سوشل میڈیا کی خفیہ کھڑکی


\"sana-batool\"کھڑکی استعارہ ہے سوچ کا، خیال کا، زندگی، کا حرکت کا، وسعت نظری کا۔ یہ دل کی ہو یا دماغ کی نئی امید کا چراغ کہلاتی ہے۔ تمام فنون شاعری و ادب سے لےکر فن تعمیر تک اسے مثبت انداز سے پیش کرتے ہیں۔ یہ تازگی اور خوشگواریت کی علامت ہے۔ کسی قوم کا فن تعمیر اس کی سوچ اور نفسیات کا نہ صرف عکاس ہوتا ہے بلکہ اس کے پیچھے کارفرما انداز تعمیر کے عوامل بھی ظاہر کرتا ہے جیسا کہ بلند و بالا اور چاروں جانب سے اٹھائی گئی دیواریں عدم تحفظ کی غماز ہوتی ہیں۔

 جان رسکن\’\’ دا سٹون آف وینس\’\’ میں اس بات پہ زور دیتے ہیں کہ انداز تعمیر کسی معاشرے کی سماجی حالات کا اظہار ہوتا ہے۔ بات درست ہے انسان کی بنیادی ضروریات میں تعمیر بھی شامل ہے اسے اپنے سکون کے لیے گھر چاہیے تو عبادت کے لیے بھی کوئی مقام درکار ہے، تعلیمی اور کاروباری معاملات کے لیے کسی عمارت کی ضرورت پیش آتی ہے تو سیر و تفریح اور فرصت سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی کوئی جگہ چاہیے۔ یہ براہ راست معاشرے سے منسلک چیز ہے اس پہ آب و ہوا، ماحول کے علاوہ جن عوامل کا اثر پڑتا ہے وہ معاشرتی اقدار اور حالات ہیں۔ لیکن عمارت کیسی ہی کیوں نہ ہو اس میں کھڑکی کا تصور تازہ ہوا اور آرائش کا ہوتا ہے۔ ہر دور کے اپنے تقاضے اور ضروریات ہوتی ہیں۔ وقت کا دھارا کبھی رکتا نہیں ہمیشہ بہتا رہتا ہے۔

وقت گزرا ٹیکنالوجی کا سیلاب آ پہنچا کمپیوٹر نے انسان کو ایک نئے دور سے روشناس کروا دیا۔ اس کی کھڑکی نے کوئی ایک منظر دکھانے کی بجائے دنیا کے تمام مناظر دکھانا شروع کیے۔ بات علم کی ہو معلومات کی یا عالمی حالات کی ایک ایسی کھڑکی وجود میں آئی جو کھلتے ہی سب آسان کر دیتی ہے۔ جہاں یہ سیکھنے سکھانے کا باعث ہے وہیں وقت گزرنے کے ساتھ اس نے لوگوں کو سوشل میڈیا کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں وہ ایک دوسرے سے جڑ سکتے ہیں بات چیت کر سکتے ہیں اپنی زندگی کے واقعات اور حالات، سوچ و احساسات، دکھ اور سکھ ایک دوسرے سے بانٹ سکتے ہیں۔

سو شل میڈیا کی ایک اپنی کھڑکی ہے جو دیگر کھڑکیوں کے برعکس چھپی ہوئی ہے۔ جو باہر کی دنیا دکھانے کی بجائے ان \’\’رازوں \’\’ کو سنبھال رکھتی ہے جو ہر کسی کو بتانے والے نہیں ہوتے۔ اس کھڑکی کا نام ہے ان باکس۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں آپ کسی ایک فرد سے یا اپنے ہم خیال افراد سے ان معاملات پہ تبادلہ خیال کر سکتے ہیں جنہیں آپ سب کے ساتھ شئیر نہیں کرنا چاہتے۔ یہ ہے تو سہولت لیکن اس کو استعمال کرنے والے بھی دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں کم و بیش ڈیجیٹل جنیریشن کا نام دیا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے آنکھ ہی اس ماحول میں کھولی جہاں پیدا ہوتے ہی انہیں سیلفی کے لیے پوز کرنا آتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو بدلاؤ کے اس دور کے گواہ ہیں جنہوں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جہاں کسی حسینہ کو دیکھنا ایک کھٹن کام تھا بات کرنا یا ہنسی مذاق کرنا تو دور کی بات۔ جہاں جذبات کا اظہار کرنا غلط سمجھا جاتا تھا تو ان خیالات کا اظہار تو نا قابل تصور تھا جو دو مخلتف اصناف سے متعلق ہوں۔ یہ لوگ دو مختلف اور تیزی سے بدلتے ادوار کےگواہ ہیں۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کے انقلاب کو ایک سونامی کی صورت دیکھا ہے۔ جو اتنی تیزی سے آیا کہ کسی کو سوچنے سمجھنے اس کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اس نے اپنی جگہ خود بنائی اور اتنی سرعت سے بنائی کہ سماجی ترتیب اور اقدار کو تہہ و بالا کر دیا۔ عمر اور صنف کو ملحوظ رکھ کے دوستی کرنے کا تصور ختم ہو گیا۔ اگر کچھ ضروری رہا تو طبیعتوں کا میلان اور ہم خیالی۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ بعض صورتوں میں اسے بھی ملحوظ نہیں رکھا جاتا تو بے جا نہ ہو گا۔

جیسے تیزی سے سوشل میڈیا کا استعمال پھیلا ویسے ہی اس کے ذریعے تعلق بنانا حلقہ احباب بڑھانا بھی آسان ہو گیا۔ جہاں یہ بات حیران کن تھی وہیں خوشگوار حیرت کا باعث بھی۔ لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے، بات کرنے ک بہتر موقع ملا۔ لیکن ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے کہ اتنی تیزی سے آنے والے بدلاؤ کا ساتھ اقدار نہیں دے سکتیں۔ قدوں کو بدلنے میں تہذیب کا حصہ بننے میں زمانے درکار ہوتے ہیں۔ تو اقدار کہیں پیچھے رہ گئیں اور زمانہ آگے نکل گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لڑکی یا عورت جسے اس سماج میں نظر بھر کے دیکھنا بھی دوبھر ہو۔ وہی سوشل میڈیا پہ اگر فرینڈ لسٹ میں ہے تو سمجھا جاتا ہے وہ دسترس میں ہے۔ وہ چاہے یا نہ چاہے اس کو پیغام تو بھیجا جا ہی سکتا ہے۔ اگر وہ کچھ بے تکلفی کا مظاہرہ کرے تو یہ عین درست سمجھا جاتا ہے کے اس سے انتہائی ذاتی نوعیت کے سوالات کیے جا سکیں۔ وجہ یہ نہیں کہ ایسا کرنا آسان ہو گیا ہے وجہ در اصل یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال دسترس میں آ چکا ہے اور ان ہاتھوں میں ہے جنہوں نے کبھی اس آزادی اور ماحول کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ انہیں وہ وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اسے درست طور پہ سمجھ سکیں یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک کمرے میں بیٹھ کے 7 ڈی سے محظوظ ہوا جائے جہاں آپ اپنی عینک لگا کے کچھ دیر کو ہی سہی یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ آپ سکرین پہ چلنے والی ویڈیو کا حصہ ہیں اور اپنے اردگر کے ماحول کو یکسر فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ اپنے ذوق کے لحاظ سے ایک ایسی دنیا کی سیر کر آتے ہیں جس کا حقیقت سے کہیں دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کا زیادہ اثر ان لوگوں پہ ہے جنہوں نے وقت کی تبدیلی دیکھی ہے لیکن اسے جذب نہیں کر پائے وہ اس مشق میں زیادہ مشغول ہیں تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔ اس میں قصور ان کا نہیں تیز رفتاری کا جس کا وہ ساتھ نہیں دے پائے۔ تو تہذیب اور اقدار کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم سوشل میڈیا کو استعمال کرنا تو سیکھ چکے ہیں لیکن اس کے درست استعمال سے نا بلد ہیں۔ اس کی اخلاقیات کا تعین کرنے کا نہ کسی کے پاس وقت ہے نہ ہی اس کی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن ایسا ہونا ضروری ہے۔ اگر بہت گہرائی میں جائے بغیر بھی محض یہ سمجھ لیا جائے کہ دوسرے لوگوں کی ذاتی زندگی کا احترام ضروری ہے تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس سے کم از کم سوشل میڈیا پہ پھیلتے ہوئے عدم اعتماد کے رحجان پہ ضرور قابو پایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments