انسان اور گدھا


\"nasirناصر محمود ملک

گدھا ایک مفید جانور ہے! بڑا صابر شاکر اور وفادار۔ لیکن حالیہ دنوں میں اس قدیمی جانور کی ایک اضافی خوبی سامنے آئی ہے کہ یہ مشقت طلب کام کے علاوہ لذّتِ کام و دہن فراہم کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان دنوں گدھے نے سواری اور باربرداری کی ازلی ذمہ داریوں سے ترقّی کرتے ہوئے جس طرح ہمارے دستر خوانوں تک رسائی حاصل کی ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ Beast of burden سے Feast of the urban تک رسائی قابل تعریف ہونے کے علاوہ اس قبیل کے دیگر جانوروں کے لئے قابلِ تقلید بھی ہے۔ گدھے کی زندگی میں یہ ’ عروج‘ پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے اسے ہمارے معاشرے میں جو ’پزیرائی‘ حاصل تھی اُسے کوئی گدھا ہی برداشت کر سکتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ہمارے شہر میں کئی جگہوں پر گدھے کا گوشت پکڑا گیا ہے جو مارکیٹ اور ہوٹلوں کو سپلائی کیا جاتا تھا۔ چنانچہ وہ خوش خوراک چٹخورے جو جگہ جگہ سے نہاریاں ، سری پائے اور کوفتے کباب کھانے کے شوقین ہیں ، گمان ِ غالب رکھیں کہ کسی نہ کسی دستر خوان پر اُنہیں اس شریف جانور سے ضرور واسطہ پڑا ہو گا۔ ذاتی طور پر ہمیں خود تو ایسی گوشت خوری کا کوئی First hand تجربہ نہیں ہے ( اور یہ یقینا ہماری خوش فہمی بھی ہو سکتی ہے ) لیکن بیرونِ ملک کئی ایسے دوستوں سے ہمارا قریبی واسطہ رہا جن کی مرغوب غذاﺅں میں سے ایک متذکرہ گوشت بھی تھا۔ وہ اس کی لذت کے گن گایا کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں اس کے مختلف حصوں کے ذائقے اور فائدے بتائے ۔ ان کے مطابق گدھے کے بعض حِصے ایسے ہیں جن کا ذائقہ زمین پر چلنے والے کسی بھی جانور سے زیادہ مزیدار ہوتا ہے۔ البتہ ، ان حِصوں کا نام نہیں بتایا گیا ! ہم جب اُن سے کہتے کہ اُنہیںگھِن نہیں آتی ؟ تو وہ یوں مسکراتے جیسے کہہ رہے ہوں، ’ ہائے کم بخت ! تو نے پی ہی نہیں‘۔ یہیں سے ہمیں اندازہ ہوا کہ’ غوتا خوری ‘ ہو یا ’کھوتا خوری ‘ ، مشکل صرف آغاز میں ہی ہوتی ہے۔

اک زمانہ تھا کہ گدھے صرف کمہاروں کے ہاں پائے جاتے تھے ، اب تو خیر! یہ کسی بھی جگہ مل سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں گدھوں کی تعداد چار سے پانچ کروڑ تک ہے۔ سب سے زیادہ ان کی تعداد چین میں ہے اور اس لحاظ سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ گدھوں کی مختلف اقسام ہیں ! ہمارے ہاں جو گدھے پائے جاتے ہیں عمومی لحاظ سے اُن کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ گدھے ہیں اور دوسری وہ قسم ہے جنہیں بتانا پڑتاہے کہ تم بھی گدھے ہی ہو۔ اس دوسری قسم کی تعداد کے لحاظ سے ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ گدھے سوچ بچار کے شوقین بھی ہوتے ہیں!! اکثر اوقات آپ نے کسی گدھے کو سڑک کنارے ، سر نیہوڑائے، عالمِ آب و گِل سے بے خبر گہرے غورو خوض میں مشغول دیکھا ہو گا۔ ہمارے لئے ان کی یہ کیفیت ہمیشہ حیرت و عبرت کا باعث ہی رہی! یعنی اس قدر محویت ، استغراق اور گیان دھیان کے بعدبھی آپ گدھے ہی رہیں توایسی مشق سے کنارا ہی بھلا !

بارے گدھوں کا ذکر ہو رہا ہے تو ہمیں سکول کے ایک ہم جماعت بے طرح یاد آ رہے ہیں۔ آپ حلیتاً، خصلتا ً ، کلیتاً گدھے واقع ہوئے تھے۔ موصوف کا اصلی نام تو، بخدا ، ہمیں تب معلوم تھا نہ اب یاد ہے بس انہیں ہمیشہ اسی جانور کے نام سے لکھا اور پکارا گیا جس کا تذکرہ آج یہاں ہو رہا ہے ۔ گھر سے لے کر سکول تک، ہر جگہ یہی نِک نیم اُن کی اصل پہچان تھی، یہاں تک کہ جب بھی کبھی کسی نے اُن کو اصلی نام سے پکارا تو اسے مایوسی ہوئی کہ وہ سن کر نہیں دیتے تھے۔ اس جانور کی جملہ خوبیاں و خصائص بدرجہ کمال آپ میں موجود تھیں۔ ایسے اعلیٰ ’ گدھائی اوصاف ‘ تو شاید کسی ایک گدھی میں بھی مجتمع نہ ہوں! خصائص جو کسی بھی اعلیٰ ذوق کے حامل گدھے کے لئے قابلِ رشک ہو سکتے تھے ۔ بس ’ ڈھینچوں۔ ڈھینچوں‘ کی کمی تھی جو ان کے قدرے اونچا بولنے سے پوری ہو جاتی۔ ایک روز ایک بالکل نئے استاد کلاس میں آئے تو ہم نے سوچا کہ چلو اب موصوف کا اصل نام سننے کو ملے گا۔ لیکن ابھی تعارف ہی چل رہا تھا کہ آپ کی حماری خوبیاں یوں منکشف ہوئیں کہ نئے اُستاد کی زبان پر بھی خود بخود ان کا نِک نیم جاری ہو گیا۔ ہم عملِ تناسخ کے قائل نہیں ورنہ ان کے پہلے جنم کے بارے میں وہی گمان کرتے جو اس وقت آپ کر رہے ہیں۔

گدھے بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن شاید ان کی صلاحیتوں سے مکمل فائدہ نہیں اُٹھایا گیا۔ ۔ بلکہ کئی دفعہ ہم نے انہیں بیچ چوراہے میں کھڑے پورے زعم کے ساتھ بھر پور احتجاج کرتے پایا جیسے کہہ رہے ہوں کہ ان کی صلاحیتوں سے کما حقہُ استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ ایسے میں ان کا جوش و ولولہ ان کے اس دعوے کی واقعی تائید کرتا بھی نظر آتا ہے۔ ہمارے نزدیک گدھے کی سب سے بڑی خوبی اس کا گدھا ہونا ہے۔ اکثر گدھے بالکل ہی گدھے ہوتے ہیں۔ ہم نے گدھوں سے بڑھ کر اسمِ بامسمیٰ کسی کو نہیں پایا۔ بس ! ایک دم گدھے…. کاش ایسی خوبی ہم انسانوں میں بھی ہوتی! یعنی اسمِ با مسمیٰ ہونا۔ ۔ کاش ہم انسان ہوتے۔ بس ایک دم انسان !!

اب تو فرشتے بستے ہیں اس دیس میں
کبھی یہاں انساں ہوا کرتے تھے !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments