پاکستانی شناختی بحران کے تین حوالے


وطنِ عزیز کو شناختی بحران کا سامنا پیدائش سے ہی رہا۔ جناح اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کے ذہنوں میں شناخت کے حوالہ جات کافی واضح تھے۔ مطالعہ پاکستان، اسلامیات اور نسیم حجازی کے علاوہ، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد اور دیگران کی تحاریر میں موجود ”تاریخ“ سے متاثرہ شاید جانتے ہی نہ ہوں کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ جناب جنرل ایوب خان صاحب نے بنایا۔ محترم فیلڈ مارشل کے مارشل لاء سے قبل، پاکستان میں اسلام بھی محفوظ تھا، جمہور بھی پُرامید تھا، اور جمہوریت بھی، بھلے آہستہ، مگر چل رہی تھی۔ پاکستان پیدائش کے وقت یہ نہ تھا کہ جو آج ہے۔ سماجی اور انسانی رویوں کے اعتبار سے اس وقت کی بہتری اور برداشت کا آج کے ساتھ تقابل ممکن ہی نہیں۔ اس وقت منٹو تھا، آج اوریا ہے۔ تب مودودی تھا، آج سراج و منور ہیں۔ پاکستان ٹائمز تھا، آج۔ خیر رہنے دیں کہ ”حنیف و صالحین“ کو اپنے پیچھے کیا پڑوانا!

بہرحال، شناختی بحران کے تین حوالے آپ کی نذر:

1۔ سنہ 2004۔ 5 میں اسلام آباد کے جناح ایوینیو پر سی ڈی اے، جو کہ دنیا کا ایماندار ترین ادارہ ہے، کے کسی ایماندار ترین افسر نے پاکیزہ ہدیہ سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے، شاید ملائشیا سے درآمد کردہ پام کے درخت لگوا دیے۔ وطن عزیز، بالخصوص اسلام آباد کے ڈرائنگ روم لبرلز، اکثریتی ویسے ڈرائنگ روم ہی ہیں، میں اک بھونچال آ گیا۔ اس پر لکھا بھی گیا، بولا اور اپنے پسندیدہ مشروب کی چُسکیاں لیتے ہوئے اس پر تاسف بھی کیا گیا کہ یہ پاکستان کو ”عربستان“ یا ”بنیاد پرست اسلام“ سے جوڑنے کی سازش ہے، کیونکہ پام یا کھجور کا درخت عربستان اور وہابی اسلام کی دلیل ہے۔ میں خود ایسی بہت ساری گفتگو کا شاہد ہوں۔ تب بھی ہنسا کرتا تھا۔ اب بھی ہنستا ہوں۔ شناخت کے بحران میں کھجور پرستوں کو کھجور میں اسلام کا عروج نظر آتا ہے، جب کہ ”کھجور بھرشٹوں “ کو اس میں اسلام کا خوف۔

2۔ پھر سال 2010۔ 11 میں اسلام آباد اور انگریزی میڈیا پر یہ بحث بھی رہی کہ پاکستانی معاشرہ زیادہ بنیاد پرست اور شدت پسند ہو چکا ہے۔ کیونکہ یہ اب ”خدا حافظ“ کی بجائے ”اللہ حافظ“ کہنا شروع ہو گیا ہے۔ خادم نے پھر اک بار اپنے کانوں سے یہ ”نہایت سنجیدہ“ گفتگو سنی، اور پاکستان کے چند ایک نمایاں اخبارات میں اس پر مضامین بھی پڑھے۔ بقول شخصے جو تجزیات تھے ان کے مطابق، 1980 کی دہائی اور اس کے بعد میں پیدا ہونے والے اللہ حافظی ہیں، جب کہ اس سے پہلے کی پیدائش والے خدا حافظی۔ شاید آپ میں سے کافی خواتین و حضرات کو معلوم نہ ہو، مگر یہ کافی گرما گرم بحث رہی تھی۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ میرے چند ایک غیر مسلم دوست بھی اللہ حافظی ہیں۔ وہ یہ پڑھ لیں گے، اور جانتا ہوں کہ مسکرائیں گے بھی۔ ان کی اور میری اس پر گفتگو جو ہو چکی!

3۔ اسی معاشرتی و سیاسی شناخت کے بحران کا المیہ تھا کہ 2005 میں لاہور میں پہلی بین الاقوامی معیار کی اک میراتھن ہوئی۔ جنرل سید پرویزمشرف بھگوڑا غازی صاحب صدر، اور ان کو سو بار وردی میں منتخب کروانے والے، جناب پرویزالٰہی وزیراعلٰی تھے۔ ویسے پرویزالٰہی صاحب کے دور میں ہی ان کے صاحبزادے، اور بھتیجے کا بھی حوالہ اک دفاعی ادارے کے ساتھ معاملہ میں بہت دلچسپی کا حامل رہا، مگر بات آئی گئی ہوگئی! خیر، لاہور کے بعد یہ میراتھن گوجرانوالہ آن پہنچی کہ وہاں پر موجود اک دیوبندی عالم، جن کا اصل تعلق مردان سے تھا، اور وہ وہاں سے منتخب سیاستدان بھی تھے، نے اس میراتھن میں اسلام کے خلاف سازش تلاش کی کہ اس میں اک حصہ خواتین کا بھی تھا۔ عورت اور عورت کا وجود ویسے بھی تمام تاریخِ ملائیت کی نظر میں ”میر جعفر اور میر صادق“ ہی رہا ہے، کہ بے چاری کمزور جو ٹھہری، اور کمزور پر ہی تو بس چلتا ہے۔ اسلام کو بچانے کی خاطر وطن عزیز میں جلاؤ گھیراؤ اور مارگراؤ تو 1953 سے ہی تاریخ کا حصہ رہا ہے، لہٰذا یہی قسط وہاں بھی دھرائی گئی۔ شہر کا شہر بند ہوا، اینکر زدہ میڈیا کے ہاتھ میں بندوق نہ سہی، کیمرہ اور مائیک تو ہے ہی، اور ساتھ میں اقتداری ادرک کا سواد بھی جان چکا ہے، تو خواتین کی شرکت کو واقعی اسلام کو خطرہ بنا دیا گیا۔ گیارہ سال ہو چکے، ملائیت کے اسلام کو تو کوئی خطرہ نہیں، مسلمان مگر محفوظ نہیں۔ پاکستان بھر میں متعدد ڈاکٹر، پولیس آفیسر اور اعلیٰ سرکاری اہل کار شیعہ ہونے کی پاداش میں ”پار“ کر دیے گئے!

پاکستان کے سماجی و سیاسی شناختی بحران پر ان حوالہ جات کی نسبت کچھ زیادہ پیچیدہ بھی لکھا جا سکتا ہے، مگر فی الحال ان تین میں ہی سے آپ اپنی پوزیشن کا خود اندازہ لگا لیں کہ کہاں ہیں۔ وگرنہ، وہ معاملہ جو 1991 سے حافظ سجاد کے گوجرنوالہ میں قتل سے شروع ہوا، اس سلسلہ پر تو شاید اک دقیق کتاب بھی کم پڑے گی۔

بات ختم اس پر کرنا ہے کہ ریاستیں اور سماج، سیاسی اور عمرانی معاملات ہوتے ہیں، اور انہیں انہی دو عینکوں سے دیکھنا ہی بہتر رہتا ہے۔ آپ اگر اپنی مرضی کی عینک سے چیزوں اور معاملات کو دیکھنا چاہیں گے تو اس میں آپ کی مرضی بہرحال شامل ہوگی، مگر نظر کچھ بھی واضح نہیں آئے گا، اور جب نظر ہی درست نہیں آئے گا، تو محترمین، سمجھ میں کیا درست آئے گا؟

اس اشارہ کو تو مجھے یقین ہے کہ آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔ تو کیا شناختی بحران میں مبتلا رہئے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments