جاوید اختر کی ”ہمبلیت“۔


 hana hina-khan ھنا خانھوائی جہاز پینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے۔ میری سوچیں بھی یہیں کہیں بادلوں میں سرگرداں ہیں۔ دماغ میں پچھلی شام کے واقعات گردش کر رہے ہیں۔ دفعتاً خیال آتا ہے کہ کہیں یہ خواب تو نہیں تھا؟ تصویریں البتہ یہ ثابت کرتی ہیں کہ گذشتہ شام واقعی جاوید اختر صاحب مجھ سے چند قدم پہ تشریف فرما تھے اور پہلی بار مجھے ان کے ساتھ مشاعرے میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ کلام شاعر بہ زبان شاعر سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ بے حد مختصر مگر نہایت ہی دلچسپ گفتگو ان سے ھوئی۔ جناب جاں نثار اختر کے ہاتھ کا لکھا ہوا ان کا شعر میں نے ایک کاغذ پر انہیں پیش کیا اور آٹوگراف کی درخواست کی۔ اس صفحے پر نظر پڑتے ہی ان کی ابرو اٹھی اور سوال آیا۔ \”یہ آپ کو کہاں سے ملا؟\” میں نے فقط اتنا کہا کہ بہت نایاب نسخہ ڈھونڈ کر لائ ہوں اور جب آپ کا آٹوگراف اس پر اترے گا تو اس کی اہمیت دوہری ہوجائے گی۔ انہوں نے قلم لیا اور کچھ لکھنے لگے۔ میں نے کہا کہ اس وقت میری کیفیت اُس پتنگے جیسی ہے جو جانتا ہو کہ اگر روشنی کے بہت نزدیک گیا تو پر جل جانے کا خدشہ ہے۔ میری بات سن کر مسکرائے اور کہنے لگے \”ارے جانے بھی دیجیئے۔ ہم تو جب کسی سے امپریس (Impress) ہوتے تو سوچتےتھے کہ آخر اس میں ایسی کونسی خاص بات ہے؟\”۔

اسی اثنا میں آٹوگراف کے متمنی لوگوں کا جھرمٹ لگ چکا تھا۔ میں نے ازراہ تشکر کہا کہ یہ تو آپ کی humility ہے۔ آپ کا \”ہمبل پن\” ہے۔ اس بات پہ ہنس پڑے اور کہا کہ \”آپ اسے \”ہمبلیت\” بھی کہہ سکتی ہیں\”.

اس نسخہ نایاب کے علاوہ انہوں نے اپنا شعری مجموجہ \”لاوا\” بھی مرحمت کیا۔ اس ہوائی سفر میں \”لاوا\” میری ہم سفر ہے اور اس کی تپش سے میرے ہاتھ دھک رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ کتاب صرف مجھ سے باتیں ہی نہیں کر رہی بلکہ سوالات پوچھ رہی ہے اور کچھ کہنے پر اکسا رہی رہے۔

سوچتی ہوں کہ میں اگر جاوید صاحب کی شاعری کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں بھی تو کس حیثیت سے؟

مناسب یہی رہے گا کہ ایک مداح کی حیثیت سے اپنے تاثرات قلمبند کروں۔ بے شمار شیدائیوں کی طرح میں بھی جاوید صاحب کے \”متاثرین\” میں شامل ہوں۔ ان کا ہر مصرعہ جیسے \”ترشا\” ہوا ہے، بےعار اور اعلی معیار. مصرعہ تراشنے والے کو شاعر کہتے ہیں مگر صرف یہاں تک کہنے سے تشفی نہیں ہو رہی۔ جہاں پر ہر مصرعے سے ذہانت ٹپکتی ہے وہیں پرہرنظم سوالات اٹھاتی نظر ہے۔ کبھی دل میں تو کبھی دماغ میں۔ معلوم ہوتا ہے شاعر براہ راست قاری سے مخاطب ہے اور زندگی کی تمام رعنائیوں، دلچسپیوں، بدمزگیوں اور الجھنوں پہ باہم بحث چھڑی ہوی ہے۔\"javed-akhtar\"

کتاب کھولتی ہوں تو آنکھوں کے آگے مصرعے محو رقص ہو جاتے ہیں اور بند کرتی ہوں تو سناٹے کیفیت رقص میں آجاتے ہیں۔ میرے خدا، یہ کیسا لاوا ہے جو کتاب سے نکل کر میرے دماغ میں منتقل ہو رہا ہے اور تخیل کو تپش دے رہا ہے؟

مجھے تو لگتا ہے کہ جاوید صاحب محض ایک ذہین شاعر ہی نہیں بلکہ ایک ماہر جاسوس بھی ہیں۔ اپنے کاٹ دار مصرعوں سے اپنے قاری کے اندرونی اور بیرونی حالات کا پتہ لگاتے ہیں اور ٹٹولتے ہیں کہ اس کے خیالات کا محور کیا ہے؟ ان کی منفرد شاعری کا پس منظر بے حد وسیع و توانا ہے. ان کی نظمیں چھوٹی چھوٹی باتوں کے سہارے پھیلتی جاتی ہیں۔ ان کے کلام میں ایک نہیں بلکہ کئی کئی کلائمیکس اور پنچ لائینز ہوتی ہیں جو قاری کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔

ان کی شاعری کا ارتقاء نفسیاتی حوالوں سے بھی جڑا ہوا ہے اور شعوری حوالوں سے بھی وابستہ ہے۔ ایک طرف ان کی نظم \”کچی بستی\” روح فرسا ہے تو دوسری طرف \”ہل سٹیشن\” روح افزا۔

انہوں نے زندگی کے ہر طبقے کے اوپر قلم اٹھایا ہے۔ نظم \”کچی بستی\” کی منظر کشی دلدوز بھی ہے اور دل سوز بھی۔ جب قلم \”شعلے\” اُگلتا ہو تو اس مناسبت سے کتاب کا نام \”لاوا\” ہی ہونا چاہیئے۔

زندگی میں کیے گئے فیصلوں کے باعث پیدا ہونے والے تضاد اور منافقت سے وہ آنکھ چُرانے کے بجائے، آنکھ سے آنکھ ملا کر لکھتے ہیں۔ ایک گہری مگر طائرانہ نگاہ ڈال کر تمام جائزہ لیتے ہیں صورتحال کا اور پھر بہ وقت ضرورت ایک ایک راز افشا کرتے چلے جاتے ہیں۔

کبھی تو بات کی اس نے کبھی رہا خاموش\"javed-akhtar-1\"

 کبھی تو ہنس کے ملا اور کبھی ملا بھی نہیں

 کبھی جو تلخ کلامی تھی وہ بھی ختم ہوئی

 کبھی گلہ تھا ہمیں ان سے اب گلہ بھی نہیں

بعض تفصیلات وہ ایک ہی مصرعے کی بدولت پوری ترسیل کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال ہے نظم \”میلے\” کا مصرعہ:

\”وقت بھی ایک پرندہ ہے اڑتا رہتا ہے\”

جہاں مسائل تصوف کی بات کرتے ہیں اور الٹا دنیا کو گلہ دیتے ہیں تو انکی بذلہ سنجی سے غالب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے:

کیوں ہیں کب تک ہیں، کس کی خاطر ہیں

\"Shabana

 بڑے سنجیدہ مسئلے میں ہم

 تُوتو مت کہہ ہمیں برا دنیا

 تُونے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم

جب اسرار کے پردے اٹھا کر خلاؤں میں جھانکنے کی بات کرتے ہیں تو دیھان احمد ندیم قاسمی کی طرف جاتا ہے۔ ان کی نظموں \”کائنات\” ، \”یہ وقت کیا ہے\” ، \”کھیل\” اور \”خدا حافظ\” میں یہ پرتو صاف دکھائی دیتا ہے. ان کا انداز بیان، الفاظ کا انتخاب یکسر مختلف اور مسحور کن ہے۔

\”ضمیر\” نامی چیز کی موجودگی اور اس کی \”آواز\” ہونے کے تو سبھی قائل ہیں مگر جاوید صاحب محض اس نکتے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ قاری سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اس \”ضمیر\” کا اپنا ایک آزاد \”تخیل\” بھی ہے؟ اور اگر ہے، تو کیا ہمارا تخیل ہمارے ضمیر کے تخیل کے ساتھ نبرد آزما ہے یا نہیں؟ ساتھ ہی ساتھ ضمیر کی نبض بھی پرکھتے رہتے ہیں:

ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے

 ابھی ہمارا کوئی امتحان باقی ہے

جاوید ہمیں یہ سوچنے پر اکساتے ہیں کہ وہ کون سے حادثات و واقعات ہیں جو ہمارے جذبات میں ارتعاش پیدا کرکے ہماری حساسیت کو اجالتے ہیں اور پلکوں پہ آنسو پالتے ہیں۔

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ھوں کہ مجھ کو تیری تلاش کیوں ھے\"azmi_2530653g\"

کہ جب ہیں سارے ھی تار ٹوٹے، تو ساز میں ارتعاش کیوں ھے

 کوئ اگر پوچھتا یہ ھم سے، بتاتے ھم گر تو کیا بتاتے

بھلا ھو سب کا کہ یہ نہ پوچھا کہ دل پہ ایسی خراش کیوں ھے

 عجب دوراہے پہ زندگی ھے، کبھی ہوس دل کو کھینچتی ھے

کبھی یہ شرمندگی ھے دل میں کہ اتنی فکر معاش کیوں ھے؟

اپنی خوبصورت اور حساس نظم \”آنسو\” میں جس طرح سے انہوں نے ایک ماہر جراح کی مانند جذبات کو(dissect) ڈایسکٹ کیا ہے، یہ صرف انہی کا کمال ہے۔

کچھ نظموں کا انت وہ ایک دلچسپ موڑ پر لا کر قاری کے حوالے کردیتے ہیں کہ وہ خود اس کا فیصلہ کرلے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاوید اپنے قاری سے ذہانت کی توقع رکھتے ہیں۔ بے چارہ قاری، چاروناچار شرما حضوری میں یہ ذہانت کا تاج اپنے سر پر سجا تو لیتا ہے مگر پہروں یہ سوچتا رہتا ہے کہ ان نظموں کا منطقی انجام کیا ہونا چاہیئے؟

میں کب سے کتنا ہوں تنہا تجھے پتا بھی نہیں

 ترا تو کوئی خدا ہے مرا خدا بھی نہیں …

 اب حقیقت تو یہ کہ نہ میری اتنی بساط ہے نہ اتنا دماغ کہ میں اس شعر کے پیچھے چھپی ہوئی تخیل کی پہلی سیڑھی پہ قدم بھی رکھ سکوں! منزل سر کرنا تو دور کی بات ٹھری. صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ یہ شاعری اپنے قاری کو اکساتی ہے کہ وہ تجسس کے پردوں کو چاک کرکے خلاؤں میں جھانکے، دنیا کی عیاری کو سمجھے اور وقت کی گردش پہ کڑی نگاہ رکھے۔ پڑھنے والے کو ہمت و حوصلہ دلاتی ہے کہ وہ زندگی کو سینگوں سے پکڑ کر اس کا سامنا کرے۔ حق خود ارادییت جگاتی ہے، انا کے مسائل اٹھاتی ہے، آئینے میں خود سے آنکھ ملا کر دیکھنے کا حکم دیتی ہے، برزخ میں جلنے کی کیفیت بیان کرتی ہے۔

 محبت کی بے قدری، دنیا کی بے مروتی اور زندگی کے داؤ پیچ جو اختیار سے باہر ہیں، ان سب کا ذکر کئی اشعار میں ملتا ہے:

برسوں کی رسم و راہ تھی اک روز اس نے توڑ دی\"javed-akhtar-3\"

 ہشیار ہم بھی کم نہیں، امید ہم نے چھوڑ دی

 اس نے کہا کیسے ہو تم، بس میں نے لب کھولے ہی تھے

 اور بات دنیا کی طرف جلدی سے اس نے موڑ دی

جاوید کی شاعری میں بھولی بسری باتوں، میٹھی تلخ یادوں کے کئی استعارے ہیں ۔ انسان پڑھتے پڑھتے اپنے ہی ماضی میں غرق ہوکر اپنا آپ تلاشنے لگتا ہے:

بہت دنوں بعد پائی فرصت تو میں نے خود کو پلٹ کر دیکھا

 مگر میں پہچانتا تھا جس کو وہ آدمی اب کہیں نہیں ھے

 گزر گیا وقت دل پہ لکھ کر نجانے کیسی عجیب باتیں

 ورق پلٹتا ہوں میں جو دل کے تو سادگی اب کہیں نہیں ہے

اس شاعری کی انوکھی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہمیں اپنے فیصلوں کا تجزیہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کون سے فیصلے خالصتاً مصحلت کے تحت کیے گئے اور کن فیصلوں کی بنیاد منافقت پرتھی مگر ان پر مصلحت کی قلعی کی گئی۔

اٹھا کے ہاتھوں سے تم نے چھوڑا، چلو نہ دانستہ تم نے توڑا

اب الٹا ہم سے تو یہ نہ پوچھو کہ شیشہ یہ پاش پاش کیوں ہے؟

لاوا ایک بھرپور اور بامعنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ صحیح معنوں میں ایک \”نسخہ نایاب\” ہے جس میں \”ہمبلیت\” کا عنصر خاص طور سے شامل ہے۔

اس میں عشق کا غرور ہے، رومان کا سرور ہے، اناؤں کا فتور ہے اور دل کا کچھ قصور ہے۔ بہرحال اسے پڑھنا ضرور ہے۔

رسوائیوں کا تاج ہے غم کی صلیب ہے

 اتنا بھی مل گیا ہے تو اپنا نصیب ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments