یاد کرنے کے سو بہانے ہیں


عباس اطہر سے پہلی ملاقات 1961 میں ہفت روزہ ”نصرت“ کے دفتر میں ہوئی جو لاہور ہوٹل کے پاس تھا۔ میں حنیف رامے کے معاون کے طور پر ہفت روزہ سے منسلک تھا۔ ہر شمارے میں دو صفحے شاعری کے لیے مختص تھے۔ اب یاد نہیں کہ عباس اطہر کی کتنی نظمیں ”نصرت“ میں شائع ہوئیں۔ ایک دن عباس میرے پاس آیا تو خوش معلوم نہ ہوا۔ کہنے لگا کہ ”میں نے جو نئی نظم لکھی ہے وہ حنیف صاحب کو پسند نہیں آئی۔ وہ اسے شائع کرنے کو تیار نہیں۔“ میں نے نظم اس سے لے کر دیکھی۔ مجھے اچھی لگی۔ میں نے کہا اسے ”سویرا“ میں چھاپ دیں گے۔

عباس اطہر نے شاید محسوس کیا ہو کہ اب اسے ادبی دنیا میں کوئی مقام حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔ یہی ہوا بھی۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ ”دن چڑھے دریا چڑھے“، ’نیا ادارہ‘ کی طرف سے شائع ہوا۔ اس کی اشاعت میں مجھ سے زیادہ ریاض احمد نے دلچسپی لی۔ نظم گوئی کا سلسلہ بعد میں سست پڑ گیا۔ خدا جانے، اسے صحافی بننے کا خیال کیسے آیا۔ تاہم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ صحافت میں بھی اس نے اپنی ذہانت اورمہارت کا جھنڈا گاڑ دیا۔ شاعری کی صف لپیٹی گئی۔ اس کے باوجود، میرا خیال ہے کہ اسے بطور صحافی معلوم نہیں کب تک یاد رکھا جائے گا۔ اس کی نظمیں، جن میں یقینا چند بڑے پائے کی ہیں، گاہے گاہے سخن شناسوں کو چونکاتی رہیں گی۔

صحافی بننے کے چکر میں وہ کراچی جا پہنچا۔ وہاں اس کا دل نہ لگا۔ لاہور واپس آنے کے لیے جتن کرتا رہا۔ لیکن کراچی میں صحافت کے اسرار و رموز سے جو شناسائی حاصل کی وہ بہت کام آئی۔ کراچی سے اس نے جو خط لکھے وہ میرے پاس محفوظ ہیں۔ تاریخی اعتبار سے وہ خط اہم ہے جو اس فساد کے فوراً بعد لکھا گیا تھا جو ایوب خاں کے چمچوں نے کراچی میں برپا کیا تھا۔ کراچی نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ اس لیے اہل کراچی سے انتقام لیا گیا۔ عباس نے خط میں لکھا کہ ”جو کچھ یہاںہوا اس سے 1947کے فسادات کی یاد تازہ ہوگئی۔“ بد قسمتی سے ہمارا نظام اتنا ناقص ہے کہ ، پاکستان ہو یا بھارت، فسادیوں کو کبھی چھوٹی موٹی سزا بھی نہیں ملتی۔

’کہاں گئے وہ لوگ‘ عباس اطہر کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ عباس اطہر نے لکھا ہے: ”اس کتاب میں شامل اکثر کالم میں نے اپنے دوستوں اور بزرگوں کی موت پر لکھے۔“ یہ بھی رخصت ہو جانے والوں کو یاد رکھنے کا ایک انداز ہے۔ جب دوست احباب اور واقف کار ہمارے درمیان موجود ہوتے ہیں تو ہمیں پوری طرح احساس نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے لیے کتنے اہم ہیں اوران کی بدولت ہمارے روز و شب میں کبھی براہِ راست، کبھی چوری چھپے، روشنی پہنچتی رہتی ہے۔ ایک دن جب ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ فلاں فلاں سے دنیا میں دوبارہ ملاقات نہیں ہوگی تو اندوہ کا جو احساس ہمیں گھیر لیتا ہے اسے پوری طرح ادا کرنے سے الفاظ قاصر ہیں؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ قاصر تھے اور قاصر رہیں گے۔

سب سے پہلے عباس نے ان قریبی عزیزوں کی رحلت کا ذکر کیا ہے جن سے، بچپن سے لے کر آخر تک، دن رات واسطہ رہا۔ تحریر کی سادگی اور دل دوزی متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ بچپن میں تو سمجھ میںہی نہیں آتا کہ موت کیا ہے اور لوگ اچانک ہمیشہ کے لیے غائب کیوں ہو جاتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ بڑے ہو کر بھی حیات و ممات کے یہ عقدے حل ہوتے نظر نہیںآتے۔ عباس نے ٹھیک لکھا ہے: ”ان گنت صدیوں میں اربوں، کھربوں انسان آئے اور چلے گئے۔ آج تک ’کیہ جاناں میں کون‘ کا معمہ حل ہوا نہ یہ راز کھل سکا کہ وہ سارے لوگ کیوں اور کہاں گم ہو گئے۔ ان کے ساتھ ہمارے رشتے اور تعلق خواب تھے یا حقیقت؟“

ایک اور بڑی صفت عباس کی یہ ہے کہ جن ہستیوں سے اسے کسی نہ کسی طرح فیض پہنچا اس کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ مثلاً شوکت صدیقی کے بارے میںلکھا ہے کہ ”میری صحافتی زندگی شوکت صاحب کی دین ہے۔“ عباس اطہر نے بطور صحافی کام کا آغاز کراچی کے روزنامے ”انجام“ سے کیا تھا۔ شوکت صدیقی اس وقت ”انجام“ کے ایڈیٹر تھے۔ انھیں کو دیکھ دیکھ کر اخبار میں نیوز ایڈیٹر کا عہدہ عباس کا آئیڈیل بنا۔ اس کالم میں لکھا ہے کہ ”مجھے یاد ہے کہ 1971میں جب میں روزنامہ ’آزاد‘ میں یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو میں نے کام شروع کرنے سے پہلے انھیںکراچی فون کر کے بتایاتھا کہ میرے اس کارنامے میں ان کا کس قدر حصہ ہے۔ انھوں نے مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں اور بہت خوش ہوے۔“ ان تمام باتوں کے باوجود عباس کو اچھی طرح معلوم تھا، اور یہ اس کی ژرف نگاہی کا ثبوت ہے، کہ بطور صحافی ان کی شہرت گہنا سکتی ہے لیکن ”جب تک اردو زبان زندہ ہے شوکت صدیقی صاحب ادب کے آسمان سے کبھی غروب نہیں ہوں گے۔“

نظام صدیقی تو ادیب بھی نہیں تھے۔ ان کا نام شاید عباس کے کالم کی وجہ سے یاد رہ جائے۔ انھوں نے عباس اطہر کو شروع میں جو مشورہ دیا تھا وہ نہ صرف اخباری معاملات کی سوجھ بوجھ کا اعلیٰ نمونہ ہے بلکہ ان نوجوانوں کے لیے آج بھی نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے جو صحافت کے کوچے میں قدم رکھنا چاہتے ہیں۔ نظام صدیقی نے عباس اطہر سے کہا کہ اخبار میں مضمون وغیرہ لکھنا اور روز اپنا نام چھپا دیکھ کر خوش ہونا انجام کار لاحاصل ہے۔ نیوز سیکشن کا کام سیکھو۔ اس میں تمھیں دسترس حاصل ہو گئی تو اخباروں کے دروازے ہمیشہ تم پر کُھلے رہیں گے۔ یہ بہت صائب مشورہ تھا۔ عباس نے اسے پلّے باندھ لیا اور سرخیاں لگانے میں ایسی مہارت حاصل کی کہ ہر طرف اس کا چرچا ہو گیا۔ ایک تو شاعر، دوسرے ذہین، تیسرے شطرنج کاماہر۔ پھر ایسا شخص لفظوں کو کفایت سے استعمال کر کے جادو کیوں نہ جگاتا۔ اس کی یہ سرخی ”اُدھر تم، اِدھر ہم“ بہت مشہور ہوئی۔ لیکن عباس نے وضاحت کی ہے کہ یہ بات بھٹو صاحب نے کہی ہی نہیں تھی۔ یہ سرخی عباس نے کراچی کے ایک جلسے میں بھٹو صاحب کی تقریر کے چند جملوں کی تشریح اور تاثر سے اخذ کر کے جمائی تھی۔

کتاب میں شخصی خاکے توجہ کے مستحق ہیں۔ مجید امجد، منیر نیازی، حکیم سعید، حنیف رامے، عبداللہ ملک، اظہر سہیل، میجر رشید وڑائچ، سہیل قلندر، خالد حسن اور کتنے ہی دوسرے۔ تصویروں کی ایک گیلری ہے جس میں ہم ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو مشہور ہوے اور ان کو بھی جو مشہور نہ ہوے لیکن عباس کے دل میں ان کی قدر تھی۔

مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ کتاب میں سب سے جرا ¿ت مندانہ تحریر سلمان تاثیر کے بارے میں ہے۔ ذمے دار اور باضمیر صحافی کی تحریر کیسی ہونی چاہیے، یہ اس طویل خاکے کے لفظ لفظ سے عیاں ہے۔ حقائق کو جرا ¿ت اور وضاحت سے، دلائل کے ساتھ، بیان کرنا بڑی خدمت ہے۔ افسوس کہ ہم ظاہری مغالطوں میں اس بری طرح الجھ گئے ہیں کہ حقائق تک ہماری نظر نہیں جاتی۔ شاید یہ کہنا زیادہ صحیح ہو کہ ہم حقائق کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتے۔

کہاں گئے وہ لوگ از عباس اطہر

ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، لاہور

صفحات:214؛ چھ سو روپیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments