کراچی کا نوحہ۔۔۔


\"zubair\"نام تو میرا آج بھی کراچی ہے لیکن کیا میں وہی کراچی ہوں جو چند سال پہلے ہوا کرتا تھا؟ آپ درست سوچ رہے ہیں۔ میں بالکل بھی ویسا نہیں ہوں۔ اس وقت میری وحشت کا کیا عالم ہے؟ آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ میرے اعصاب شل ہوچکے ہیں، دل چاہتا ہے، ان لوگوں کے گریبان نوچ ڈالوں جنہوں نے میری شکل مسخ کرکے رکھ دی ہے۔ آخر مجھے کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ صرف چند سال پہلے تک دنیا میں میری ایک منفرد پہچان تھی، ایک تشخص تھا، ایک نام اور وقار تھا۔ چمکتی دمکتی، صاف ستھری اور چوڑی سڑکیں دیکھ کر میرا اپنا سینہ چوڑا ہو جاتا تھا۔ شہروں کی دلہن اور روشنیوں کا شہر کے القابات پرانے ہو رہے تھے، اب تو لوگوں نے مجھے پلوں کا شہر بھی کہنا شروع کر دیا تھا۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کے بعض شہر بھی میری سبک رفتار ترقی پر رشک کرتے تھے۔ کیا لاہور، کیا پشاور، میرا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا لیکن پھر زرداریوں، مزاریوں، لغاریوں، مگسیوں، چانڈیوں اور سیدوں کا جمہوری دور شروع ہوگیا۔ میری قسمت ایک ایسے تراسی چوراسی سالہ شخص کے ہاتھ میں لکھ دی گئی جس میں ’’وفاداری بشرط زرداری ‘‘ کے علاوہ دوسری کوئی خوبی نہیں تھی۔ بڑے شاہ صاحب کے حواس کا تو عالم یہ تھا کہ وہ اکثر خود کو بھی بھولے رہتے تھے، مجھے کیا یاد رکھتے؟ یوں میری بربادی کا آغاز ہوگیا۔ بلدیاتی اور سرکاری ادارے آہستہ آہستہ ناکارہ ہونے لگے۔ بس ’’ننگے نہاؤ تے کھلا کھاؤ‘‘ کا چلن عام ہوتا گیا۔ بیوروکریسی کو کھلی چھوٹ مل گئی، جو جی میں آئے کرو کوئی کچھ نہیں پوچھے گا۔ کام چوری کا کلچر دو سو بیس کی رفتار سے سفر کرتا ہوا اوپر سے نیچے تک پہنچ گیا۔ پہلے پانچ سال تو میں نے روتے دھوتے اس انتظار میں گزار دیے کہ شاید اگلی بار کوئی درد دل رکھنے والا شخص میری دیکھ بھال کا ذمہ اٹھالے گا۔ میرے زخموں پر مرہم رکھے گا، پرانی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا لیکن میں یہ دیکھ کر مبہوت رہ گیا جب فیصلہ سازوں نے ایک بار پھر میرا وجود اسی شخص کے سپرد کردیا جو میرا چہرہ مسخ کرنے کا ذمے دار تھا۔

آج مجھ پر طنز وتشنیع کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ میرے اپنے ہی لوگ مجھے گندگی کا ڈھیر کہتے ہیں، کوئی ’’کچراچی‘‘ کہہ کر کچوکے لگاتا ہے۔ کوئی لاوارث کہہ \"elphinstone-street-now-zaib-un-nisa-karachi-in-1970s\"کر زخموں پر نمک چھڑکتا ہے، کوئی آلودگی کا گڑھ کہتا ہے، بات صرف کھٹارا اور ناکارہ ٹرانسپورٹ کے دھوئیں اورکان پھاڑ شور تک محدود ہوتی تو میں سہہ لیتا۔ ٹریفک جام کا روگ بھی میرے لیے کوئی نیا نہیں، ان عذابوں کا تو میں برس ہا برس سے عادی رہا ہوں لیکن روزانہ ہزاروں ٹن کچرا جلانے کی نئی ریت چل نکلی ہے، میری خنک ہواؤں کو زہرآلود کیا جارہا ہے۔ میرے باسیوں میں سانس اور گلے کی بیماریاں تھوک کے بھاؤ بانٹی جا رہی ہیں۔ کچرے کے پہاڑ میری شاہراؤں کا گلہ دبا رہے ہیں، میرے لیے سانس لینا تک محال ہو رہا ہے۔ بہت ضبط کیا لیکن اب ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہیں۔ چپ رہا تو میرا کلیجہ پھٹ جائے گا، نروس بریک ڈاؤن ہو جائے گا۔ غضب خدا کا ایک عالمی ادارہ مجھے دنیا کے دس ناقابل رہائش شہروں میں شمار کر رہا ہے۔ مجھے۔۔۔ ؟ جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، مجھے۔۔۔ جو معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہے، جس کے بغیر ملکی بجٹ کا ڈھانچہ زمین بوس ہوجائے۔ وہ شہر جو دو ڈھائی کروڑ لوگوں کا مسکن ہے، کیا یہ کوئی چھوٹا غم ہے؟ کیا یہ اتنی معمولی بات ہے کہ میں اسے خاموشی سے برداشت کر لوں؟ میں پوچھتا ہوں آخر میرے ساتھ سوتیلی ماؤں بلکہ ڈائنوں جیسا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ میری مانگ بھرنے کے لیے کچرے کی راکھ ہی رہ گئی ہے؟ میں جو معاشی انجن ہوں اور مجھے ہی کاٹھ کباڑ میں بدلا جا رہا ہے، کیا میں اس پر احتجاج نہ کروں؟ میں پوچھتا ہوں کہ میری آنکھوں سے ترقی، ہریالی اور خوش حالی کے خواب کیوں نوچے جا رہے ہیں؟ اپنی بربادی کے ذمے داروں سے کہتا ہوں جب تم مجھے سنبھال نہیں سکتے تو حکمرانی کے چوغے اتار کیوں نہیں پھینک دیتے؟ میری قسمت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں کیوں نہیں دے دیتے جو میری تکلیفوں کو سمجھتے ہوں، جنہیں میری اذیتوں کا ادراک ہو، یہ کیسے منتظم ہیں جن سے شہر کا کوڑا بھی نہیں اٹھایا جاتا؟ یہ کیسے منصوبہ ساز ہیں، بیس کلو میٹر کا لیاری ایکسپریس وے ان سے بیس سال میں نہیں بن پاتا؟ میں پوچھتا ہوں کہ ایک شہر تم سے چلایا نہیں جاسکتا تو صوبہ کیسے چلاؤ گے؟ اور اوپر سے ملک چلانے کے خواب بھی دیکھتے ہو۔۔۔ ؟ خدا کا شکر ہے کہ 2013 کے انتخابات میں اندھی تقلید اور مزاروں کی مہروں والے سکے صرف سکھر سے نواب شاہ تک ہی کارآمد ثابت ہوئے ورنہ اس ملک کا بھی وہی حشر ہوتا جو اس وقت میرا ہو رہا ہے۔ آپ کی انہی نااہلیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے تو باقی تینوں صوبوں سے آپ کا پتہ صاف ہوگیا لیکن تم ہو کہ کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔
کوئی سیاح لکھ رہا ہے کہ’’ نیویارک کی کئی سڑکوں کے مقابلے میں لاہور کی سڑکیں، بالخصوص جیل روڈ، فیروز پور روڈ، کینال روڈ، رائیونڈ روڈ بہتر ہی نہیں بہت \"karachiبہتر ہیں؟‘‘ یہ اعزاز اور فخر تو کچھ سال پہلے تک میرے پاس بھی تھا۔ جو بھی لاہور سے ہو کر آتا ہے مجھے باتیں سناتا ہے کہ لاہور کی سڑکوں پر راتوں کو پانی کا چھڑکاؤ ہوتا ہے، روزانہ مشینری سے صفائی ہوتی ہے۔ اسٹریٹ لائٹس پوری آب و تاب سے روشن ہوتی ہیں، شہر کی سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہوئے دبئی کا گمان ہوتا ہے۔ سڑکوں پر کچرے کا وجود نہیں، خوشنما پھول اور پودے گرین بیلٹوں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ ایمان داری سے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کل تک یہ سب میری خصوصیات نہیں تھیں؟ میں اپنے بھائیوں کی ترقی سے حسد نہیں کرتا لیکن یہ سوچ کر میرا خون کھول اٹھتا ہے کہ ان روایتوں کا تو میں امین بلکہ بانی تھا۔ مجھے تو اور آگے بڑھنا تھا لیکن مجھے ریورس گیئر میں کیوں ڈال دیا گیا ہے؟ کیا یہ ناانصافی اور زیادتی کی انتہا نہیں؟ میں لاہوری شریفوں سے بھی کہتا ہوں آپ کے شہر کو کوئی استنبول کہے یا مراکش مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ سڑکوں کے جال بچھاؤ، انڈر پاسز اور پل پر پل بناؤ، میں اس پربھی خوش ہوں لیکن مجھے کم از کم کراچی تو رہنے دو، پنجاب سے ہٹ کر بھی پاکستان ہے، گردن اٹھا کر کچھ آگے بھی دیکھنے کی عادت ڈال لو۔ بڑی مہربانی کہ آپ نے مجھے گرین بس لائن کا ایک منصوبہ دے دیا، میں آپ کا شکر گزار ہوں لیکن یہ بھی احسان نہ فرماتے تو میں آپ کا کیا بگاڑ سکتا تھا؟ میں تو ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکا جو فرزندان مہران ہیں، جو میرے اپنے لخت جگر ہیں تم تو پھر تھوڑی دور بستے ہو۔ آپ کو ایک اٹھارہویں ترمیم کا بہانہ ملا ہوا ہے، کہہ دیتے ہو شہروں کو بنانا سنوارنا صوبوں کی اپنی ذمے داری ہے، ایسا ہے تو پھر کراچی سے وصولی کے اصول بھی تو تبدیل کرلو، قومی مالیاتی ایوارڈ کو ہی اوپر نیچے کر لو لیکن میں جانتا ہوں یہ آپ کبھی نہیں کرو گے۔ چلو خود کچھ نہیں کر سکتے تو اپنے حریف نما دوستوں کو ہی سمجھاؤ کہ میری شناخت سلامت رہنے دیں، مجھ پر کچھ رحم کھائیں؟ ویسے باقی معاملات میں جہاں جی چاہتا ہے آپ من مانی کرلیتے ہو، کراچی کی تعمیر و ترقی کی بات آئے تو آپ کو صوبائی معاملات میں مداخلت یاد آجاتی ہے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

چند دن پہلے تک تو میں سوچنے لگا تھا کہ میرے ہاں سے سڑکیں مرمت کرنے والے محکمے کا شاید وجود ہی مٹ چکا ہے، لیکن پھر میری حیرت و خوشی کی انتہا نہ \"traffic-jam-karachi\"رہی جب میں نے آٹھ سال میں پہلی بار، جی ہاں پہلی بار تین ہٹی کے قریب کچھ لوگوں کو سڑک پر پڑا گڑھا بھرتے دیکھا۔ یقین کریں میں نے شکر کا کلمہ پڑھا، کیونکہ اس گڑھے سے میری بہت تلخ یادیں وابستہ ہیں، میں نے اس طویل عرصے میں یہاں کئی گاڑیوں کے ایکسیڈینٹ ہوتے اور ایکسل ٹوٹتے دیکھے، درجنوں موٹر سائیکل سواروں کو گر کر زخمی ہوتے دیکھا، اسی گڑھے کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنسے سیکڑوں شہریوں کو اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں لٹتے بھی دیکھا۔ سید بادشاہ چلو آپ خود ہی مجھے بتاؤ، کیا سڑک کا ایک فٹ ٹکڑا مرمت کرنے کے لیے آٹھ سال لگتے ہیں، جی تو چاہتا ہے کہ خواجہ آصف کے الفاظ دہراوں، کوئی شرم۔۔۔۔ لیکن مجھے پتہ ہے فرق پھر بھی کچھ نہیں پڑے گا؟ آپ شروع میں فلمی شہنشاہ کی طرح راتوں کو دورے کرتے تھے لیکن اب کیا ہوا، پرانے رنگ میں رنگے گئے ناں؟ شاہ صاحب سے میں پوچھتا ہوں کیا آپ نے یونیورسٹی روڈ دیکھا ہے؟ کیا اسے دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ آپ یہ سڑک موہنجو داڑو سے اٹھا کر لائے ہیں؟ کیا انڈہ موڑ کے قریب سے گزر ہوا ہے؟ کیا یہ سڑک آپ کو پتھر کے زمانے کی یاد نہیں دلاتی؟ اصغر علی شاہ اسٹیڈیم کے باہر آسمان کو چھوتے کچرے کے انبار سے پر کبھی نظر پڑی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ نارتھ کراچی کے نسبتاً پوش علاقے پسماندہ بستیوں کا منظر پیش کر رہے ہیں؟ کیا غلاظتوں اور مسائل کے انبار میں لپٹی قیوم آباد اور اورنگی ٹاؤن جیسی بستیوں کے نام سے آپ واقف ہیں؟ کبھی وہاں کے مکینوں سے جا کر پوچھا کہ تعفن کے اس گڑھ میں وہ کیسے جیتے ہیں؟ ذرا ان کے دکھوں کا تار چھیڑ کر تو دیکھو، لیکن نہیں۔۔ آپ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ ان غریبوں سے آپ کا کیا لینا دینا؟ ایسے بھوکے ننگوں سے تو آپ کا رشتہ ذوالفقارعلی بھٹو کی موت کے ساتھ ختم ہوگیا تھا مگر بدقسمتی تو یہ ہے کہ جن سے تمہارا تعلق باقی بچا ہے وہاں کے حالات تو مجھ سے بھی بد تر ہیں۔ سکھر سے حیدر آباد تک ہر شہر تمہاری غفلتوں، نااہلیوں \"paradise-cinema-karachi-in-1948\"اور بدعنوانیوں کی داستانیں سنا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے اپنی ترجیحات بدل لو، اپنا قبلہ درست کرلو کیونکہ آج تو تمہارے وزیر بریف کیسوں سمیت دبئی چلے جاتے ہیں، پیسوں کی منتقلی کے لیے تمہیں مبینہ طور پر خوبرو ماڈلز کا قرب بھی حاصل ہے لیکن اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو یاد رکھنا ایسا وقت بھی آئے گا کہ میری جیب میں تمہارے لیے لاڑکانہ یا سیہون شریف کا کرایہ دینے کے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔ سنبھل جاؤ! مجھے تھر کی وہ لاغراور افلاس زدہ عورت مت بناؤ جو اس قابل بھی نہیں رہتی کہ اپنے بلکتے بچے کو چند قطرے دودھ ہی پلا سکے۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک پروفیسر مارکو گولڈانی نے گلاسکو یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران سوال اٹھایا کہ کیا کوئی ایسی نمائندہ جمہوریت دیکھی ہے جہاں کے باشندے سیاسی رہنماؤں کو اپنی زندگی اور احساسات سے بالکل کٹا ہوا پاتے ہوں؟ طلبا سوچ رہے تھے یہ تو سوال ہی نہیں بنتا کیونکہ جمہوری حکومتیں اور عوام میں تعلق تو روح اور جسم جیسا ہوتا ہے، لیکن میں گولڈانی سے کہتا ہوں، سندھ میں دو دن نہیں دو گھنٹے گزار لو، جواب مل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments