا۔ اس نے عورت کو ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے گھر سے نکلنے کو کہا تا کہ وہ اس کے پیچھے چھپ سکے۔ وہ عورت جلدی سے نکلی۔ پولیس غلطی میں اسے پیٹر سمجھے اور اس پر گولی چلا دی۔ گولی اس عورت کے پیٹ میں لگی۔ پیٹر جلدی سے نکلا اور عورت پر گر پڑا۔ پولیس نے گولی نہ چلائی اور آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھنے لگی۔ پھر پیٹر کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنا ریوالور پولیس افسروں کے سر پر ایک بلند چیخ مارتے ہوئے اچھالا۔

“کیا تمہیں یاد ہے وہ دن، بش میں نے میرے قریب ہو کر سرگوشی کے انداز میں کہا، جب ہم طوفان سے پہلے لاری بھر رہے تھے اور پیٹر نے چیخ ماری تھی۔ اسی قسم کی چیخ”۔

پولیس سمجھے پیٹر ان پر حملہ آور ہو گیا ہے اور انہوں نے اس پر گولی چلا دی۔ جب پیٹر زمین پر گرا تو وہ مر چکا تھا۔ بش مین نے پھر آہستہ سے اسی طرح کی چیخ ماری جو نہ تو میں مار سکتا ہوں اور نہ ہی ترجمہ کر سکتا ہوں۔

جب بش مین نے وہ چیخ ماری تھی تو وہ فتح کی بجائے شکست کی چیخ لگ رہی تھی۔ شاید بش مین کے لیے شکست ہی تھی کیونکہ پیٹر کے بغیر اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ جب پیٹر نے آخری دفعہ چیخ ماری تھی تو کیا وہ کامرانی کی چیخ تھی یا شکست کی۔ میں نے یہ ساری کہانی اس لیے لکھی ہے کیونکہ مجھے اس چیخ کی حقیقت نہیں معلوم۔ اگر مجھے حقیقت معلوم ہوتی تو مجھے یہ کہانی نہ لکھنی پڑتی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail