بڑے انسان اور گھن چکر لوگ


خواب ہر کسی کے ہوتے ہیں۔ کسی کے خواب بڑے ہوتے ہیں۔ کوئی سوچتا ہے کہ وہ بڑے ہو کے دنیا فتح کر لے گا۔ کوئی سوچتا ہے وہ وہ سب کچھ کرے گا جو اس کے ماں باپ نہ کر سکے۔ کوئی اپنی قسمت سے دور بھاگنا چاہتا ہے۔ تو کوئی چاہتا ہے کہ ماں باپ جیسا ہی بن جائے۔ ماں باپ جیسی ہی زندگی بنا لے تو وہ کامیاب ہے۔

مگر سچ یہ ہے کہ ہم سب میں سے بہت کم لوگ ہیں جو اپنے خوابوں کی تعبیریں پا سکتے ہیں۔ عمومی طور پہ تو ہم سب بس گزر بسر کر رہے ہیں۔ کمانے کی دوڑ۔ ڈگری حاصل کرنے کی دوڑ۔ بچے پالنے کی دوڑ۔ ان کو اچھے اچھے سکولوں میں ڈالنے کی دوڑ۔ پھر ان کی ڈگریوں کی دوڑ۔ کبھی کبھی کوشش کر کے اپنی ڈگر سے ہٹ کے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو زندگی وہیں روک لیتی ہے۔ ‘نہیں نہیں۔ تم ذمہ داریاں چھوڑ کے کہیں نہیں جا سکتے ہو۔ بچوں کو کھانا دینا ہے۔ ان کی فیس دینی ہے۔ اسکول سے پک کرنا ہے۔ رش میں پھنسنا ہے۔ گھر آ کے پھوٹے ہوئے بلب کو دوبارہ روشنی دینی ہے۔ عمومی سی زندگی کی یہی رعنائیاں ہیں۔ خاص تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔

پچھلے دنوں فیدل کاسترو کی موت واقع ہوئی، لوگوں نے دکھ اور درد کے قصیدے پڑھے۔ سوشلزم کے چاہنے والے ہائے گل پکارتے اور مارکسسٹ ہائے دل کا نعرہ مارتے۔ ہر ‘باغی’ نوحہ کناں تھا۔ اخبارات میں کاسترو کے کارنامے اور اس کی زندگی کے احوال درج کئے گئے۔ کاسترو نے کیوبا کی تقدیر بدل دی۔ لیکن کاسترو نے شہری اور شخصی آزادیوں کا گلا بھی گھونٹا۔ وہ جہاں کئی ہزار لوگوں کا ہیرو تھا۔ وہیں ایک ولن بھی۔ جہاں وہ امریکا جیسے ملک کے آگے ڈٹا رہنے والا سپاہی تھا۔ وہیں ایک سخت ترین آمر جس نے 47 سال کیوبا پہ حکومت کی۔

کاسترو کا باپ آنجل کاسترو ارگیز اسپین سے کیوبا آیا ایک مہاجر تھا۔ وہ گنے کا کامیاب کاروبار کر رہا تھا اور فیڈل اس کی دوسری بیوی سے 6 اولادوں میں سے ایک تھا۔ 8 سال کی عمر میں کاسترو کو بورڈنگ سکول بھیج دیا گیا جہاں وہ مستقل بدتمیزی کرتا رہا۔ تعلیم میں اسے دلچسپی نہ تھی۔ اور 1945 میں، بیس سال کی عمر میں، کاسترو نے اپنی یونیورسٹی میں سیاسی اور گینگ سے وابستہ سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ نیز یہ کہ کاسترو نے اچھے بچوں کی طرح پڑھائی لکھائی میں دل لگا کے ماں باپ کا نام روشن کرنے کی کوئی جستجو نہ رکھی۔ اس نے اپنی ایک منفرد راہ چنی اور اسی پہ چلتا چلتا وہ ایک انقلابی بن گیا۔

آپ نے چارلز ڈکنز کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ جی ہاں، جنہوں نے ایک بڑی تعداد میں انگریزی ناول لکھے۔ ملکہ وکٹوریہ کے زمانے کے بہترین لکھاریوں میں سے ایک نام چارلز جان ہفمان ڈکنز کا ہے۔ جب چارلز بارہ برس کا تھا تو اس کو اور اس کے گھر والوں کو شدید مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وقت اتنا کٹھن ہوا کہ چارلز نے اس عمر میں نوکری کی۔ وارن ویئر ہاؤس نامی ایک جوتے کالے کرنے والی فیکٹری میں چارلز دن کے 10 گھنٹے کام کرتا۔ اسے ہفتے کی 6 اٹھنیاں ملا کرتیں۔ جوتے کالے کرنے والی پالش پہ لیبل چسپاں کرنے والا یہ بچہ چوہوں اور گندگی سے گھری ہوئی اس فیکٹری میں کئی مہینے لگاتا رہا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فیکٹری میں کام کرنے والے بچوں کو کام کرتا دیکھنے کے لئے چلنے پھرنے والوں کے لئے شیشہ لگا دیا گیا۔ یعنی راہگیر سامعین بن گئے تھے۔ اور ڈکنز کو اس ذلت کا شدت سے احساس تھا۔

اگر آپ نے ڈکنز کا کوئی ناول پڑھا ہو یا اس ناول پہ مبنی کوئی فلم دیکھی ہو تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس کے کردار محنت کش طبقے کے ہی ہوتے ہیں اور ان مزدوروں اور اس غربت اور افلاس کا احساس ڈکنز کے لہجے اور زبان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ ذہن میں خیال آتا ہے کہ اگر ڈکنز نے وہ تلخ لمحے نہ دیکھ ہوتے تو کیا وہ انگریزی ادب کی شہرہ آفاق شخصیات میں سے ہوتا؟

شاعر نے بھی کیا خوب کہا:

میری مانو چلو منجھدار میں موجوں سے ٹکرا لو

وگرنہ دیکھنا ساحل پہ سارے ڈوب جائیں گے

کتنی عجیب بات ہے نا۔ ہم اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں بیٹا بڑا آدمی بننا ہے تو اچھے نمبر لاؤ، پیسہ کماؤ۔ سب کا کہنا مانو۔ مگر تاریخ میں تو جس جس نے تاریخ کا رخ بدلا اس نے حالات کا کہا مان کر نہیں بلکہ حالات سے لڑ کر کامیابی حاصل کی۔ شاید ہمیں اپنے بچوں کو یہ کہنا چاہئے۔ بیٹا تعلیم حاصل کرو، ڈگری حاصل کرو، نوکری کرو، سب کا کہا مانو، تاکہ سب کی طرح بن جاؤ۔ جیسے لاکھوں لوگ ایک عام زندگی بسر کر رہے ہیں تم بھی ویسی ہی زندگی بسر کرو۔ ہاں اگر زندگی میں کچھ بدلنا ہے۔ اگر دنیا کو بدلنا ہے۔ تو ہر الٹا کام کرو۔ سوال کرو۔ جواب ڈھونڈو۔ سرکشی اپناؤ۔

مگر سچ پوچھئے جناب۔ تو کسی ماں یا باپ میں یہ ہمت نہیں ہوتی کہ بچوں کو یہ درس دیں کہ بیٹا کل سے یونیورسٹی میں خوب ادھم مچا کے آنا تاکہ دنیا بدل جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم دنیا بدلتے دیکھنا تو چاہتے ہیں مگر اپنے خرچے پہ نہیں۔ اپنی اولاد کی ڈگری کی قیمت پہ نہیں۔ سوچئے تو ذرا۔ اگر کاسترو آپ کا بیٹا ہوتا، تو کیا کیوبا میں انقلاب آتا؟ اگر ڈکنز کا باپ معاشی پریشانی کا سامنا نہ کرتا تو کیا انگریزی ادب کو ‘great expectations ‘ نامی خزانہ مل پاتا؟

ولیم شکسپیر بھی زندگی کے عجیب مراحل سے گزرے۔ 18 سال کی عمر میں 26 سالہ خاتون سے شادی کی۔ ان کا ایک بیٹا 11 سال کی عمر میں چل بسا۔ شیکسپیئر کی زندگی کے 12 سال، جس کے بعد انہوں نے عمدہ ترین ڈرامے لکھے، تاریخ دان ان کے بارے میں پتہ کرنے سے قاصر ہیں۔ واللہ عالم کے اس دورانئے میں کیا ہوا اور کیسے ان پہ ایسا اثر پڑا کہ انہوں نے تا حیات زندہ جاویداں رہنے کی ٹھان لی۔ لیکن اس موضوع کی مناسبت سے حضرت نے ایک بات بالکل ٹھیک کہی تھی۔

“کچھ لوگ عظیم پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو عظمت کا درجہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اور کچھ لوگوں کو زبردستی عظیم ہونا پڑ جاتا ہے۔”

ہم اور آپ جیسے لوگ جو زندگی کی دوڑ میں بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ ایک سگنل سے دوسرے اور ایک مہینے کی تنخواہ سے دوسرے مہینے کی تنخواہ پہ چلتے چلتے عظمت کا وقت کہاں سے نکالیں۔ اپنے تئیں بس دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کبھی کبھی بلاگ لکھ لیا کرتے ہیں۔ کبھی موسیقی سن کے احساس کر لیتے ہیں کہ ہماری زندگی کی ان گنت قطاروں سے بڑھ کر بھی قدرت کا کوئی جمالیاتی رنگ ہے۔ اور پھر ہم خبروں میں کسی ‘عظیم’ آدمی کے گزر جانے کی خبر سن کر تبصرہ بھی کر دیتے ہیں۔ اور واپس  اپنی اپنی قطروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ہم جیسے لوگ ان عظیم لوگوں کی زندگیوں کی تمنا نہیں کر سکتے  مگر یہ ضرور امید کر سکتے ہیں کہ انسانی بقاء کے لئے بہت ضروری ہے کہ ایسے عظیم لوگ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں، انہیں ہمیشہ عظمت کی چاہ رہے اور وہ ہمیشہ نظام کے بہاؤ میں طغیانی پیدا کرتے رہیں۔ کم از کم ہم جیسے عام لوگ اس طرح اس بات پہ یقین کر لیتے ہیں کہ ہمارے بچے ڈگری حاصل کر بھی لیں تو کوئی نہ کوئی عظیم اور خاص انسان ضرور ہوگا جو تاریخ اور تمدن کا رخ ہمیشہ کے لئے ضرور موڑ دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments